یورپ میں موجود مہاجرین اور پناہ کے متلاشی افراد کے لیے ایک خصوصی موبائل ایپ تیار کی گئی ہے، جس کی مدد سے مہاجرین مختلف نوعیت کی معلومات گھر بیٹھے اپنے موبائل سے ہی حاصل کر سکتے ہیں۔
اشتہار
’ریفیوجی ایڈ ایپ‘ (Refugee Aid App) میں ایسی تمام معلومات جمع کی گئی ہیں، جو مہاجرین کے لیے اہم ہو سکتی ہیں۔ یورپ میں موجود مہاجرین اور پناہ کے متلاشی افراد اس ڈیجیٹل ایپ کی مدد سے اپنے قریب ہی واقع طبی مدد، قانونی مشاورت، سونے کے مقامات اور دیگر بنیادی اشیائے ضرورت کے بارے میں آسانی سے معلومات حاصل کر سکتے ہیں۔
اس ایپ کی مدد سے نہ صرف انگریزی زبان بلکہ عربی اور فارسی زبانوں میں بھی معلومات حاصل کی جا سکتی ہیں۔ اس ایپ کی خالق شیلے ٹیلر کے مطابق اس کی تیاری میں خاص خیال رکھا گیا تھا کہ اسے استعمال کرنا آسان ہو اور ضرورت مند افراد فوری طور پر اپنی مطلوبہ معلومات تک رسائی حاصل کر لیں۔
جرمنی میں خوش ہیں لیکن گھر یاد آتا ہے
02:13
Trellyz نامی کمپنی کی چیف ایگزیکٹیو ٹیلر کا کہنا ہے کہ دیگر بہت سے افراد کی طرح مہاجرین کا بحران ان کے لیے بھی پریشانی کا سبب بنا اور وہ ایسے افراد کی مدد کرنا چاہتی تھیں، جو شورش زدہ علاقوں سے یورپ کا رخ کر رہے ہیں۔
ٹیلر نے کہا کہ اپنا گھر بار چھوڑ کر یورپ آنے والے لوگ یہاں موجود سہولتوں کے بارے میں بے خبر ہوتے ہیں اور یہ ایپ ایک طرح سے ان کی رہنمائی کرتی ہے۔
ٹیلر نے یہ ایپ دو دن میں ہی بنا لی تھی تاہم اب یہی فون ایپلیکشن دنیا بھر میں چار سو سے زائد اداروں کو آپس میں جوڑتی ہے۔
ڈاکٹرز ودآؤٹ بارڈرز، سیو دی چلڈرن، کاری تاس، ریڈ کراس، آئی او ایم اور اے آر سی آئی جیسی بین الاقوامی تنظیمیں بھی اس موبائل ایپ سے جڑی ہوئی ہیں اور وہ بھی اس ایپ کے ذریعے مہاجرین کو معلومات فراہم کرنے کی خاطر کام کرتی رہتی ہیں۔
یہ سمارٹ فون ایپ چودہ ممالک میں ڈاؤن لوڈ کی جا سکتی ہے۔ ان ممالک میں امریکا، آئرلینڈ، برطانیہ، بیلجیم، کروشیا، مالٹا، ہنگری، بلغاریہ، فرانس، سلووانیہ، یونان، اٹلی، جرمنی اور ترکی شامل ہیں۔ صارفین آئی فون کے آپریٹنگ سسٹم iOs کے علاوہ اینڈرائڈ ڈیوائسز پر بھی اس ایپ کو ڈاؤن لوڈ کر سکتے ہیں۔
اس ایپ میں مختلف امدادی تنظیموں کے کاموں اور سروسز کے بارے میں مفصل معلومات موجود ہیں، جو روزانہ کی بنیادوں پر اپ ڈیٹ ہوتی رہتی ہیں۔
شیلے ٹیلر نے ابھی حال ہی میں یورپی یونین کے مہاجرت سے متعلق ایک ادارے ECRE کو بتایا تھا کہ مہاجرین سے متعلق صورتحال ’بحران نہیں ہے‘۔ ان کا کہنا تھا کہ ایسا سوچنا ایک ’غیر منطقی خوف‘ ہو سکتا ہے۔ انہوں نے مزید کہا تھا کہ ایسے لوگوں کو یورپ میں خوش آمدید کہنا چاہیے کیونکہ ان کو بُرا تجربہ نہ ہوا ہوتا تو یہ لوگ اپنا وطن ترک کرے ہوئے کبھی بھی مہاجرت اختیار نہ کرتے۔
یورپ میں مہاجرین کا بحران کیسے شروع ہوا؟
مشرق وسطیٰ اور افریقہ کے کئی ممالک میں بڑھتی ہوئی شورش مہاجرت کے عالمی بحران کا سبب بنی ہے۔ اس تناظر میں یورپ بھی متاثر ہوا ہے۔ آئیے تصویری شکل میں دیکھتے ہیں کہ اس بحران سے نمٹنے کی خاطر یورپ نے کیا پالیسی اختیار کی۔
تصویر: picture-alliance/PIXSELL
جنگ اور غربت سے فرار
سن دو ہزار چودہ میں شامی بحران کے چوتھے سال میں داخل ہوتے ہی جہاں اس عرب ملک میں تباہی عروج پر پہنچی وہاں دوسری طرف انتہا پسند گروہ داعش نے ملک کے شمالی علاقوں پر اپنا قبضہ جما لیا۔ یوں شام سے مہاجرت کا سلسلہ تیز تر ہو گیا۔ اس کے ساتھ ہی دیگر کئی ممالک اور خطوں میں بھی تنازعات اور غربت نے لوگوں کو ہجرت پر مجبور کر دیا۔ ان ممالک میں عراق، افغانستان، ارتریا، صومالیہ، نائجر اور کوسووو نمایاں رہے۔
