مہاجرین کی منصفابہ تقسیم، میرکل اور بابس متفق نہ ہو سکے
6 ستمبر 2018
جرمن چانسلر میرکل اور چیک وزیر اعظم بابس مہاجرین کے بحران سے نمٹنے کی خاطر مشترکہ حکمت عملی پر اتفاق رائے میں ناکام ہو گئے ہیں۔ بابس نے برلن میں میرکل سے ملاقات میں اس موضوع پر خصوصی مذاکرات کیے لیکن نتیجہ کچھ نہ نکلا۔
اشتہار
خبر رساں ادارے ڈی پی اے نے مقامی میڈیا کے حوالے سے بتایا ہے کہ جرمن چانسلر انگیلا میرکل اور چیک جمہوریہ کے وزیر اعظم آندریج بابس کے مابین ملاقات میں مہاجرین سے متعلق اختلافات دور نہیں ہو سکے۔ دونوں ممالک یورپی یونین کی مہاجرت کی پالیسی پر شدید اختلافات رکھتے ہیں۔
چیک وزیر اعظم بابس سے ملاقات کے بعد بدھ کی شام چانسلر میرکل نے کہا کہ یورپی یونین کی طرف سے مہاجرین کی منصفانہ تقسیم کا فارمولا انتہائی اہم ہے۔ لیکن چیک وزیر اعظم نے کہا کہ ان کی حکومت یورپی یونین کے اس منصوبے کو تسلیم نہیں کرتی۔ اس فارمولے کے تحت طے پایا تھا کہ تمام یورپی یونین رکن ممالک میں مہاجرین کی منصفانہ تقسیم کی جائے گی تاکہ کسی ایک ریاست پر زیادہ بوجھ نہ پڑے۔
چیک جمہوریہ، پولینڈ، ہنگری اور سلووینیہ سن دو ہزار پندرہ میں طے پانے والی اس ڈیل کے سخت ناقد ہیں۔ انگیلا میرکل کا کہنا ہے کہ مہاجرین کے بحران کے حل کی خاطر کسی رکن ملک کو یک طرفہ اقدامات نہیں اٹھانے چاہییں بلکہ اس کی خاطر یورپی سطح پہ ایک متفقہ لائحہ عمل ہی اس مسئلے کا خاتمہ کر سکتا ہے۔
چیک وزیر اعظم بابس گزشتہ برس کے الیکشن میں کامیابی حاصل کرنے کے بعد پہلی مرتبہ جرمنی کا دورہ کر رہے تھے۔ اس الیکشن کی مہم میں انہوں نے مہاجرین مخالف نعرہ لگا کر عوامی حمایت حاصل کی تھی۔ میرکل سے ملاقات کے بعد بابس کا کہنا تھا کہ ان کے ملک نے مہاجرین کو قبول کرنے کے لیے ابھی تک کسی سمجھوتے پر اتفاق نہیں کیا ہے۔
تاہم بابس نے واضح کیا کہ یونین کے رکن ممالک کے ساتھ اظہار یک جہتی کے طور پر پراگ حکومت نے مہاجرین کے بحران کے شکار ممالک کو سن دو ہزار پندرہ سے اب تک سو ملین یورو کی رقوم فراہم کی ہیں۔ انہوں نے مزید کہا کہ مہاجرین کے بحران سے نمٹنے کی خاطر غیر قانونی ہجرت کے تمام تر راستے بند کرنا ہوں گے۔
افریقہ، ایشیا یا مشرق وسطیٰ میں تنازعات اور غربت کی وجہ سے ہجرت کرنے والے افراد میں سے زیادہ تر کی یورپی یونین میں پہلی منزل یونان، اٹلی یا سپین ہوتی ہے۔ وہاں سے یہ لوگ دیگر یورپی ممالک جانے کی کوشش کرتے ہیں تاہم بلقان کے راستوں کی بندش اور سخت سرحدی نگرانی کے باعث اب ان مہاجرین کی نقل وحرکت محدود ہو چکی ہے۔ اس باعث بالخصوص اٹلی اور یونان میں محصور مہاجرین کی تعداد کافی زیادہ ہو چکی ہے۔
ع ب / ع ا / خبر رساں ادارے
مہاجرین کے لیے دریائے مارتسا کی ہلاکت خیز سرحد
