مہاجرین کی روک تھام، اٹلی کے لیے 54 ملین ڈالر کی امداد
عابد حسین
29 جولائی 2017
یورپی یونین نے اٹلی کو مہاجرین کے بحران پر قابو پانے کے لیے چون ملین ڈالر دینے کا اعلان کیا ہے۔ اس امداد سے اٹلی، لیبیا کے مہاجرین کی آمد کو روکنے کی کوششوں کو تقویت دے گا۔
اشتہار
یورپی یونین نے اٹلی کی امداد اس تناظر میں کی ہے کہ وہ لیبیا کے شمالی اور جنوبی سرحدوں کو مزید محفوظ بنائے تا کہ وہاں سے افریقی ملکوں کے مہاجرین کی لیبیا میں داخل ہونے کے سلسلے کو روکا جا سکے۔ رواں برس لیبیا کی ساحلوں سے پچانوے ہزار کے قریب افریقی مہاجرین انسانی اسمگلروں کی کمزور کشتیوں پر سوار ہو کر اٹلی پہنچنے میں کامیاب رہے ہیں۔
اٹلی کی حکومت ایسی منصوبہ بندی کیے ہوئے ہے کہ وہ اپنی بحریہ کے جہاز اور تیز رفتار کشتیاں لیبیا کے پانیوں میں تعینات کر کے انسانی اسمگلروں کی کشتیوں کو آگے بڑھنے سے روک دے۔ اس کے ساتھ ساتھ وہ خاص طور پر لیبیا کی جنوبی سرحد کو اس لیے مضبوط کرنا چاہتی ہے تا کہ افریقی ملکوں کے مہاجرین کو اس سرحد کو عبور کرنے کا موقع نہ دیا جائے۔
یورپی یونین نے پہلے ہی بحیرہ روم کے انتہائی شمال میں سمندری مشن کو شروع کر رکھا ہے تا کہ مہاجرین کی بھری کشتیوں کو خطرناک سمندری علاقے میں داخل ہونے سے قبل ہی روک دیا جائے۔ اس کے علاوہ یورپی یونین نے لیبیا کو نوے ملین یورو عطیہ کیے ہیں تا کہ لیبیا میں محصور افریقی مہاجرین کے خراب حالات کو کو بہتر کیا جا سکے اور انہیں جنوبی سرحد کے پار کے ممالک کو واپس کیا جا سکے۔
بحیرہ روم میں مہاجرین کا ریسکیو
01:13
یورپی یونین ان مہاجرین کو سمندری سفر کی مشکلات اور جان کو لاحق خطرات سے آگاہ کرنے کو بھی ضروری خیال کرتی ہے۔ افریقی مہاجرین یورپ پہنچنے کے لیے لیبیا کو ایک اہم منزل اور دروازہ قرار دیتے ہیں۔
یورپی یونین کا یہ امدادی مشن حقیقت میں اقوام متحدہ کی حمایت یافتہ یونٹی حکومت کو مزید مستحکم بھی کرنا ہے۔ یہ حکومت طرابلس میں وزیراعظم فائز السراج کی قیادت میں قائم ہے۔
دوسری جانب یونین ایسی کوششوں کو بھی تیز کرنے کی کوشش میں ہے کہ جن افریقی مہاجرین کی پناہ کی درخواستیں مسترد ہو چکی ہیں، انہیں جلد از جلد واپس اُن کے ملکوں کو روانہ کیا جائے۔
یورپ کے خواب دیکھنے والوں کے لیے سمندر قبرستان بن گیا
مائیگرنٹ آف شور ايڈ اسٹيشن نامی ايک امدادی تنظيم کے مطابق اس کی کشتی ’فِينِکس‘ جب گزشتہ ہفتے چودہ اپریل کو مختلف اوقات میں سمندر ميں ڈوبتی دو کشتیوں تک پہنچی تو کبھی نہ بھولنے والے مناظر دیکھے۔