تصویر: picture-alliance/dpa
پناہ کی تلاش
شامی باشندوں کی ایک بڑی تعداد سن دو ہزار گیارہ سے ہی جنگ و جدل سے چھٹکارہ پانے کی خاطر ہمسائے ممالک ترکی، لبنان اور اردن کا رخ کرنے لگی تھی۔ لیکن سن دو ہزار پندرہ میں یہ بحران زیادہ شدید ہو گیا۔ ان ممالک میں شامی مہاجرین اپنے لیے روزگار اور بچوں کے لیے تعلیم کے کم مواقع کی وجہ سے آگے دیگر ممالک کی طرف ہجرت کرنے لگے۔ تب مہاجرین نے یورپ کا رخ کرنا بھی شروع کر دیا۔
تصویر: picture-alliance/dpa
طویل مسافت لیکن پیدل ہی
سن دو ہزار پندرہ میں 1.5 ملین شامی مہاجرین نے بلقان کے مختلف رستوں سے پیدل ہی یونان سے مغربی یورپ کی طرف سفر کیا۔ مہاجرین کی کوشش تھی کہ وہ یورپ کے مالدار ممالک پہنچ جائیں۔ بڑے پیمانے پر مہاجرین کی آمد کے سبب یورپی یونین میں بغیر ویزے کے سفر کرنے والا شینگن معاہدہ بھی وجہ بحث بن گیا۔ کئی ممالک نے اپنی قومی سرحدوں کی نگرانی بھی شروع کر دی تاکہ غیر قانونی مہاجرین کو ملک میں داخل ہونے سے روکا جا سکے۔
تصویر: Getty Images/M. Cardy
سمندرعبور کرنے کی کوشش
افریقی ممالک سے یورپ پہنچنے کے خواہمشند پناہ کے متلاشی نے بحیرہ روم کو عبور کرکے اٹلی پہنچنے کی کوشش بھی جاری رکھی۔ اس دوران گنجائش سے زیادہ افراد کو لیے کئی کشتیاں حادثات کا شکار بھی ہوئیں۔ اپریل سن 2015 میں کشتی کے ایک خونریز ترین حادثے میں آٹھ سو افراد ہلاک گئے۔ یہ کشتی لیبیا سے اٹلی کے لیے روانہ ہوئی تھی۔ رواں برس اس سمندری راستے کو عبور کرنے کی کوشش میں تقریبا چار ہزار مہاجرین غرق سمندر ہوئے۔
تصویر: Reuters/D. Zammit Lupi
یورپی ممالک پر دباؤ
مہاجرین کی آمد کے سلسلے کو روکنے کی خاطر یورپی یونین رکن ممالک کے ہمسایہ ممالک پر دباؤ بڑھتا گیا۔ اس مقصد کے لیے ہنگری، سلووینیہ، مقدونیہ اور آسٹریا نے اپنی قومی سرحدوں پر باڑیں نصب کر دیں۔ پناہ کے حصول کے قوانین میں سختی پیدا کر دی گئی جبکہ شینگن زون کے رکن ممالک نے قومی بارڈرز پر عارضی طور پر چیکنگ کا نظام متعارف کرا دیا۔
تصویر: picture-alliance/epa/B. Mohai
کھلا دروازہ بند ہوتا ہوا
جرمن چانسلر انگیلا میرکل نے مہاجرین کی یورپ آمد کے لیے فراخدلانہ پالیسی اپنائی۔ تاہم ان کے سیاسی مخالفین کا دعویٰ ہے کہ میرکل کی اسی پالیسی کے باعث مہاجرین کا بحران زیادہ شدید ہوا، کیونکہ یوں زیادہ سے زیادہ لوگوں کو تحریک ملی کہ وہ یورپ کا رخ کریں۔ ستمبر سن دو ہزار سولہ میں بالاخر جرمنی نے بھی آسٹریا کی سرحد پر عارضی طور پر سکیورٹی چیکنگ شروع کر دی۔
تصویر: Reuters/F. Bensch
ترکی کے ساتھ ڈیل
سن دو ہزار سولہ کے اوائل میں یورپی یونین اور ترکی کے مابین ایک ڈیل طے پائی، جس کا مقصد ترکی میں موجود شامی مہاجرین کی یورپ آمد کو روکنا تھا۔ اس ڈیل میں یہ بھی طے پایا کہ یونان پہنچنے والے مہاجرین کو واپس ترکی روانہ کیا جائے گا۔ تاہم انسانی حقوق کی تنظیموں نے اس ڈیل کو سخت تنقید کا نشانہ بنایا۔ کہا جاتا ہے کہ اس ڈیل کی وجہ سے یورپ آنے والے مہاجرین کی تعداد میں واضح کمی ہوئی ہے۔
تصویر: Getty Images/AFP/A. Altan
مہاجرین کا نہ ختم ہونے والا بحران
مہاجرین کے بحران کی وجہ سے یورپ میں مہاجرت مخالف جذبات میں اضافہ ہوا ہے۔ یورپی ممالک ابھی تک اس بحران کے حل کی خاطر کسی لائحہ عمل پر متفق نہیں ہو سکے ہیں۔ رکن ممالک میں مہاجرین کی منصفانہ تقسیم کا کوٹہ سسٹم بھی عملی طور پرغیرمؤثر ہو چکا ہے۔ مشرق وسطیٰ اور دیگر کئی ممالک میں بدامنی کا خاتمہ ابھی تک ختم ہوتا نظر نہیں آتا جبکہ مہاجرت کا سفر اختیار کرنے والے افراد کی اموات بھی بڑھتی جا رہی ہیں۔