مہاجرین کی لیبیا واپسی قبول نہیں کریں گے، وزیر اعظم سراج
شمشیر حیدر5 جون 2016
لیبیا کی یونٹی حکومت کے وزیر اعظم فائز سراج کا کہنا ہے کہ وہ لیبیا کے ساحلوں سے یورپ جانے والے مہاجرین کی یورپ سے لیبیا واپسی قبول نہیں کریں گے۔ انہوں نے لیبیا میں بیرونی فوجی مداخلت کا امکان بھی رد کر دیا۔
اشتہار
جرمن خبر رساں ادارے ڈی پی اے کی رپورٹوں کے مطابق لیبیا کی یونٹی حکومت کے وزیر اعظم فائز سراج کا کہنا تھا، ’’اگر یورپ تارکین وطن کو واپس لیبیا بھیجنے کا فیصلہ کرتا ہے، تو ہم انہیں قبول نہیں کریں گے۔‘‘
جرمن اخبار ’وَیلٹ ام زونٹاگ‘ کو دیے گئے اپنے ایک انٹرویو میں سراج نے مزید کہا، ’’یورپ تارکین وطن کو واپس ان کے آبائی وطنوں کی جانب بھیجنے کا راستہ ڈھونڈے۔ پناہ گزین ہمارے ساتھ نہیں رہ سکتے۔‘‘
ترکی اور یورپی یونین کے مابین مہاجرین کی واپسی کا معاہدہ طے پانے کے بعد سے اس بات کا امکان بھی ظاہر کیا جا رہا تھا کہ بحیرہ روم کے سمندری سے راستے لیبیا سے اٹلی آنے والے تارکین وطن کو بھی واپس لیبیا بھیجنے کے لیے یورپی یونین اور لیبیا کے مابین ترکی جیسا ہی کوئی معاہدہ طے پا سکتا ہے۔
بلقان کی ریاستوں کی جانب سے تارکین وطن کے لیے اپنی ملکی سرحدوں کی بندش اور یونین اور ترکی کے مابین طے پانے والے معاہدے کے بعد سے بحیرہ ایجیئن کے راستوں سے مہاجرین کی یورپ آمد میں کمی دیکھی جا رہی ہے۔
اس کے برعکس لیبیا اور دیگر شمالی افریقی ممالک سے اٹلی کا رخ کرنے والے تارکین وطن کی تعداد میں اضافہ ہوا ہے۔ رواں سال کے آغاز سے اب تک لیبیا کے ساحلوں سے یورپ کا رخ کرنے والے تارکین وطن کی تعداد ایک لاکھ 50 ہزار سے بھی زیادہ ہے۔
بحیرہ روم میں مہاجرین کی کشتیاں ڈوبنے کے خوفناک مناظر
01:11
شمالی افریقی ممالک میں اب بھی لاکھوں تارکین وطن موجود ہیں جو خستہ حال کشتیوں کے ذریعے بحیرہ روم کا طویل اور خطرناک سفر کرنے کے لیے تیار ہیں۔ حالیہ دنوں میں ایسی کوششوں کے دوران سینکڑوں پناہ گزین سمندر میں ڈوب کر ہلاک بھی ہو چکے ہیں جب کہ ہزاروں تارکین وطن کو امدادی کارروائیوں کے ذریعے زندہ بچایا جا چکا ہے۔
بعض میڈیا رپورٹوں کے برعکس فائز سراج نے اس بات کا امکان بھی رد کر دیا کہ لیبیا میں ’اسلامک اسٹیٹ‘ کے خلاف لڑنے کے لیے بین الاقوامی فوج کی مدد طلب کی جا سکتی ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ عالمی برادری سے خفیہ معلومات اور فنی امداد ضرور لی جائے گی لیکن لیبیا میں کارروائیوں کے لیے معاونت نہیں لی جائے گی۔
سراج کے مطابق ان کا ملک داعش کا گڑھ سمجھے جانے والے ساحلی شہر سرت میں داعش کے خلاف مکمل کامیابی حاصل کرنے کے قریب پہنچ چکا ہے۔
فائز سراج لیبیا میں اقوام متحدہ کی ثالثی کے بعد تشکیل پانے والی یونٹی حکومت کے وزیر اعظم ہیں۔ 2011ء میں قذافی حکومت کے خاتمے کے بعد سے یہ ملک داخلی انتشار کا شکار رہا ہے۔ سراج نے اس امید کا اظہار بھی کیا کہ دہشت گردی کے خلاف جنگ سے لیبیا کو پھر سے متحد کرنے میں مدد ملے گی۔
