مہاجرین سے بچنے کے لیے ہنگری آئین میں ترمیم کا خواہاں
3 مئی 2018
ہنگری کی حکمران جماعت فیدیس پارٹی ملکی آئین میں ترمیم کی خواہاں ہے تاکہ یورپی یونین ہنگری میں مہاجرین کی آباد کاری کے لیے اس ملک کو مجبور نہ کر سکے۔ ہنگری کی نیوز ایجنسی نے یہ بات پارلیمانی سربراہ کے حوالے سے بتائی ہے۔
اشتہار
خبر رساں ادارے روئٹرز کے مطابق ہنگری اور مشرقی یورپ کی کئی دیگر سابقہ کمیونسٹ ریاستیں یورپی یونین کی ان کوششوں کی سخت مخالف ہیں جن کا مقصد یورپ کا رُخ کرنے والے ایسے مسلمان مہاجرین اور تارکین وطن کو یورپی یونین کی تمام رکن ریاستوں میں بسانا ہے جو سیاسی پناہ کی تلاش میں یہاں پہنچے۔
ہنگری کے موجودہ وزیر اعظم وکٹور اوربان نے اس حوالے سے ایک آئینی ترمیم کی تجویز 2016ء میں ملکی پارلیمان میں پیش کی تھی تاہم اپوزیشن جماعت یوبِک کی طرف سے اس ترمیم کی مخالفت کے باعث پارلیمان میں اس کی منظوری کے لیے درکار دو تہائی اکثریت حاصل نہیں ہو پائی تھی۔
تاہم آٹھ اپریل کو ہونے والے انتخابات میں اوربان کی جماعت فیدیس پارٹی نے نہ صرف مسلسل تیسری مرتبہ کامیابی حاصل کر لی بلکہ اسے پارلیمان میں دو تہائی اکثریت بھی حاصل ہو گئی ہے۔ جس کے بعد یہ جماعت آئین میں ترامیم کے قابل ہو گئی ہے۔
ہنگری کی نیوز ایجنسی MTI نے پارلیمانی سربراہ میٹ کوکسس کے حوالے سے بتایا ہے کہ پارلیمنٹ ’’اسٹاپ سوروس‘‘ نامی ایک قانونی بِل پر بھی بات کرنا چاہتی ہے جس کے تحت ہنگری میں غیر سرکاری تنظیموں کے حوالے سے قوانین کو سخت بنایا جانا ہے۔ ان میں ہنگری میں پیدا ہونے والے امریکی ارب پتی جارج سوروس کی غیر سرکاری تنظیمیں بھی شامل ہیں۔
ہنگری کے وزیر اعظم وکٹور اوربان سوروس پر الزام عائد کرتے ہیں کہ وہ ہنگری میں مسلمان تارکین وطن کی بھرمار کرنا چاہتے ہیں۔ تاہم امریکا میں آباد انسانی ہمدردی کے لیے کام کرنے والے جارج سوروس ایسے الزامات کی تردید کرتے ہیں۔
’مہاجرین کے روپ میں مسلمان حملہ آور یورپ آ رہے ہیں‘
تیسری مرتبہ ہنگری کے وزیراعظم منتخب ہونے والے وکٹور اوربان یورپی ممالک میں مہاجرین کی آمد کے خلاف اٹھنے والی نمائندہ آواز رہے ہیں۔ تارکین وطن کو ’زہر‘ اور مہاجرت کو ’حملہ‘ قرار دینے والے اوربان تنقید سے کبھی نہیں ڈرے۔
تصویر: picture-alliance/dpa
’مہاجرین کے روپ میں مسلم حملہ آور‘
