مہاجرین کی ایک اور کشتی ڈوب گئی، چھیالیس ہلاک، درجنوں لاپتہ
4 جون 2018
تیونس کے ساحلوں سے تارکین وطن کو لے کر یورپ کی جانب روانہ ہونے والی ایک کشتی ڈوبنے سے کم از کم 46 افراد ہلاک جب کہ درجنوں لاپتہ ہو گئے ہیں۔ تارکین وطن کی کشتی ڈوبنے کا یہ تازہ واقعہ تیونسی جزیرے قرقنہ کے قریب پیش آیا۔
اشتہار
شمالی افریقی ملک تیونس کی وزارت دفاع کے مطابق تیونسی ساحلوں سے تارکین وطن کو لے کر بحیرہ روم کے سمندری راستوں کے ذریعے یورپ کی جانب روانہ ہونے والی اس کشتی میں قریب ایک سو اسّی مہاجرین سوار تھے۔ یہ کشتی تیونس کے مشرقی ساحل پر واقع تیونسی جزیرے قرقنہ کے قریب بحیرہ روم میں ڈوب گئی۔
تیونسی وزارت دفاع کے مطابق اس حادثے کی اطلاع ملتے ہی امدادی ٹیمیں روانہ کر دی گئی تھیں۔ امدادی کارروائیوں میں اڑسٹھ تارکین وطن کو ڈوبنے سے بچا لیا گیا جب کہ چھیالیس افراد سمندر میں ڈوب کر ہلاک ہو گئے۔ دیگر لاپتہ افراد کی تلاش کا کام اب بھی جاری ہے۔
حالیہ مہینوں کے دوران تیونسی ساحلوں سے یورپ کی جانب مہاجرت کے رجحان میں نمایاں طور پر اضافہ ہوا ہے۔ عام طور پر ایسے تارکین وطن کی اکثریت کا تعلق مشرق وسطیٰ اور افریقی ممالک سے ہوتا ہے۔ تاہم اس تازہ واقعے میں امدادی کارروائیوں کے دوران جن 68 تارکین وطن کو ڈوبنے سے بچایا گیا، ان میں سے اکسٹھ تیونسی باشندے تھے جب کہ دیگر سات غیر ملکی تھے۔
مہاجرین کی کشتی ڈوبنے کے ڈرامائی مناظر
اقوام متحدہ کے ادارہ برائے مہاجرین نے خدشہ ظاہر کیا ہے کہ بحیر روم کو عبور کرنے کی کوشش میں حالیہ ہفتے کے دوران رونما ہونے والے تین حادثوں کے نتیجے میں کم از کم سات سو افراد ہلاک جبکہ دیگر سینکڑوں لاپتہ ہو چکے ہیں۔
تصویر: picture-alliance/dpa/Italian Navy/Handout
عمومی غلطی
ماہی گیری کے لیے استعمال ہونے والی اس کشتی میں سوار مہاجرین نے جب ایک امدادی کشتی کو دیکھا تو اس میں سوار افراد ایک طرف کو دوڑے تاکہ وہ امدادی کشتی میں سوار ہو جائیں۔ یوں یہ کشتی توازن برقرار نہ رکھ سکی اور ڈوب گئی۔
تصویر: Reuters/Marina Militare
اچانک حادثہ
عینی شاہدین کے مطابق اس کشتی کو ڈوبنے میں زیادہ وقت نہ لگا۔ تب یوں محسوس ہوتا تھا کہ اس کشتی میں سوار افراد پتھروں کی طرح پانی میں گر رہے ہوں۔ یہ کشتی لیبیا سے اٹلی کے لیے روانہ ہوئی تھی۔
تصویر: Reuters/Marina Militare
الٹی ہوئی کشتی
دیکھتے ہی دیکھتے یہ کشتی مکمل طور پر الٹ گئی۔ لوگوں نے تیر کر یا لائف جیکٹوں کی مدد سے اپنی جان بچانے کی کوشش شروع کردی۔ اطالوی بحریہ کے مطابق پانچ سو افراد کی جان بچا لی گئی۔
تصویر: Reuters/Marina Militare
امدادی آپریشن
دو اطالوی بحری جہاز فوری طور پر وہاں پہنچ گئے۔ امدادی ٹیموں میں ہیلی کاپٹر بھی شامل تھے۔ بچ جانے والے مہاجرین کو بعد ازاں سیسلی منتقل کر دیا گیا، جہاں رواں برس کے دوران چالیس ہزار مہاجرین پہنچ چکے ہیں۔
تصویر: Reuters/Marina Militare
ہلاک ہونے والوں میں چالیس بچے بھی
تازہ اطلاعات کے مطابق جہاں ان حادثات میں سات سو افراد کے ہلاک ہونے کا خدشہ ظاہر کیا جا رہا ہے، وہیں چالیس بچوں کے سمندر برد ہونے کا بھی قوی اندیشہ ہے۔
تصویر: Reuters/Marina Militare
حقیقی اعدادوشمار نامعلوم