اقوام متحدہ کے ادارہ برائے مہاجرین نے خدشہ ظاہر کیا ہے کہ بحیر روم کو عبور کرنے کی کوشش میں حالیہ ہفتے کے دوران رونما ہونے والے تین حادثوں کے نتیجے میں کم از کم سات سو افراد ہلاک جبکہ دیگر سینکڑوں لاپتہ ہو چکے ہیں۔
تصویر: picture-alliance/dpa/Italian Navy/Handout
عمومی غلطی
ماہی گیری کے لیے استعمال ہونے والی اس کشتی میں سوار مہاجرین نے جب ایک امدادی کشتی کو دیکھا تو اس میں سوار افراد ایک طرف کو دوڑے تاکہ وہ امدادی کشتی میں سوار ہو جائیں۔ یوں یہ کشتی توازن برقرار نہ رکھ سکی اور ڈوب گئی۔
تصویر: Reuters/Marina Militare
اچانک حادثہ
عینی شاہدین کے مطابق اس کشتی کو ڈوبنے میں زیادہ وقت نہ لگا۔ تب یوں محسوس ہوتا تھا کہ اس کشتی میں سوار افراد پتھروں کی طرح پانی میں گر رہے ہوں۔ یہ کشتی لیبیا سے اٹلی کے لیے روانہ ہوئی تھی۔
تصویر: Reuters/Marina Militare
الٹی ہوئی کشتی
دیکھتے ہی دیکھتے یہ کشتی مکمل طور پر الٹ گئی۔ لوگوں نے تیر کر یا لائف جیکٹوں کی مدد سے اپنی جان بچانے کی کوشش شروع کردی۔ اطالوی بحریہ کے مطابق پانچ سو افراد کی جان بچا لی گئی۔
تصویر: Reuters/Marina Militare
امدادی آپریشن
دو اطالوی بحری جہاز فوری طور پر وہاں پہنچ گئے۔ امدادی ٹیموں میں ہیلی کاپٹر بھی شامل تھے۔ بچ جانے والے مہاجرین کو بعد ازاں سیسلی منتقل کر دیا گیا، جہاں رواں برس کے دوران چالیس ہزار مہاجرین پہنچ چکے ہیں۔
تصویر: Reuters/Marina Militare
ہلاک ہونے والوں میں چالیس بچے بھی
تازہ اطلاعات کے مطابق جہاں ان حادثات میں سات سو افراد کے ہلاک ہونے کا خدشہ ظاہر کیا جا رہا ہے، وہیں چالیس بچوں کے سمندر برد ہونے کا بھی قوی اندیشہ ہے۔
تصویر: Reuters/Marina Militare
حقیقی اعدادوشمار نامعلوم
جمعے کو ہونے والے حادثے میں ہلاک یا لاپتہ ہونے والوں کی تعداد کے بارے میں ابھی تک کوئی معلومات حاصل نہیں ہو سکی ہیں۔
تصویر: Reuters/EUNAVFOR MED
مہاجرین کو کون روکے؟
ایسے خدشات درست معلوم ہوتے نظر آ رہے ہیں کہ ترکی اور یورپی یونین کی ڈیل کے تحت بحیرہ ایجیئن سے براستہ ترکی یونان پہنچنے والے مہاجرین کے راستے مسدود کیے جانے کے بعد لیبیا سے اٹلی پہنچنے والے مہاجرین کی تعداد بڑھ جائے گی۔
تصویر: picture-alliance/dpa/Italian Navy/Marina Militare
عینی شاہدین کے بیانات
عینی شاہدین نے بتایا ہے کہ کس طرح انہوں نے اپنی آنکھوں سے مہاجرین کی کشتیوں کوڈوبتے دیکھا، جن میں سینکڑوں افراد سوار تھے۔ یہ تلخ یادیں ان کے ذہنوں پر سوار ہو چکی ہیں۔
تصویر: Getty Images/G.Bouys
سینکڑوں ہلاک
گزشتہ سات دنوں کے دوران بحیرہ روم میں مہاجرین کی کشتیون کو تین مخلتف حادثات پیش آئے۔ اقوام متحدہ کے ادارہ برائے مہاجرین کے مطابق ان حادثات کے نتیجے میں کم ازکم سات سو افراد ہلاک جبکہ سینکڑوں لاپتہ ہو گئے ہیں۔
تصویر: Reuters/H. Amara
بحران شدید ہوتا ہوا
موسم سرما کے ختم ہونے کے بعد شمالی افریقی ملک لیبیا سے یورپی ملک اٹلی پہنچنے والے افراد کی تعداد میں تیزی دیکھی جا رہی ہے۔ اطالوی ساحلی محافظوں نے گزشتہ پیر سے اب تک کم ازکم چودہ ہزار ایسے افراد کو بچایا ہے، جو لیبیا سے یورپ پہنچنے کی کوشش میں بحیرہ روم میں بھٹک رہے تھے۔