1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

مہاجرین کی سستی لیبر سے منافع کمانے والی یورپی کمپنیاں

شمشیر حیدر تھامسن روئٹرز فاؤنڈیشن
4 نومبر 2017

یورپ کے کئی بڑے اسٹور کپڑوں سمیت کئی اشیا ترکی میں تیار کراتے ہیں۔ ایسی یورپی کمپنیاں مہاجرین کی سستی لیبر کے باعث منافع تو کما رہی ہیں لیکن مہاجرین کا استحصال روکنے کے لیے خاطر خواہ اقدامات نہیں کر رہیں۔

Bildergalerie Aldi Logo
تصویر: picture-alliance/dpa

تھامسن روئٹرز فاؤنڈیشن کی ایک رپورٹ کے مطابق ترکی میں لاکھوں شامی اور دیگر مہاجرین اور تارکین وطن نامساعد حالات میں اور کم داموں پر کام کرنے پر مجبور ہیں۔ کئی معروف یورپی کمپنیاں اپنی اشیا ترکی میں تیار کرا رہی ہیں لیکن ’بزنش اینڈ ہیومن رائٹس ریسورس سینٹر‘ BHRRC کے مطابق ان میں سے بیشتر ترک فیکٹریوں میں کام کرنے والے مہاجرین اور تارکین وطن کا استحصال روکنے کے لیے ناکافی اقدامات کر رہی ہیں۔

میرکل اور شلس کا ٹی وی مباحثہ، اہم موضوعات کیا تھے؟

جرمنی: ہر چھٹا غیر ملکی سیاسی پناہ کا خواہش مند

BHRRC کے مطابق شامی خانہ جنگی کے باعث ہجرت کر کے ترکی میں آباد لاکھوں مہاجرین میں سے کئی ترکی کی گارمنٹ انڈسٹری میں کام کرتے ہیں۔ اربوں ڈالر منافع کمانے والی گارمنٹ انڈسٹری میں چائلڈ لیبر کے شواہد بھی موجود ہیں اور وہاں کام کرنے والے مہاجرین سے کم تنخواہ کے بدلے زیادہ کام بھی کرایا جا رہا ہے۔ BHRRC کے ایگزیکٹیو ڈائریکٹر فِل بلومر نے آلڈی اسٹور اور ٹاپ شاپ جیسے یورپی کاروباری اداروں سے مطالبہ کیا ہے کہ وہ ان مہاجرین کی صورت حال بہتر بنانے اور ان کا استحصال روکنے کے لیے خاطر خواہ انتظامات کریں۔

کیا تارکین وطن کو جرمنی آتے ہی ملازمت مل جاتی ہے؟

00:47

This browser does not support the video element.

ایک سماجی تنظیم کی جانب سے کرائے گئے سروے میں یورپ کے سینتیس اہم برانڈز کا جائزہ لیا گیا۔ یہ یورپی کمپنیاں ترک فیکٹریوں میں اپنا سامان تیار کراتی ہیں۔ سروے کے دوران ان یورپی کمپنیوں کی سپلائی چین، پالیسیوں اور مزدوروں کا استحصال روکنے کے لیے اٹھائے گئے اقدامات کا جائزہ لیا گیا۔

سروے کے نتائج کے مطابق اسوس، نیو لُک، نیکسٹ اور زارا جیسے مشہور برانڈز کی کارکردگی ان حوالوں سے کافی اطمینان بخش رہی لیکن آلڈی، ٹاپ شاپ اور آسڈا جیسے مشہور یورپی کاروباری برانڈز کی کارکردگی کافی مایوس کن رہی۔

فِل بلومر نے  ان کمپنیوں سے مطالبہ کیا ہے کہ وہ مہاجرین اور تارکین وطن کی سستی لیبر کے باعث صرف منافع کمانے کی بجائے ان کا معاشی استحصال روکنے کے لیے فوری اقدامات کریں۔

ترکی میں تین ملین سے زائد شامی مہاجر پناہ لیے ہوئے ہیں جن میں سے تقریباﹰ نصف کی عمریں اٹھارہ برس سے کم ہیں۔ اندازوں کے مطابق ساڑھے چھ لاکھ سے زائد شامی مہاجرین ترک روزگار کی منڈیوں میں کام کر رہے ہیں جن میں سے زیادہ تر کپڑے کی صنعت سے وابستہ ہیں۔

سن 2011 کے بعد سے ترکی میں مقیم ان شامی مہاجرین کی اکثریت کو ترکی میں کام کرنے کی اجازت نہیں ہے جس کے باعث وہ غیر قانونی طور پر کام کرنے پر مجبور ہیں۔ تھامسن روئٹرز فاؤنڈیشن نے گزشتہ برس ترک روزگار کی منڈیوں میں کام کرنے والے مہاجرین کے استحصال اور چائلڈ لیبر کی نشاندہی کی تھی۔

جرمنی: پناہ کی درخواست مسترد ہونے کے بعد کیا کیا جا سکتا ہے؟

’30 ہزار غیر ملکی پناہ کی درخواستیں مسترد ہونے کے بعد غائب‘

ڈی ڈبلیو کی اہم ترین رپورٹ سیکشن پر جائیں

ڈی ڈبلیو کی اہم ترین رپورٹ

ڈی ڈبلیو کی مزید رپورٹیں سیکشن پر جائیں