يورپی يونين کے کمشنر برائے ہجرت دیمیترس آوراموپولوس نے یورپی بلاک کے رکن ممالک سے مطالبہ کیا ہے کہ وہ مہاجرین کی منصفانہ تقسیم کے معاملے پر یک جہتی کا مظاہرہ کریں۔
یورپی یونین کے کمشنر برائے مہاجرت کے مطابق اس بحران میں يونين کے مٹھی بھر ممالک کو اکیلا نہیں چھوڑا جا سکتاتصویر: picture-alliance/V.Mayo
اشتہار
جرمن اخبار ’ دی ویلٹ ‘ نے اپنی ایک رپورٹ میں آوراموپولوس کے بیان کا حوالہ دیتے ہوئے لکھا ہے،’’ ہمارے پاس ضائع کرنے کے لیے وقت نہیں ہے۔‘‘ یورپی یونین کے کمشنر برائے مہاجرت کی رائے میں زیادہ سے زیادہ آئندہ برس جون تک ڈبلن انتظامی معاہدے کی موجودہ شکل میں اصلاحات کے حوالے سے معاہدہ طے پا جانا چاہیے تاکہ یورپ آنے والے مہاجرین کی تقسیم کو پایہ تکمیل تک پہنچایا جا سکے۔
دسمبر میں یورپی سربراہی کانفرنس میں یونین کی رکن ریاستوں کے رہنماؤں کے درمیان مہاجرین کے موضوع پر اختلاف رائے میں کوئی کمی نہیں ہو سکی تھی۔ اس موضوع پر مشرقی اور مغربی یورپی ریاستوں کے درمیان اختلافات سمٹ کے دوران بھی واضح رہے۔
یہاں یہ امر اہم ہے کہ اس کانفرنس سے قبل یورپی کونسل کے سربراہ ڈونلڈ ٹسک نے ایک خط میں لکھا تھا کہ کمیشن کا مہاجرین کی تقسیم سے متعلق منصوبہ تقسیم کا باعث بن رہا ہے اور یہ موثر نہیں۔ ہنگری، چیک جمہوریہ، سلواکیہ اور پولینڈ نے ڈونلڈ ٹُسک کے موقف کی تائید کی تھی، تاہم جرمنی اور دیگر ممالک کا موقف ہے کہ تارکین وطن کی تقسیم سے متعلق کوٹا یورپی یک جہتی کو ظاہر کرنے کے لیے انتہائی ضروری ہے۔
تصویر: Reuters/A. Konstantinidis
یورپی یونین کے کمشنر برائے مہاجرت کا کہنا ہے کہ اس بحرانی صورت حال سے نمٹنے کے لیے کسی ایک یا يونين کے مٹھی بھر ممالک کو اکیلا نہیں چھوڑا جا سکتا۔
'ڈبلن قوانین‘ کے نام سے جانے جانے والے موجودہ یورپی قوانین کے مطابق تارکین وطن صرف اسی ملک میں سیاسی پناہ کی درخواستیں جمع کرا سکتے ہیں جس ملک کے ذریعے وہ یورپی یونین کی حدود میں داخل ہوئے۔ اس قانون کی وجہ سے یونین کی بیرونی سرحدوں پر واقع یونان اور اٹلی جیسے ممالک کو پناہ گزینوں کا سب سے زیادہ بوجھ برداشت کرنا پڑا ہے۔
توقع ہے کہ آئندہ برس جون تک اس معاہدے میں ترمیم کی جا سکے گی اور یورپ پہنچنے والے مہاجرین کی تقسیم سے متعلق کوٹا سسٹم منصوبے پر کوئی حتمی فیصلہ سامنے آ جائے گا۔
'موت کے راستے‘ پر زندگی داؤ پر لگاتے افغان مہاجر لڑکے
