’مہاجرین کی واپسی میں عدم تعاون پر یورپ کا ویزا نہیں ملے گا‘
شمشیر حیدر Reuters/dpa
24 جون 2017
یورپی یونین نے مہاجرین کی واپسی میں تعاون نہ کرنے والے ممالک کے خلاف سخت اقدامات کا اعلان کیا ہے۔ یونین کے رکن ممالک نے فیصلہ کیا ہے کہ ایسے ممالک کے شہریوں کو ویزوں کا اجرا محدود کر دیا جائے گا۔
اشتہار
برسلز میں یورپی یونین کے رہنماؤں کی سمٹ کے دوران ایسے ممالک کے خلاف سخت اقدمات کرنے کا فیصلہ کیا گیا ہے جو اپنے شہریوں کی یورپ سے واپسی سے انکار یا اس سلسلے میں عدم تعاون کر رہے ہیں۔
جمعہ تئیس جون کے روز برسلز میں ہونے والے یورپی سربراہوں کے اجلاس کے دوسرے دن تمام یورپی ممالک نے مشترکہ طور پر فیصلہ کیا کہ ایسے ممالک جن کے شہریوں کو یورپ میں بطور مہاجر رہنے کا کوئی حق نہیں ہے اور جو اپنے ہاں سے یورپ آنے والے تارکین وطن کی واپسی میں تعاون نہیں کر رہے، ان ملکوں کے شہریوں کو مستقبل میں یورپی ممالک کے ویزے جارے کرنے میں سختی کر دی جائے گی۔
امیدوں کے سفر کی منزل، عمر بھر کے پچھتاوے
03:00
سن 2014 میں یورپ میں مہاجرین کی آمد میں اچانک اضافہ ہونا شروع ہو گیا تھا، جس دوران بین الاقوامی قوانین کے تحت پناہ کا حقدار سمجھے جانے والے مہاجرین کے علاوہ بڑی تعداد میں معاشی وجوہات کی بنا پر بھی کئی ترقی پذیر ممالک سے تعلق رکھنے والے تارکین وطن نے یورپ کا رخ کرنا شروع کر دیا تھا۔ یورپ میں معاشی وجوہات کی بنا پر ہجرت کرنے والوں کو پناہ کا حق دار تسلیم نہیں کیا جاتا۔
براعظم ایشا اور افریقہ کے بیشتر ممالک سے تعلق رکھنے والے ان معاشی تارکین وطن کی پناہ کی درخواستیں مسترد کر دیے جانے کے بعد انہیں واپس ان کے آبائی وطنوں کی جانب بھیج دیا جاتا ہے۔ ان افراد کی وطن واپسی کو یقینی بنانے کے لیے ان کے آبائی ممالک کے تعاون سے سفری دستاویزات کا بندوبست کرنے کے بعد ہی انہیں یورپ سے ملک بدر کیا جاتا ہے۔
تاہم پاکستان، بنگلہ دیش اور نائجیریا سمیت کئی ممالک عام طور پر ان افراد کی وطن واپسی میں دلچسپی نہیں لیتے۔ یورپی یونین کے سربراہان کی سمٹ کی دوران ایسے ہی ممالک کے خلاف سخت اقدامات کا فیصلہ کیا گیا ہے۔ اٹھائیس رکنی یورپی یونین کے سبھی سربراہان نے متفقہ طور پر مہاجرین کی وطن واپسی کو یقینی بنانے کے لیے ’تمام ممکنہ اقدامات‘ کرنے کا فیصلہ کیا، جس میں ’ویزا پالیسی کا ازسرنو جائزہ‘ بھی شامل ہے۔
روئٹرز سے گفتگو کرتے ہوئے ایک اعلیٰ یورپی سفارت کار کا کہنا تھا، ’’ہم ویزے محدود کر کے ان ممالک کو اپنے شہریوں کی وطن واپسی پر قائل کر سکتے ہیں۔‘‘ اس سفارت کار کا کہنا تھا کہ ایسے ممالک کی حکمران اشرافیہ اور امیر طبقے کے لیے یورپی یونین کے رکن ممالک کے ویزوں کا حصول سخت بنا کر انہیں دباؤ میں لایا جا سکتا ہے۔
پاکستانی تارک وطن، اکبر علی کی کہانی تصویروں کی زبانی
اکبر علی بھی ان ہزاروں پاکستانی تارکین وطن میں سے ایک ہے جو مہاجرین کے موجودہ بحران کے دوران جرمنی اور دیگر یورپی ممالک پہنچے۔ اس پرخطر سفر کے دوران علی نے چند مناظر اپنے موبائل فون میں محفوظ کر لیے۔
تصویر: DW/S. Haider
ایران کا ویزہ لیکن منزل ترکی
