1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

مہاجرین کی غیر قانونی ملک بدریاں، یورپی ممالک پر دباؤ

14 فروری 2020

یورپی یونین کی پارلیمان نے یورپ کی بیرونی سرحدوں پر مہاجرین اور تارکین وطن کی صورتحال پر بحث کی۔ مرکزی توجہ یونان اور کروشیا پر مرکوز تھی۔

IOM bringt Flüchtlinge aus Libyen in Heimatländer zurück
تصویر: AFP/Getty Images/M. Turkia

کروشیا اس وقت یورپی یونین کی ششماہی صدارتی ذمہ داری نبھا رہا ہے، تاہم اس کے بارے میں یہ کہا جاتا ہے کہ وہاں سے غیر قانونی طریقے سے مہاجرین کو ہمسائے ملک بوسنیا منتقل کرنے کا سلسلہ جاری ہے۔

یہ الزام نیا نہیں ہے۔ تاہم اسٹراسبرگ میں یورپی یونین کے پارلیمانی اجلاس کے دوران کسی انفرادی ملک کے بارے میں بحث ہونا اچھا نہیں سمجھا جاتا، تاوقتیکہ اس ملک میں کسی قانون کی خلاف ورزی اس قدر واضح ثابت ہو جائے کہ اُس کے بارے میں خاموش نہیں رہا جا سکے۔ یونان کی حزب اختلاف کی مضبوط جماعت سریزا کے یورپی پارلیمان کے رکن کوسٹاس آروانائٹس نے کروشیا کے بارے میں شکایت کرتے ہوئے کہا ہے کہ معاملہ بالکل یہی ہے۔

کوسٹاس آروانائٹس حالیہ مہینوں میں جنوب مشرقی یورپ کے تمام پناہ گزین کیمپوں کا دورہ کر چُکے ہیں اور انہوں نے بذات خود مقامی متاثرہ افراد سے بات چیت کی ہے۔ بائیں بازو کے سیاستدان کا دعویٰ ہے کہ سربیا، کروشیا، رومانیہ، ہنگری اور بوسنیا ہرزیگوینا میں پناہ کے متلاشی سینکڑوں افراد کو نہایت پُرتشدد طریقے سے سرحدوں سے دھکیلا گیا ہے۔

ان کا کہنا تھا، ''کروشیا کے وزراء  کہتے ہیں کہ یہ غلط خبر ہے، لیکن ہم نے اپنی آنکھوں سے پناہ کے متلاشی افراد کی مایوسی اور بے بسی دیکھی ہے۔ حقیقت کو توڑ مروڑ کر اس کے برعکس دکھانا یورپی یونین کے اراکین پارلیمان کی توہین ہے اور دائیں بازو کے انتہا پسند عناصر کے ہاتھوں میں کھیلنے کے مترادف ہے۔‘‘

جرمنی نے غیر قانونی پناہ گزینوں کو ملک بدر کرنے کا عمل نہایت منظم طریقے سے سر انجام دیا۔تصویر: picture-alliance/dpa/P.Seeger

ریاستی سکریٹری نیکولینا برنجک، جو کروشین ایوان صدر کی ترجمان ہیں، کا کہنا ہے کہ کروشیا پر تارکین وطن کے ساتھ خراب سلوک کا غلط الزام لگایا گیا ہے۔ کروشیا کے یورپی امور کی سیاستدان زیلجانا زوکو بھی اس ضمن میں  بوسنیا اور کروشیا کے تعاون  سے کیے گئے اقدامات کی نشاندہی پر زور دیا۔ انہوں نے بوسنیا کے وزیر سلامتی امور فرہدین رڈونک کا حوالہ دیا، جنہوں نے اعتراف کیا کہ ''بوسنیا میں گزشتہ تین سالوں میں کسی نے پناہ گزینوں کے مسئلے سے چشم پوشی کی ہے۔‘‘

 

یونان بھی خطرے سے باہر نہیں

ایک ماہ کے اندر دوسری بار یورپی یونین کے اراکان پارلیمان مہاجرین اور تارکین وطن کی نا امید صورتحال پر تبادلہ خیال کر رہے ہیں۔ برسلز میں جنوری کے آخر میں ہونے والی آخری بحث میں خاص طور سے یونانی جزیروں پر پائے جانے والے مصائب زیر بحث رہے تھے۔ اس محاذ پر بھی کوئی واضح پیش رفت نہیں ہوئی ہے۔ اس کے بالکل برعکس: گرین پارٹی کے ایک سیاستدان ڈامیان بوئزلاگر کے بقول، ''یونانی جزیروں پر صورتحال ابتر ہوگئی ہے، اور اب ایک تیرتی ہوئی سرحد کھینچنا ہوگی۔‘‘

ادھر 'ہیلس‘، جو یونان کا قدیمی نام ہے، مہاجرین کی پالیسی کا ایک بڑا تنازعہ اُس وقت سے کھڑا ہوا جب یونانی وزیر اعظم کریاکوس میتسوتاکس نے حال ہی میں ہجرت کے اپنے ماسٹر پلان کا اعلان کیا۔ 

یونان، کروشیا اور بوسنیا پر غیر قانونی ملک بدری کے سلسلے میں غیر معمولی دباؤ ہے۔تصویر: picture-alliance/dpa/A. Tzortzinis

اس منصوبے میں سیاسی پناہ کے حقوق سے متعلق قوانین کو نہایت سخت بنانے کی بات کی گئی ہے۔ جزیرے لیسبوس پر واقع موریا مہاجر کیمپ کو ختم کرنا ہے۔ اس کے لیے مشرقی ایجیئن کے کئی جزیروں پر نئے ادارے قائم کیے جارہے ہیں، جو پناہ گرینوں کی آمد کو مکمل طریقے سے روکنے کا کام انجام دیں گے۔ مقامی سیاستدان، جن میں حکمران قدامت پسند پارٹی سے تعلق رکھنے والے سیاستدان بھی شامل ہیں، ایتھنز کی اس نئے منصوبے  پر طوفان برپا کر رہے ہیں اور نئے کیمپوں کی تعمیر کے لیے موزوں مقامات فراہم کرنے سے انکار کر رہے ہیں۔

 

یونان کے وزیر اعظم کریاکوس میتسوتاکس نے اس ہفتے کے شروع میں دھمکی دی تھی کہ اس منصوبے کے لیے مناسب جائیدادیں ضبط کرلی جائیں گی۔ جزیرے کے پالیسی وزیر جینس پلاکیوٹاکیس نے منگل کو کہا کہ حکومت جزیرے والوں کے رد عمل کو سمجھتی ہے، لیکن یہ قومی مفاد کا منصوبہ ہے جسے بغیر کسی رکاوٹ کے نافذ کیا جائے گا۔ اقوام متحدہ کی مہاجر ایجنسی یو این ایچ سی آر کے مطابق سن 2019 میں ترکی کے راستے یونان میں غیر قانونی طور پر داخل ہونے والوں کی تعداد چوہتر ہزار چھ سو تک پہنچ گئی جبکہ 2018 ء میں ایسے افراد کی تعداد پچاس ہزار پانچ سو تھی۔

پاپادیمتریو ژانس/ ک م / ش ح

اس موضوع سے متعلق مزید سیکشن پر جائیں

اس موضوع سے متعلق مزید

مزید آرٹیکل دیکھائیں
ڈی ڈبلیو کی اہم ترین رپورٹ سیکشن پر جائیں

ڈی ڈبلیو کی اہم ترین رپورٹ

ڈی ڈبلیو کی مزید رپورٹیں سیکشن پر جائیں