بیشتر تارکینِ وطن کو اٹلی سے فرانس کے درمیان بارڈر کراس کرنے کے لیے جس راستے پر سفر کرنا پڑتا ہے اسے ’ڈیتھ پاس‘ یا موت کا راستہ کہتے ہیں۔ یہ راستہ بے حد پُر خطر ہے۔ اس سفر کا اختتام بعض اوقات موت پر ہوتا ہے۔
تصویر: DW/F.Scoppa
جنگل میں
پولیس کے تعاقب سے خوفزدہ کم سن افغان لڑکوں کا ایک گروپ بارہ کلو میٹر لمبے ٹریک پر روانہ ہے۔ یہ راستہ ’ڈیتھ پاس ‘ کہلاتا ہے جو اونچی نیچی ڈھلانوں اور خطرناک پہاڑوں پر مشتمل ہے اور فرانس کے سرحدی قصبے ’مونتوں‘ تک جاتا ہے۔
تصویر: DW/F.Scoppa
ایک دھوکے باز راستہ
وہ تارکین وطن جو اٹلی سے فرانس جانے کے لیے اس راستے کا انتخاب کرتے ہیں اُنہیں سفر کے دوران پتہ چلتا ہے کہ اس راستے پر چلتے ہوئے ہر پل موت کا دھڑکا لگا رہتا ہے۔ دلدلی زمین، خطرناک موڑ اور پہاڑوں کا سفر بعض اوقات مہلک ثابت ہوتا ہے۔
تصویر: DW/F.Scoppa
زیرِزمین ٹنل
بہت سے مہاجرین فرانس جانے کے لیے جنگلات سے گزر کر ہائی وے تک جاتے ہیں جو اُنہیں اس باڑ تک لے آتی ہے۔ یہاں سے وہ ایک زیرِ زمین ٹنل سے پیدل گزرتے ہیں جو خود کو موت کے منہ میں ڈالنے کے مترادف ہے۔
تصویر: DW/F.Scoppa
فطرت پر انحصار
وہ تارکین وطن جو فرانس جانے کے لیے ’ڈیتھ پاس‘ کا انتخاب کرتے ہیں، عموماﹰ وہ یہ اقدام راستے کے بارے میں معلومات حاصل کیے بغیر اور کھانے پینے کا سامان ہمراہ لیے بغیر ہی اٹھا لیتے ہیں۔
تصویر: DW/F.Scoppa
بوڑھے کسانوں کے اسٹور ہاؤس
مہاجرین اور تارکین وطن کبھی کبھار بوڑھے کسانوں کے خالی اسٹور ہاؤسز کو پناہ گاہ کے طور پر استعمال کرتے ہیں۔ یہاں اُنہیں پرانے کپڑے بھی مل جاتے ہیں۔ اپنے نسبتاﹰ صاف اور نئے کپڑوں کے مقابلے میں یہ پرانے کپڑے تبدیل کر کے تارکینِ وطن سمجھتے ہیں کہ اس طرح اُنہیں فرانس کی پولیس سے چھپنے میں مدد ملے گی۔
تصویر: DW/F.Scoppa
اٹلی اور فرانس کی سرحد پر
اٹلی اور فرانس کی سرحد پر نصب ایک پرچم سے پتہ چلتا ہے کہ لوگ کس مقام سے سرحد کے دوسری طرف جا سکتے ہیں۔ یہ باڑ فرانس نے دوسری جنگِ عظیم کے بعد اٹلی کی جانب سے امیگریشن روکنے کے لیے تعمیر کی تھی۔
تصویر: DW/F.Scoppa
اب کیا کریں؟
افغان مہاجر لڑکے اندازہ لگا رہے ہیں کہ وہ فرانس کے قصبے مونتوں تک جانے کے لیے نیچے ڈھلانی راستے سے کس طرح اتریں۔ اس مقام پر اکثر تارکینِ وطن کو بارڈر پولیس پکڑ لیتی ہے اور اُنہیں واپس اٹلی بھیج دیا جاتا ہے۔