مہاجرین کی نئی لہر یورپ کا رخ کر سکتی ہے، یورپی یونین کمشنر
صائمہ حیدر
9 اگست 2017
ایک اطالوی اخبار کے مطابق اٹلی میں تارکین وطن کے بہاؤ میں کمی کے باوجود یورپی یونین کے کمیشن برائے مہاجرت نے خبردار کیا ہے کہ مہاجرین کی ایک نئی لہر یورپ کا رُخ کر سکتی ہے۔
اشتہار
یورپی یونین کے کمشنر برائے مہاجرت دیمتریس اورامو پولوس نے آج بروز بدھ اٹلی کے ایک روزنامے ’لا شٹامپا‘ کو دیے گئے ایک انٹرویو میں کہا کہ مہاجرین کے موجودہ بحران کے تناظر میں ہمیں محتاط اور تیار رہنا چاہیے۔ اخبار نے اوراموپولوس کا حوالہ دیتے ہوئے لکھا ہے، ’’سب ہی جانتے ہیں کہ شمالی لیبیا میں ابھی بے شمار تارکین وطن یورپ کے سفر کی تیاری میں ہیں۔‘‘
اطالوی روزنامے نے یورپی یونین کے کمشنر برائے مہاجرت کے حوالے سے یہ بھی لکھا کہ خانہ جنگی کے شکار ممالک، جہاں سے تارکین وطن یورپ کے لیے روانہ ہوتے ہیں، اور افریقی ٹرانزٹ ممالک کے درمیان باہمی گفت و شنید اور تعاون کو مزید مضبوط کیے جانے کی ضرورت ہے اور صرف مشترکہ لائحہ عمل مرتب کر کے ہی اس بہاؤ کو روکا جا سکتا ہے۔ اوراموپولوس کے مطابق صورت حال مشکل اور خطرناک ہے۔
رواں برس جولائی میں اٹلی پہنچنے والے مہاجرین کی تعداد گیارہ ہزار چار سو انسٹھ تھی۔
یہ تعداد جون سن 2017 کے مقابلے میں نصف کے قریب تھی۔ گزشتہ سال کے مقابلے میں تارکین وطن کی اٹلی آمد کی تعداد امسال نصف سے بھی کم رہی۔ انسانی اسمگلنگ کے خلاف جنگ میں فی الحال اٹلی تکنیکی اور انتظامی امور میں لیبیا کی کوسٹ گارڈ کی معاونت کر رہا ہے۔ علاوہ ازیں اطالوی حکومت مہاجرین کے بہاؤ کو کنٹرول بھی کرنا چاہتی ہے۔
عالمی ادارہ مہاجرت کی رپورٹ کے مطابق آج صبح بھی ایک سو تینتالیس تارکین وطن کو لیبیا کی کوسٹ گارڈ نے امدادی کارروائی کرتے ہوئے ڈوبنے سے بچایا۔
خیال رہے کہ یورپی یونین نے پہلے ہی بحیرہ روم کے انتہائی شمال میں سمندری مشن شروع کر رکھا ہے تا کہ مہاجرین کی بھری کشتیوں کو خطرناک سمندری علاقے میں داخل ہونے سے قبل ہی روک دیا جائے۔ اس کے علاوہ یورپی یونین نے لیبیا کو نوے ملین یورو عطیہ کیے ہیں تا کہ لیبیا میں محصور افریقی مہاجرین کے خراب حالات کو بہتر کیا جا سکے اور انہیں جنوبی سرحد کے پار کے ممالک کو واپس کیا جا سکے۔
شمالی وزیرستان کے مہاجر بچوں کے لیے افغانستان میں اسکول
پاکستان کے قبائلی علاقے شمالی وزیرستان سے ہجرت کر کے افغان علاقے لمن جانے والے پاکستانی مہاجرین کے بچوں کے لیے قائم ایک اسکول کی تصاویر دیکھیے جو تفصیلات سمیت ایک مقامی صحافی اشتیاق محسود نے ڈی ڈبلیو کو ارسال کی ہیں۔
تصویر: I. Mahsud
اسکول کا بانی بھی پاکستانی مہاجر
شمالی وزیرستان سے تعلق رکھنے والے پاکستانی مہاجر محمد علی شاہ نے ( سفید لباس میں ملبوس ) افغان علاقے لمن میں پاکستانی پناہ گزین بچوں کے لیے ایک ٹینٹ اسکول قائم کیا ہے۔ محمد علی کا کہنا ہے کہ یہ اسکول اپنی مدد آپ کے تحت بچوں کا تعلیمی مستقبل بچانے کے لیے قائم کیا گیا۔
تصویر: I. Mahsud
ساڑھے چار سو بچے زیر تعلیم
محمد علی شاہ کے بقول خیموں میں قائم کیے گئے اس اسکول میں شمالی وزیرستان کے قریب ساڑھے چار سو مہاجر بچوں کو چھٹی جماعت تک تعلیم دی جا رہی ہے۔
تصویر: I. Mahsud
ایک خیمے میں تین کلاسیں
اسکول کے بانی کا کہنا ہے کہ جگہ کی کمی کے باعث ایک خیمے میں تین کلاسوں کو پڑھانا پڑتا ہے۔ وسائل نہ ہونے کے سبب ان پناہ گزین بچوں کو تعلیم کے حصول میں مشکلات کا سامنا ہے۔
تصویر: I. Mahsud
تعلیم کا شوق
اسکول میں زیر تعلیم چھٹی جماعت کے ایک طالب علم کا کہنا ہے کہ وہ موسم کی شدت کی پروا کیے بغیر تعلیم حاصل کر رہے ہیں تاکہ مستقبل میں اپنے علاقے کی خدمت کر سکیں۔
تصویر: I. Mahsud
’افغان حکومت مدد کرے‘
محمد علی شاہ کا کہنا ہے کہ افغان حکومت کی طرف سے اس سلسلے میں کوئی مدد فراہم نہیں کی گئی ہے۔ اُنہوں نے افغان حکومت اور اقوام متحدہ سے بچوں کی تعلیم میں معاونت کا مطالبہ بھی کیا۔
تصویر: I. Mahsud
’اسلام آباد اور کابل کے بچوں جیسی تعلیم‘
ایک اور طالب علم رفید خان نے کہا کہ وہ پاکستان اور افغانستان کی حکومتوں سے مطالبہ کرتے ہیں کہ اُنہیں بھی ویسی ہی تعلیمی سہولیات مہیا کی جائیں، جو اسلام آباد اور کابل کے بچوں کو حاصل ہیں۔
تصویر: I. Mahsud
کھیل کا میدان بھی ہے
پاکستان کے قبائلی علاقے شمالی وزیرستان میں طالبان کے خلاف فوجی آپریشن کے آغاز کے بعد کئی قبائلی خاندان ہجرت کر کے افغانستان چلے گئے تھے، جن میں بچوں کی بھی ایک بڑی تعداد شامل تھی۔ اسکول میں تعلیم حاصل کرنے والے بچوں نے خیموں سے باہر کھیل کا میدان بھی بنا رکھا ہے۔
تصویر: I. Mahsud
اساتذہ بھی مہاجر
اس خیمہ اسکول میں پانچ اساتذہ بچوں کو تعلیم دیتے ہیں۔ ان تمام اساتذہ کا تعلق بھی پاکستان کے قبائلی علاقے شمالی وزیرستان سے ہے اور یہ بھی افغانستان میں پناہ گزین ہیں۔