ترکی اور یونان کے راستے میں ہلاک ہوجانے والے پناہ گزینوں کی لاشیں اور ساز و سامان کس کے سُپرد کیے جاتے ہیں؟ یہ پتا لگانے کے لیے ماریانا کاراکولاکی نے یونان کے شہر الیکساندرو پولی کے ایک مردہ خانے کا دورہ کیا۔
تصویر: Reuters/A. Konstantinidis
خطرناک کراسنگ
یونان اور ترکی کے درمیان واقع دریائے مارتسا کو’ایوروس‘ کے نام سے بھی جانا جاتا ہے۔ پناہ گزینوں میں اس دریا کے ساتھ جڑی سرحد بہت مقبول ہے۔ یورپی حدود میں داخل ہونے کی کوشش میں یہاں برسوں سے ہزاروں لوگ اپنی جانیں ضائع کر چکے ہیں۔
تصویر: DW/M.Karakoulaki
مردہ خانہ
مارتسا دریا کو پار کرنے کی کوشش میں رواں برس انتیس پناہ گزینوں کی لاشیں بازیاب کی گئیں۔ فی الوقت مردہ خانے میں پندرہ میتیں جمع ہیں، جن میں ایک پندرہ سالہ لڑکے کی لاش بھی شامل ہے۔
تصویر: DW/M.Karakoulaki
بین الاقوامی مدد
دریائے مارتسا میں ہلاک ہونے والے پناہ گزینوں کی تعداد میں اضافے کے باعث امدادی تنظیم ریڈ کراس کی بین الاقوامی کمیٹی نے الیکساندرو پولی کے اس مردہ خانہ میں ایک سرد خانے کا بندوبست کر رکھا ہے۔
تصویر: DW/M.Karakoulaki
ہلاک ہونے والوں کی تلاش
مچھیریوں اور دیگر حفاظتی اہلکاروں کو اکثر دریا کے پاس نعشیں ملتی ہیں۔ پولیس جائے وقوعہ پر ابتدائی کارروائی مکمل کرنے کے بعد نعشیں مردہ خانے منتقل کر دیتی ہے۔ پاولوس پاولیڈس نعش کے ساتھ ملے سامان، جسم پر نقش نشانات اور ڈی این اے کے ذریعے شناخت کرتے ہیں۔
تصویر: DW/M.Karakoulaki
اموات کی وجہ
اموات کی تفتیش کرنے والے پاولوس پاولیڈس کے مطابق ستر فیصد پناہ گزین دریا میں ڈوب جاتے ہیں، جس کی وجہ سے ان کے جسم کا درجہ حرارت نارمل سے کم ہو جاتا ہے۔ حال ہی میں ٹرین اور روڈ حادثوں کی وجہ سے بھی اموات میں اضافہ ہو رہا ہے۔
تصویر: DW/M.Karakoulaki
نجی ساز و سامان
پاولیڈس نعش کے قریب ملنے والے سامان کو احتیاط سے پلاسٹک بیگ میں محفوظ کرتے ہیں تاکہ اس کی مدد سے پناہ گزینوں کی میت کی شناخت کی جا سکے۔
تصویر: DW/M.Karakoulaki
کٹھن مگر ایک اہم ذمہ داری
ان تمام چیزوں کی نشاندہی ایک درد ناک عمل ہے۔ پاولیڈس نے بتایا ’نعش کے ساتھ اکثر وہ سامان ملتا ہ، جو پانی سے خراب نہ ہو چکا ہو۔‘
تصویر: DW/M.Karakoulaki
گمشدہ انگوٹھیاں
عموماﹰ پناہ گزینوں کے ساتھ انگوٹھیاں، گلے کی چین یا پھر دیگر دھات سے بنی اشیاء ملتی ہیں تاہم کپڑے اور دستاویزات پانی میں بھیگ جاتے ہیں۔
تصویر: DW/M.Karakoulaki
موت اور عقیدہ
مارتسا دریا میں ہلاک ہونے والے پناہ گزینوں سے اکثر مذہبی نشانیاں بھی ملتی ہیں۔ جب کسی میت کی شناخت ہوجاتی ہے تو تمام چیزیں ان کے لواحقین کے حوالے کر دی جاتی ہیں۔
تصویر: DW/M.Karakoulaki
ابدی امن
میت کی تدفین کا انتظام یونانی حکام کی جانب سے کیا جاتا ہے۔ مسلمان پناہ گزینوں کو قریبی گاؤں سیداری میں دفن کیا جاتا ہے جبکہ مسیحی پناہ گزینوں کی یونان کے قصبے اوریستیادا میں تدفین کی جاتی ہے۔