مہاجرین کی اسمگلنگ کا نیا راستہ، رومانیہ کا شہر تیمی شوارا
صائمہ حیدر انفو مائیگرنٹس
21 فروری 2018
اگرچہ ترکی سے مغربی یورپ جانے والے بلقان روٹ پر سرحدوں کو بند ہوئے تین سال ہو گئے تاہم مہاجرین کا بہاؤ اب تک نہیں رک سکا ہے۔ انسانی اسمگلنگ اب بھی عروج پر ہے اور یورپ داخلے کے نئے نئے راستے تلاش کیے جا رہے ہیں۔
اشتہار
یورپ میں مہاجرین کے حوالے سے با خبر رکھنے والے ادارے انفو مائیگرانٹس نے جرمن اخبار ’ویلٹ اَم زونٹاگ‘کی ایک رپورٹ کا حوالہ دیتے یوئے کہا ہے کہ آج کل مہاجرین کو مغربی یورپ اسمگل کرنے کے لیے انسانی اسمگلروں کی توجہ کا مرکز رومانیہ کا تین لاکھ آبادی پر مشتمل شہر ’تیمی شوارا‘ ہے۔
جرمن وفاقی پولیس نے اخبار ’ویلٹ اَم زونٹاگ‘ کو بتایا کہ رومانیہ کا یہ شہر انسانی اسمگلنگ میں ملوث گروہوں کے لیے بہت اہمیت کا حامل ہے۔ تارکین وطن کو ’تیمی شوارا‘ کے قریب ٹرکوں میں چھپایا جاتا ہے تاکہ انہیں وہاں سے ہنگری کی سرحد کے پار اسمگل کیا جا سکے جو اس شہر سے قریب ایک گھنٹے کی مسافت پر ہے۔ ہنگری سے ان مہاجرین کو آسٹریا اور پھر جرمنی کا بارڈر پار کرانے کی کوشش کی جاتی ہے۔
جرمن پولیس کے مطابق جنوبی اور مشرقی یورپ سے مہاجرین کو اسمگل کرنے والے اسمگلرز بڑے پیمانے پر ترک کمپنیوں کے نام پر رجسٹرڈ ٹرکوں کا استعمال کرتے ہیں۔ ان ٹرکوں میں مبینہ طور پر ایک جعلی منزل یا فرش بنا ہوتا ہے، جو مال بردار اشیا رکھنے کے لیے ٹرک کی اصل تہہ سے چالیس سے پچاس سینٹی میٹر اونچا ہوتا ہے۔
اسی جگہ مہاجرین کو چھپایا جاتا ہے۔ لیکن یہ جگہ اتنی تنگ ہوتی ہے کہ پولیس کے مطابق یہاں چھپے مہاجرین دم گھٹنے کا شکار ہو سکتے ہیں۔ ’ویلٹ اَم زونٹاگ‘ کی رپورٹ کے مطابق ایک شامی مہاجر نے اپنے خاندان کو رومانیہ سے جرمنی پہنچانے کے لیے 5500 یورو ادا کیے۔
یہ امر اپنی جگہ اہم ہے کہ تین سال سے بلقان روٹ پر واقع ممالک کی جانب سے سرحدیں بند کیے جانے کے بعد اس راستے سے یورپ آنے والے تارکین وطن کی تعداد میں نمایاں کمی ہوئی ہے تاہم اب بھی بہت سے مہاجرین ترکی سے جرمنی اور دیگر یورپی یونین رکن ممالک میں داخلے کی کوشش میں ہیں۔
سرحد پر پھنسے پناہ گزينوں کی روداد
گزشتہ جمعرات کے روز چند بلقان ممالک کی جانب سے متعارف کرائے جانے والے نئے بارڈر کنٹرولز کے سبب سينکڑوں پناہ گزين مقدونيہ اور يونان کی سرحد پر پھنس گئے ہيں۔ نئے اقدامات کے تحت جس کے پاس جعلی پاسپورٹ ہے، وہ مشکلات میں ہے۔
تصویر: Reuters/O. Teofilovski
’دوسرے درجے‘ کے مہاجرين
کيا بنگلہ ديشی، پاکستانی، نيپالی، ايرانی اور مراکش سے تعلق رکھنے والے انسان نہيں اور کيوں؟ گيويگليا کی سرحدی گزر گاہ پر سينکڑوں پناہ گزين پلے کارڈز پر يہ جملے لکھ کر باڑ کے پيچھے احتجاج کر رہے ہيں۔ مقدونيہ کی طرف سے ليے جانے والے نئے اقدامات کے تحت صرف شامی، عراقی اور افغان پناہ گزينوں کو آگے بڑھنے کی اجازت ہے۔
