جرمن وفاقی شماریاتی ادارے کا کہنا ہے کہ سن 2016 میں ملک میں آنے والے مہاجرین کی تعداد پانچ لاکھ کے قریب تھی۔ جبکہ سن 2015 میں جب مہاجرین کا بحران اپنے عروج پر تھا، یہی تعداد ایک اعشاریہ چودہ ملین تھی۔
اشتہار
جرمن شہر ویزن باڈن میں قائم وفاقی دفتر شماریات کی رپورٹ کے مطابق گزشتہ برس ایک اعشاریہ پانچ ملین کے قریب پناہ کے متلاشی مرد، خواتین اور بچے جرمنی پہنچے جبکہ ایک اعشاریہ ایک ملین افراد جرمنی سے واپس گئے۔ تارکین وطن میں سے نواسی فیصد غیر ملکی پاسپورٹ کے حامل تھے۔
سن 2017 میں بیرونی ممالک سے جرمنی واپس آنے والے جرمن باشندوں کی تعداد ایک لاکھ ستاسٹھ ہزار تک پہنچ گئی جبکہ اس سے ایک برس قبل یعنی سن 2016 میں یہی تعداد ایک لاکھ چھیالیس ہزار تھی۔ ساتھ ہی جرمن تارکین وطن کی تعداد کم ہو کر دو لاکھ انچاس ہزار ہو گئی جو ایک سال قبل دو لاکھ اکیاسی ہزار تھی۔
گزشتہ برس ستائیس دوسری یورپی ریاستوں سے بھی خاص طور پر کافی افراد جرمنی آئے۔ مہاجرت کے اس مرحلے میں دو لاکھ انتالیس ہزار افراد جرمنی پہنچے جن میں سب سے زیادہ تارکین وطن یعنی قریب ایک لاکھ چالیس ہزار کا تعلق بر اعظم ایشیا سے تھا۔ دوسرے نمبر پر ساٹھ ہزار افراد یورپی ممالک سے جبکہ تیسرے نمبر پر افریقہ سے پینتیس ہزار مہاجرین جرمنی پہنچے۔
یورپی یونین کے رکن ممالک سے جرمنی سکونت اختیار کرنے والے تارکین وطن کا تعلق رومانیہ، کروشیا، بلغاریہ اور پولینڈ سے تھا۔ جرمن وفاقی دفتر شماریات کے اعداد و شمار کے مطابق سن 2016 کے مقابلے میں گزشتہ برس شامی، عراقی اور افغان باشندے کم تعداد میں جرمنی پہنچے۔
ص ح / ا ا / نیوز ایجنسی
مہاجرین کے مبینہ جرائم پر دائیں بازو کا رد عمل شدید تر
جرمنی میں حالیہ کچھ عرصے میں ایک طرف جہاں مہاجرین کی طرف سے مبینہ جرائم کی خبریں سامنے آ رہی ہیں وہیں ملک میں انتہائی دائیں بازو کی جانب سے ان کے خلاف جذبات میں بھی اضافہ دیکھنے میں آ رہا ہے۔ ملاحظہ کیجیے یہ پکچر گیلری۔
تصویر: Getty Images/S. Gallup
جرمن شہری کی ہلاکت اور مظاہروں کا آغاز
کیمنٹس میں چھبیس اگست سے انتہائی دائیں بازو کی سوچ کے حامل افراد نے مظاہروں کا سلسلہ اُس وقت شروع کیا تھا جب ایک جرمن شہری کو سیاسی پناہ کے دو متلاشیوں نے ہلاک کر دیا تھا۔
تصویر: Jan Woitas/dpa/picture alliance
مظاہروں کے خلاف مظاہرے
اگرچہ رواں ماہ کی سات تاریخ کو کیمنٹس میں رائٹ ونگ گروپوں کے ارکان نے بھرپور مہاجرین مخالف مظاہرے کیے تاہم اگلے ہی روز کیمنٹس کے شہریوں نے بھی بڑی تعداد میں مہاجرین مخالف مظاہروں کے خلاف مظاہرے کیے۔
تصویر: picture-alliance/dpa/J. Woitas
مسائل کی ماں مہاجرت
انہی مظاہروں کے درمیان جرمن وزیر داخلہ ہورسٹ زیہوفر کی جانب سے بھی پناہ گزینوں کی مخالفت میں ایک تنقیدی بیان سامنے آیا جس میں انہوں نے کہا کہ مہاجرت ہی تمام مسائل کی ماں ہے۔ زیہوفر نے کیمنٹس میں رائٹ وِنگ کی جانب سے کیے گئے مظاہروں پر تنقید بھی نہیں کی۔
تصویر: Imago/Sven Simon/F. Hoermann
میا وی کے قاتل کو سزائے قید
ستمبر کی تین تاریخ کو جنوب مغربی جرمن شہر لنڈاؤ میں ایک جرمن عدالت نے عبدل ڈی نامی ایک افغان تارک وطن کو پندرہ سالہ جرمن لڑکی میا وی کو قتل کرنے کے جرم میں ساڑھے آٹھ سال قید کی سزا سنائی تھی۔ میا وی کی ہلاکت پر بھی اُس کے شہر کانڈل میں تارکین وطن کے خلاف مظاہرے کیے گئے تھے۔
تصویر: DW/A. Prange
ایک اور افغان مہاجر جیل میں
رواں ہفتے کے اختتام پر جرمن شہر ڈارم شٹڈ کی ایک عدالت نے ایک اور افغان مہاجر کو اپنی سترہ سالہ سابقہ گرل فرینڈ کو چاقو سے شدید زخمی کرنے کے جرم میں سات سال جیل کی سزا سنائی تھی۔ نو عمر افغان پناہ گزین پر الزام تھا کہ اس نے سن 2017 میں کرسمس سے قبل اپنی سابقہ گرل فرینڈ پر چاقو سے حملہ کیا تھا۔
تصویر: picture-alliance/dpa/S. Stein
کوئتھن، جرمن نوجوان کی ہلاکت
ابھی کیمنٹس شہر میں تناؤ پوری طرح کم نہ ہوا تھا کہ جرمن ریاست سیکسنی اَن ہالٹ کے شہر کوئتھن میں ایک بائیس سالہ جرمن نوجوان کی دو افغان مہاجرین کے ہاتھوں مبینہ قتل نے ہلچل مچا دی۔ ریاست کے وزیر داخلہ ہولگر شٹالک نیخت نے شہریوں سے پر امن رہنے کی اپیل کی۔
تصویر: picture-alliance/dpa/D. Hein
کوئتھن میں مظاہرے
مقامی پولیس کے مطابق ’کیمنٹس پرو‘ گروہ کی طرف سے سوشل میڈیا پر کوئتھن میں مظاہرے کی کال دی گئی جس پر لوگوں کی ایک بڑی تعداد نے مثبت ردعمل ظاہر کیا۔ ایک اندازے کے مطابق اس مظاہرے میں پچیس ہزار افراد شریک ہوئے۔ جس میں چار سو سے پانچ سو افراد کا تعلق انتہائی دائیں بازو کے نظریات کے حامل افراد سے تھا۔