مہاجرین کی واپسی: یورپ شام کی تعمیر نو میں مدد کرے، پوٹن
19 اگست 2018
روسی صدر ولادیمیر پوٹن نے یورپی یونین سے مطالبہ کیا ہے کہ وہ شام کی تعمیر نو کے لیے مالی مدد کرے، تاکہ کئی لاکھ شامی مہاجرین واپس اپنے گھروں کو لوٹ سکیں۔
اشتہار
ہفتے کی شام جرمن دارالحکومت برلن سے 70 کلومیٹر شمال کی طرف میزے برگ کے محل میں وفاقی چانسلر انگیلا میرکل کے ساتھ ایک ملاقات سے قبل روسی صدر پوٹن نے کہا، ’’ہمیں انسانی ہم دردی کی بنیادوں پر شامی تنازعے کی بابت اقدامات کو وسعت دینے کی ضرورت ہے۔‘‘
ان کا کہنا تھا، ’’شامی شہریوں کے حوالے سے انسانی بنیادوں پر امداد کو ہر شے سے ماورا ہونا چاہیے، اس سے خطے میں موجود لاکھوں مہاجرین اپنے گھروں کو لوٹ سکیں گے۔‘‘
صدر پوٹن نے کہا کہ لاکھوں شامی باشندے اردن، لبنان اور ترکی میں مقیم ہیں اور شام کی تعمیر نو کے ذریعے ان مہاجرین کی وطن واپسی کے لیے ماحول کو سازگار بنایا جا سکتا ہے۔
جرمنی نے بھی سن 2015ء میں لاکھوں شامی باشندوں کو اپنے ہاں پناہ دی تھی اور اسی تناظر میں انگیلا میرکل کی سیاسی قوت میں کمی بھی ہوئی ہے اور یورپی یونین بھی اس معاملے پر منقسم ہے۔
پوٹن نے مزید کہا، ’’ظاہر ہے کہ مہاجرین کی وجہ سے یورپ پر بہت بوجھ ہے۔ اس لیے ہمیں وہ سب کچھ کرنا چاہیے، جس کے ذریعے یہ مہاجرین اپنے گھروں کو لوٹ سکیں۔‘‘
انہوں نے زور دیا کہ شام میں پینے کے پانی اور صحت جیسے بنیادی سہولیات اور خدمات کی فراہمی اس سلسلے میں کلیدی کردار ادا کر سکتی ہے۔
دوسری جانب جرمن چانسلر میرکل نے شام کی تعمیر نو پر گفت گو کرنے کی بجائے کہا ہے کہ ان کی نگاہ میں اولین ترجیح شام میں کسی نئے انسانی المیے سے بچنے کی کوشش ہے۔
عوامیت پسند یورپی رہنما کیا روس کے ساتھ ہیں؟
سن 2014 میں یوکرائنی بحران کے باعث یورپی یونین امریکا کی طرف راغب ہوئی اور روس پر پابندیاں عائد کر دی گئیں۔ یوں کئی اہم یورپی رہنما ماسکو حکومت سے دور ہو گئے تاہم عوامیت پسند یورپی سیاست دان روس کی طرف مائل ہوتے نظر آئے۔
تصویر: DW/S. Elkin
سٹراخا روس پر عائد پابندیاں ختم کرنے کے حامی
آسٹریا کے نائب چانسلر ہائنز کرسٹیان سٹراخا کئی مرتبہ یورپی یونین پر زور دے چکے ہیں کہ روس پر عائد پابندیاں ختم کی جائیں۔ عوامیت پسند پارٹی FPÖ کے رہنما سٹراخا مشرقی یورپ میں نیٹو کے آپریشنز میں وسعت کے بھی خلاف ہیں۔ 2005ء میں انہوں نے یہاں تک کہہ دیا کہ’ حالیہ عشروں میں روس نے جارحیت نہیں دکھائی‘۔ ممکنہ روسی عسکری کارروائی کے پیش نظر نیٹو نے روس کے ساتھ متصل یورپی سرحدوں پر اپنی موجودگی بڑھائی ہے۔
تصویر: Reuters/H. Bader
’روس اور سفید فام دنیا‘، ژاں ماری لے پین
فرانس کے انتہائی دائیں بازو کے سیاسدتان ژاں ماری لے پین کو 2015ء میں اس وقت شدید تنقید کا سامنا کرنا پڑا، جب انہوں نے کہا کہ فرانس کو روس کے ساتھ مل کر ’سفید فام دنیا‘ کو بچانا چاہیے۔ قبل ازیں انہوں نے یہ دعویٰ بھی کیا تھا کہ نازی جرمن دور کے گیس چیمبرز ’تاریخ کی ایک تفصیل‘ ہیں۔ ان اور ایسے ہی دیگر بیانات کی وجہ سے ان کی بیٹی مارین لے پین نے انہیں اپنی سیاسی پارٹی نیشنل فرنٹ سے بے دخل کر دیا تھا۔