تصویر: Reuters/S. Nenov
خاموش احتجاج
ايک پناہ گزين سوئی دھاگے سے اپنا منہ سيتے ہوئے۔ اطلاعات کے مطابق اس مہاجر کا تعلق ايران سے ہے۔ بلقان ممالک مقدونيہ، سربيا، کروشيا اور سلووينيا اب ايران سے تعلق رکھنے والوں کو ’معاشی‘ مقصد سے ہجرت کرنے والے قرار دے کر آگے نہيں بڑھنے دے رہے۔
تصویر: picture-alliance/dpa/G. Licovski
سرکاری اہلکاروں کی من مانی
ايشيائی اور افريقی ممالک کے قريب ايک ہزار تارکين وطن مقدونيہ اور يونان کی سرحد پر يونانی حدود ميں پھنسے ہوئے ہيں۔ اگر وہ شناختی دستاويزات کے حامل نہيں، تو سرکاری اہلکار ان کی شناخت ان کی ظاہری علامات يا چہرے کی مدد سے کرتے ہيں۔
تصویر: Reuters/S. Nenov
مدد کی پکار
ايک ايرانی بچی، جس کے دونوں گالوں پر لفظ ’مدد‘ لکھا ہوا ہے۔ سرحدی علاقے ميں حالات کافی کشيدہ ہيں اور مقدونيہ کے صدر گيورگ آيوانوو مہاجرين کی صفوں ميں تصادم کے بھاری امکانات کا خدشہ ظاہر کر چکے ہيں۔
تصویر: Reuters/Y. Behrakis
ٹرينوں کی بندش
يونان ميں پھنسے ہوئے ہزارہا تارکين وطن آگے مغربی يورپ کی جانب سفر کرنے کے ليے ريل گاڑی کے سفر کے منتظر ہيں۔
تصویر: Reuters/S. Nenov
واپسی کا کوئی راستہ نہيں
’’ہميں گولی مار دو، ہم واپس نہيں جائيں گے‘‘ ايک بنگلہ ديشی پناہ گزين اپنی چھاتی پر يہ پيغام لکھ کر سراپا احتجاج ہے۔ اقوام متحدہ کے ہائی کميشن برائے مہاجرين UNHCR کی جانب سے مقدونيہ پر بين الاقوامی قوانين کی خلاف ورزی کا الزام عائد کيا گيا ہے۔ ہر ايک کو سياسی پناہ کے ليے درخواست دينے کا حق حاصل ہے، خواہ وہ کسی بھی ملک کی شہريت کا حامل ہو۔
تصویر: Reuters/Y. Behrakis
بھوک ہڑتال کے ذريعے احتجاج
قريب دو سو تارکين وطن بھوک ہڑتال جاری رکھے ہوئے ہيں۔ يونان اور مقدونيہ کی سرحد پر موجود پناہ گزينوں کی اکثريت مغربی يورپ جانے کی خواہاں ہے۔ يہ مہاجرين يونان ميں قيام کے خواہشمند نہيں۔
تصویر: Reuters/Y. Behrakis
موسم سرما کی آمد
ايک بچے کے ہمراہ چند عورتيں سرد موسم ميں خود کو ايک کمبل ميں ليے ہوئے۔ جس مقام پر يہ مہاجرين پھنسے ہوئے ہيں، وہاں ان دنوں تقريباً روزانہ بارش ہوتی ہے اور رات کے وقت درجہ حرارت ميں مزيد کمی رونما ہو جاتی ہے۔
تصویر: Reuters/S. Nenov
بچا ليے جانے کی اميد
چند مرد پناہ گزين کارڈ بورڈ ليے ہوئے، جن پر ’’جرمنی ہماری مدد کرے‘‘ لکھا ہے۔ ستمبر ميں جب پناہ گزين ہنگری کی سرحد پر پھنس گئے تھے، تو اس وقت جرمنی کی مدد سے وہ آگے بڑھنے ميں کامياب ہوئے تھے۔ اب يونان اور مقدونيہ کی سرحد پر پھنسے تارکين وطن بھی کچھ ايسی ہی اميديں رکھتے ہيں۔