جمعے کو ہونے والے حادثے میں ہلاک یا لاپتہ ہونے والوں کی تعداد کے بارے میں ابھی تک کوئی معلومات حاصل نہیں ہو سکی ہیں۔
تصویر: Reuters/EUNAVFOR MED
مہاجرین کو کون روکے؟
ایسے خدشات درست معلوم ہوتے نظر آ رہے ہیں کہ ترکی اور یورپی یونین کی ڈیل کے تحت بحیرہ ایجیئن سے براستہ ترکی یونان پہنچنے والے مہاجرین کے راستے مسدود کیے جانے کے بعد لیبیا سے اٹلی پہنچنے والے مہاجرین کی تعداد بڑھ جائے گی۔
تصویر: picture-alliance/dpa/Italian Navy/Marina Militare
عینی شاہدین کے بیانات
عینی شاہدین نے بتایا ہے کہ کس طرح انہوں نے اپنی آنکھوں سے مہاجرین کی کشتیوں کوڈوبتے دیکھا، جن میں سینکڑوں افراد سوار تھے۔ یہ تلخ یادیں ان کے ذہنوں پر سوار ہو چکی ہیں۔
تصویر: Getty Images/G.Bouys
سینکڑوں ہلاک
گزشتہ سات دنوں کے دوران بحیرہ روم میں مہاجرین کی کشتیون کو تین مخلتف حادثات پیش آئے۔ اقوام متحدہ کے ادارہ برائے مہاجرین کے مطابق ان حادثات کے نتیجے میں کم ازکم سات سو افراد ہلاک جبکہ سینکڑوں لاپتہ ہو گئے ہیں۔
تصویر: Reuters/H. Amara
بحران شدید ہوتا ہوا
موسم سرما کے ختم ہونے کے بعد شمالی افریقی ملک لیبیا سے یورپی ملک اٹلی پہنچنے والے افراد کی تعداد میں تیزی دیکھی جا رہی ہے۔ اطالوی ساحلی محافظوں نے گزشتہ پیر سے اب تک کم ازکم چودہ ہزار ایسے افراد کو بچایا ہے، جو لیبیا سے یورپ پہنچنے کی کوشش میں بحیرہ روم میں بھٹک رہے تھے۔
تصویر: picture-alliance/dpa/Italian Navy/Handout
10 تصاویر1 | 10
دوسری جانب اتوار کی صبح ترک ساحلوں کے قریب بھی ایک مہاجرین کی ایک کشتی کو پیش آنے والے حادثے کے نتیجے میں چھ بچوں سمیت نو افراد بحیرہ روم میں ڈوب گئے۔ ترک ساحلی محافظوں کے مطابق یہ واقعہ ترک ساحلوں کے قریب مشرقی بحیرہ روم میں پیش آیا۔ ترک ساحلی محافظوں نے اپنی امدادی کارروائیوں میں چار افراد کو ڈوبنے سے بچا لیا جب کہ ایک تارک وطن کو قریب ہی سے گزرنے والی ماہی گیروں کی ایک کشتی نے ڈوبنے سے بچایا۔ ترک حکام نے تاہم یہ نہیں بتایا کہ ان تارکین وطن کا تعلق کن ممالک سے ہے۔
سن 2015 میں مہاجرین کے بحران کے عروج کے وقت ساڑھے آٹھ لاکھ سے زائد مہاجرین بحیرہ ایجیئن عبور کر کے ترکی سے یونان پہنچے تھے۔ تاہم مارچ سن 2016 میں ترکی اور یورپی یونین کے مابین طے پانے والے ایک معاہدے کے بعد اس رجحان میں کمی واقع ہوئی تھی۔
ادھر ہسپانوی حکام کے مطابق اتوار ہی کے روز بحیرہ روم میں امدادی کارروائیوں کے دوران 240 تارکین وطن کو ڈوبنے سے بچا لیا گیا۔ یہ افراد گیارہ مختلف کشتیوں میں سوار ہو کر ہسپانوی ساحلوں کی جانب روانہ تھے۔
اقوام متحدہ کے مطابق اس برس سمندری راستوں کے ذریعے یورپ پہنچنے کی کوشش میں 660 تارکین وطن بحیرہ روم کے مختلف حصوں میں ڈوب کر ہلاک ہو چکے ہیں۔ اس برس کے پہلے چار ماہ کے دوران ساڑھے بائیس ہزار تارکین وطن سمندری راستوں کے ذریعے یورپ پہنچے جن میں سے ساڑھے چار ہزار تارکین وطن کی منزل اسپین تھی۔
ش ح / ص ح (اے پی)
کن ممالک کے کتنے مہاجر بحیرہ روم کے ذریعے یورپ آئے؟
اس سال اکتیس اکتوبر تک ڈیڑھ لاکھ سے زائد انسان کشتیوں میں سوار ہو کر بحیرہ روم کے راستوں کے ذریعے یورپ پہنچے، اور 3 ہزار افراد ہلاک یا لاپتہ بھی ہوئے۔ ان سمندری راستوں پر سفر کرنے والے پناہ گزینوں کا تعلق کن ممالک سے ہے؟