تصویر: Reuters/D. Zammit Lupi
بہتر زندگی کی خواہش
اقوام متحدہ کے اعداد وشمار کے مطابق بہتر زندگی کی خواہش رکھنے والے 43،000 تارکین وطن کو رواں برس سمندر میں ڈوبنے سے بچایا گیا ہے۔ ان میں سے زیادہ تر کا تعلق افریقی ممالک سے تھا۔
تصویر: Reuters/D. Zammit Lupi
آنکھوں میں خوف کے سائے
ڈوبنے سےبچ جانے والا ایک مہاجر بچہ فینکس کے امدادی اسٹیشن پر منتقل کیا جا چکا ہے لیکن اُس کی آنکھوں میں خوف اور بے یقینی اب بھی جوں کی توں ہے۔ اس مہاجر بچے کو وسطی بحیرہ روم میں لکڑی کی ایک کشتی ڈوبنے کے دوران بچایا گیا تھا۔
تصویر: Reuters/D. Zammit Lupi
کم سن بچہ سمندر کی گود میں
رواں ماہ کی پندرہ تاریخ کو فونیکس کشتی کے عملے نے ایک چند ماہ کے بچے کو اُس وقت بچایا جب کشتی بالکل ڈوبنے والی تھی۔
تصویر: Reuters/D. Zammit Lupi
عملے کی مستعدی
لیبیا کے ساحلوں سے دور بحیرہ روم کے وسطی پانیوں میں ہچکولے کھاتی لکڑی کی ایک کشتی سے ایک بچے کو اٹھا کر فونیکس کے امدادی اسٹیشن منتقل کرنے کے لیے عملے کے اہلکار اسے اوپر کھینچ رہے ہیں۔
تصویر: Reuters/D. Zammit Lupi
امدادی اسٹیشن پر
مالٹا کی غیر سرکاری تنظیم کے جہاز کے عرشے پر منتقل ہوئے یہ تارکین وطن خوشی اور خوف کی ملی جلی کیفیت میں مبتلا ہیں۔ انہیں رواں ماہ کی چودہ تاریخ کو ایک ربڑ کی کشتی ڈوبنے پر سمندر سے نکالا گیا تھا۔
تصویر: Reuters/D. Zammit Lupi
سمندر میں چھلانگیں
’مائیگرنٹ آف شور ایڈ اسٹیشن نامی‘ امدادی تنظيم کے مطابق اس کی کشتی ’فِينِکس‘ جب سمندر ميں مشکلات کی شکار ايک ربڑ کی کشتی تک پہنچی تو اس پر سوار مہاجرين اپنا توازن کھونے کے بعد پانی ميں گر چکے تھے۔ انہيں بچانے کے ليے ريسکيو عملے کے کئی ارکان نے سمندر ميں چھلانگيں لگا ديں۔
تصویر: Reuters/D. Zammit Lupi
میں زندہ ہوں، یقین نہیں آتا
امدادی کارروائی کے نتیجے میں بچ جانے والے ایک تارکِ وطن نے سمندر سے نکالے جانے کے بعد رد عمل کے طور پر آنکھوں پر ہاتھ رکھ لیے۔ اسے اپنے بچ جانے کا یقین نہیں ہو رہا تھا۔
تصویر: Reuters/D. Zammit Lupi
ایسا منظر پہلے کبھی نہیں دیکھا
خبر رساں ادارے روئٹرز کے فوٹو جرنلسٹ ڈيرن زيمٹ لوپی بھی ’فِينِکس‘ پر سوار تھے۔ انہوں نے ريسکيو کی اس کارروائی کو ديکھنے کے بعد بتایا، ’’ميں پچھلے انيس سالوں سے مہاجرت اور ترک وطن سے متعلق کہانياں دنيا تک پہنچا رہا ہوں، ميں نے اس سے قبل کبھی ايسے مناظر نہيں ديکھے جو ميں نے آج ديکھے ہيں۔