علی نے پاکستان سے مقدس مقامات کی زیارت کے لیے ایران کا ویزہ لیا۔ ایران سے انسانوں کے اسمگلروں نے اسے سنگلاخ پہاڑوں کے ایک طویل پیدل راستے کے ذریعے ترکی پہچا دیا۔ تین مہینے ترکی کے مختلف شہروں میں گزارنے کے بعد علی نے یونان کے سفر کا ارادہ کیا اور اسی غرض سے وہ ترکی کے ساحلی شہر بودرم پہنچ گیا۔
تصویر: Akbar Ali
میدانوں کا باسی اور سمندر کا سفر
بحیرہ ایجیئن کا خطرناک سمندری سفر سینکڑوں تارکین وطن کو نگل چکا ہے۔ یہ بات علی کو بھی معلوم تھی۔ پنجاب کے میدانی علاقے میں زندگی گزارنے والے علی نے کبھی سمندری لہروں کا سامنا نہیں کیا تھا۔ علی نے اپنے دل سے سمندر کا خوف ختم کرنے کے لیے پہلے سیاحوں کے ساتھ سمندر کی سیر کی۔ پھر درجنوں تارکین وطن کے ہمراہ ایک چھوٹی کشتی کے ذریعے یونانی جزیرے لیسبوس کے سفر پر روانہ ہو گیا۔
تصویر: Akbar Ali
دیکھتا جاتا ہوں میں اور بھولتا جاتا ہوں میں
سمندر کی خونخوار موجوں سے بچ کر جب علی یونان پہنچا تو اسے ایک اور سمندر کا سامنا تھا۔ موسم گرما میں یونان سے مغربی یورپ کی جانب رواں مہاجرین کا سمندر۔ علی کو یہ سفر بسوں اور ٹرینوں کے علاوہ پیدل بھی طے کرنا تھا۔ یونان سے مقدونیا اور پھر وہاں سے سربیا تک پہنچتے پہنچتے علی کے اعصاب شل ہو چکے تھے۔ لیکن منزل ابھی بھی بہت دور تھی۔
تصویر: Akbar Ali
کھنچی ہے جیل کی صورت ہر ایک سمت فصیل
ہزاروں مہاجرین کی روزانہ آمد کے باعث یورپ میں ایک بحرانی کیفیت پیدا ہو چکی تھی۔ علی جب سربیا سے ہنگری کے سفر پر نکلا تو ہنگری خاردار تاریں لگا کر اپنی سرحد بند کر چکا تھا۔ وہ کئی دنوں تک سرحد کے ساتھ ساتھ چلتے ہنگری میں داخل ہونے کا راستہ تلاشتے رہے لیکن ہزاروں دیگر تارکین وطن کی طرح علی کو بھی سفر جاری رکھنا ناممکن لگ رہا تھا۔
تصویر: Akbar Ali
متبادل راستہ: ہنگری براستہ کروشیا
کروشیا اور ہنگری کے مابین سرحد ابھی بند نہیں ہوئی تھی۔ علی دیگر مہاجرین کے ہمراہ بس کے ذریعے سربیا سے کروشیا کے سفر پر روانہ ہو گیا، جہاں سے وہ لوگ ہنگری میں داخل ہونے میں کامیاب ہو گئے۔ ہنگری سے بذریعہ ٹرین علی آسٹریا پہنچا، جہاں کچھ دن رکنے کے بعد وہ اپنی آخری منزل جرمنی کی جانب روانہ ہو گیا۔
تصویر: Akbar Ali
جرمنی آمد اور بطور پناہ گزین رجسٹریشن
اکبر علی جب جرمنی کی حدود میں داخل ہوا تو اسے پناہ گزینوں کی رجسٹریشن کے مرکز لے جایا گیا۔ علی نے جرمنی میں پناہ کی باقاعدہ درخواست دی، جس کے بعد اسے جرمنی کے شہر بون میں قائم ایک شیلٹر ہاؤس پہنچا دیا گیا۔ علی کو اب اپنی درخواست پر فیصلہ آنے تک یہاں رہنا ہے۔ اس دوران جرمن حکومت اسے رہائش کے علاوہ ماہانہ خرچہ بھی دیتی ہے۔ لیکن علی کا کہنا ہے کہ سارا دن فارغ بیٹھنا بہت مشکل کام ہے۔
تصویر: DW/S. Haider
تنہائی، فراغت اور بیوی بچوں کی یاد
علی جرمن زبان سے نابلد ہے۔ کیمپ میں کئی ممالک سے آئے ہوئے مہاجرین رہ رہے ہیں۔ لیکن علی ان کی زبان بھی نہیں جانتا۔ اسے اپنے بچوں اور بیوی سے بچھڑے ہوئے سات ماہ گزر چکے ہیں۔ اپنے خاندان کا واحد کفیل ہونے کے ناطے اسے ان کی فکر لاحق رہتی ہے۔ اس کا کہنا ہے، ’’غریب مزدور آدمی ہوں، جان بچا کر بھاگ تو آیا ہوں، اب پچھتاتا بھی ہوں، بیوی بچوں کے بغیر کیا زندگی ہے؟ لیکن انہی کی خاطر تو سب کچھ کر رہا ہوں۔‘‘