تصویر: Reuters/A. Konstantinidis
نائجیریا
یو این ایچ سی آر کے اعداد و شمار کے مطابق اس برس اکتوبر کے آخر تک بحیرہ روم کے ذریعے اٹلی، یونان اور اسپین پہنچنے والے ڈیڑھ لاکھ تارکین وطن میں سے بارہ فیصد (یعنی قریب سترہ ہزار) پناہ گزینوں کا تعلق افریقی ملک نائجیریا سے تھا۔
تصویر: picture-alliance/AP Photo/S. Diab
شام
خانہ جنگی کے شکار ملک شام سے تعلق رکھنے والے مہاجرین کی تعداد پچھلے دو برسوں کے مقابلے میں اس سال کافی کم رہی۔ اقوام متحدہ کے ادارہ برائے مہاجرین کے مطابق ساڑھے چودہ ہزار شامی باشندوں نے یورپ پہنچنے کے لیے سمندری راستے اختیار کیے۔
تصویر: picture-alliance/NurPhoto/A. Masiello
جمہوریہ گنی
اس برس اب تک وسطی اور مغربی بحیرہ روم کے سمندری راستوں کے ذریعے یورپ کا رخ کرنے والے گیارہ ہزار چھ سو پناہ گزینوں کا تعلق مغربی افریقی ملک جمہوریہ گنی سے تھا۔
تصویر: STR/AFP/Getty Images
آئیوری کوسٹ
براعظم افریقہ ہی کے ایک اور ملک آئیوری کوسٹ کے گیارہ ہزار سے زائد شہریوں نے بھی اس برس بحیرہ روم کے سمندری راستوں کے ذریعے پناہ کی تلاش میں یورپ کا رخ کیا۔
تصویر: picture-alliance/NurPhoto/T. Markou
بنگلہ دیش
جنوبی ایشیائی ملک بنگلہ دیش کے قریب نو ہزار شہری اس سال کے پہلے دس ماہ کے دوران خستہ حال کشتیوں کی مدد سے بحیرہ روم عبور کر کے یورپ پہنچے۔ مہاجرت پر نگاہ رکھنے والے ادارے بنگلہ دیشی شہریوں میں پائے جانے والے اس تازہ رجحان کو غیر متوقع قرار دے رہے ہیں۔
تصویر: Getty Images/M. Bicanski
مراکش
شمالی افریقی مسلم اکثریتی ملک مراکش کے ساحلوں سے ہزارہا انسانوں نے کشتیوں کی مدد سے یورپ کا رخ کیا، جن میں اس ملک کے اپنے پونے نو ہزار باشندے بھی شامل تھے۔
تصویر: Getty Images/AFP/A. Messinis
عراق
مشرق وسطیٰ کے جنگ زدہ ملک عراق کے باشندے اس برس بھی پناہ کی تلاش میں یورپ کا رخ کرتے دکھائی دیے۔ اقوام متحدہ کے اعداد و شمار کے مطابق رواں برس کے پہلے نو ماہ کے دوران چھ ہزار سے زائد عراقی شہریوں نے سمندری راستوں کے ذریعے یورپ کا رخ کیا۔
تصویر: picture-alliance/dpa/E. Menguarslan
اریٹریا اور سینیگال
ان دونوں افریقی ممالک کے ہزاروں شہری گزشتہ برس بڑی تعداد میں سمندر عبور کر کے مختلف یورپی ممالک پہنچے تھے۔ اس برس ان کی تعداد میں کچھ کمی دیکھی گئی تاہم اریٹریا اور سینیگال سے بالترتیب ستاون سو اور چھپن سو انسانوں نے اس برس یہ خطرناک راستے اختیار کیے۔
تصویر: picture-alliance/AP Photo/S. Diab
پاکستان
بحیرہ روم کے پر خطر سمندری راستوں کے ذریعے اٹلی، یونان اور اسپین پہنچنے والے پاکستانی شہریوں کی تعداد اس برس کے پہلے نو ماہ کے دوران بتیس سو کے قریب رہی۔ گزشتہ دو برسوں کے دوران ایک لاکھ سے زائد پاکستانیوں نے مختلف یورپی ممالک میں پناہ کی درخواستیں دی تھیں۔
تصویر: picture-alliance/AP Photo/T. Stavrakis
افغانستان
رواں برس کے دوران افغان شہریوں میں سمندری راستوں کے ذریعے یورپ پہنچنے کے رجحان میں نمایاں کمی دیکھی گئی۔ یو این ایچ سی آر کے مطابق اس برس اب تک 2770 افغان شہریوں نے یہ پر خطر بحری راستے اختیار کیے۔