اوربان نے جرمن روزنامے ’دی بلڈ‘ کو دیے ایک انٹرویو میں کہا تھا،’’میں ان لوگوں کو مسلم تارکین وطن نہیں بلکہ مسلمان حملہ آور سمجھتا ہوں۔ مجھے یقین ہے کہ بڑی تعداد میں یورپ آئے یہ مسلمان مہاجر ہمیں متوازی معاشروں کی طرف لے کر جائیں گے کیوں کہ مسیحی اور مسلم سماج کبھی یکجا نہیں ہو سکتے۔‘‘ اوربان کا کہنا تھا کہ متنوع ثقافت محض ایک واہمہ ہے۔
تصویر: Reuters/F. Lenoir
’مہاجرین آپ کو چاہیے تھے، ہمیں نہیں‘
جرمن اخبار ’دی بلڈ‘ کے اس سوال پر کہ کیا یہ نا انصافی نہیں کہ جرمنی تو لاکھوں کی تعداد میں مہاجرین کو قبول کرے لیکن ہنگری چند کو بھی نہیں، اوربان نے کچھ یوں رد عمل ظاہر کیا،’’ مہاجرین آپ کو چاہیے تھے، ہمیں نہیں۔ مہاجرت سے ہنگری کی خود مختاری اور ثقافتی اقدار کو خطرہ ہے۔‘‘
تصویر: Reuters/L. Balogh
’مہاجرت زہر ہے‘
یہ پہلی بار نہیں جب ہنگری کے اس رہنما نے مہاجرت پر تنقید کی ہے۔ سن دو ہزار سولہ میں بھی اپنے ایک بیان میں اوربان نے کہا تھا کہ ہنگری کو اپنے مستقبل یا معیشت یا ملکی آبادی کو برقرار رکھنے کے لیے کسی ایک بھی مہاجر کی ضرورت نہیں ہے۔ انہوں نے مزید کہا تھا،’’ہمارے لیے مہاجرت حل نہیں بلکہ مسئلہ ہے، دوا نہیں بلکہ زہر ہے۔ ہمیں تارکین وطن کی ضرورت نہیں۔‘‘
تصویر: picture alliance/dpa/AP Photo/P. Gorondi
’دہشت گردی اور ہم جنس پرستی کی درآمد‘
وکٹور اوربان نے سن 2016 کے اوائل میں بلڈ اخبار کو بتایا تھا،’’اگر آپ مشرق وسطیٰ سے لاکھوں کی تعداد میں غیر رجسٹرڈ شدہ تارکین وطن کو قبول کرتے ہیں تو اس کا مطلب یہ ہو گا کہ آپ اپنے ملک میں دہشت گردی، سامیت دشمنی، جرائم اور ہم جنس پرستی کو در آمد کر رہے ہیں۔‘‘
تصویر: Reuters/L. Balogh
’تمام دہشت گرد بنیادی طور پر مہاجرین ہیں‘
اوربان نے یورپی یونین کے رکن ریاستوں میں مہاجرین کی تقسیم کے کوٹے کے منصوبے پر بھی متعدد بار تنقید کی ہے۔ سن 2015 میں یورپی یونین سے متعلق خبریں اور تجزیے شائع کرنے والی نیوز ویب سائٹ ’پولیٹیکو‘ کو دیے گئے ایک انٹرویو میں ہنگری کے وزیر اعظم نے کہا تھا کہ اہم بات یہ ہے کہ ’تمام دہشت گرد بنیادی طور پر مہاجرین ہیں‘۔
تصویر: Getty Images/AFP/S. Bozon
متوازی معاشرے
پولینڈ اور آسٹریا جیسی ریاستیں بھی مہاجرین کے حوالے سے ہنگری جیسے ہی تحفظات رکھتی ہیں اور یوں اوربان کے اتحادیوں میں شامل ہیں۔ سن 2015 میں اسپین کے ایک ٹی وی چینل کے ساتھ ایک انٹرویو میں اوربان کا کہنا تھا،’’ہم کس قسم کا یورپ چاہتے ہیں۔ متوازی معاشرے؟ کیا ہم چاہتے ہیں مسلمان اور مسیحی افراد ساتھ ساتھ رہیں؟‘‘