تصویر: Reuters/G. Fuentes
’روس کے اثر میں نہیں‘، مارین لے پین کا اصرار
فرانسیسی قوم پرست سیاسی جماعت نیشنل فرنٹ کی رہنما مارین لے پین کے مطابق یورپی یونین کی طرف سے روس پر عائد کردہ پابندیاں ’بالکل بیوقوفانہ‘ ہیں۔ ان کا دعویٰ ہے کہ ’کریمیا ہمیشہ سے ہی روس کا حصہ تھا‘۔ نیشنل فرنٹ اعتراف کرتی ہے کہ اس نے روسی بینکوں سے قرضے لیے تاہم لے پین کے بقول روس کا ان پر یا ان کی پارٹی پر اثرورسوخ نہیں ہے۔ سن 2017ء میں انہوں نے کریملن میں روسی صدر پوٹن سے ملاقات بھی کی تھی۔
تصویر: Getty Images/AFP/M. Klimentyev
متبادل برائے جرمنی کے روس کے ساتھ مبینہ تعلقات
مہاجرت مخالف جرمن سیاسی پارٹی اے ایف ڈی روسی پس منظر کے حامل ووٹرز میں قدرے مقبول ہے۔ اس پارٹی کی سابق رہنما فراؤکے پیٹری نے سن 2017ء میں روسی صدر کی سیاسی پارٹی کے قانون سازوں سے ماسکو میں ملاقات کی تھی۔ اے ایف ڈی روس پرعائد پابندیوں کو ’مضحکہ خیز‘ قرار دیتی ہے۔ تاہم اس پارٹی کے رہنما ایلیس وائیڈل اور الیگزینڈر گاؤلینڈ کے بقول اے ایف ڈی پوٹن یا ان کی ’مطلق العنان حکومت‘ کی حمایت نہیں کرتی۔
تصویر: picture-alliance/dpa/U. Deck
وکٹور اوربان کے پوٹن کے ساتھ ’خصوصی تعلقات‘
ہنگری کے وزیر اعظم وکٹور اوربان کئی مرتبہ بوڈا پیسٹ میں روسی صدر پوٹن کی میزبانی کر چکے ہیں۔ دونوں رہنما اپنے طرز حکمرانی کے طریقہ کار میں کئی مماثلتیں رکھتے ہیں۔ اوربان کا کہنا کہ ہے یورپی سیاستدان خود کو اچھا دکھانے کی کی خاطر پوٹن کو ’برا‘ ثابت کرتے ہیں۔ تاہم سیرگئی اسکریپل پر کیمیائی حملے کے بعد روسی اور یورپی سفارتی بحران کے نتیجے میں ہنگری نے روسی سفارتکاروں کو بیدخل کرنے کا فیصلہ کیا تھا۔
تصویر: Reuters/Laszlo Balogh
گیئرت ولڈرز کا دورہ روس اور تنقید
اسلام مخالف ڈچ سیاست دان گیئرت ولڈرز نے سن 2014ء میں پرواز MH-17 کے مار گرائے جانے پر روس کو کڑی تنقید کا نشانہ بنایا اور 2018ء میں ماسکو پر پابندیاں عائد کرنے کی حمایت کی۔ تاہم روس کے ایک حالیہ دورے کے بعد ان کے موقف میں واضح تبدیلی دیکھی جا رہی ہے۔ انہوں نے اب کہا ہے کہ وہ نیٹو اور امریکا کے حامی ہیں لیکن مہاجرت کے بحران اور مسلم انتہا پسندی کے خلاف روس ایک اہم حلیف ثابت ہو سکتا ہے۔
تصویر: picture-alliance/AP Photo/P. Dejong
اٹلی کے نئے نائب وزیراعظم ماتیو سالوینی
اٹلی میں حال ہی میں قائم ہونے والی حکومت میں عوامیت پسند سیاسی جماعت ’لیگ‘ اور فائیو اسٹار موومنٹ شامل ہیں۔ دونوں سیاسی پارٹیاں روس پر پابندیوں کے خلاف ہیں۔ ان کا یہ بھی کہنا ہے کہ مشرقی یورپ میں نیٹو کو ’جارحانہ‘ اقدامات نہیں کرنا چاہییں۔ لیگ کے اعلیٰ رہنما ماتیو سالوینی ملک کے نئے نائب وزیر اعظم اور وزیر داخلہ بنے ہیں۔ انہوں نے واضح کیا ہے کہ وہ ’امن کے لیے کام کرنا چاہتے ہیں، جنگ کے لیے نہیں‘۔
تصویر: Getty Images/AFP/A. Solaro
7 تصاویر1 | 7
واضح رہے کہ روس گزشتہ کئی برسوں سے عملی طور پر شامی تنازعے کا حصہ ہے، جہاں اس کی فوجیں صدر بشارالاسد کی حکومت کی معاونت کر رہی ہیں۔ روسی عسکری مداخلت کے بعد شام کی حکومتی فورسز باغیوں اور جہادیوں کے زیرقبضہ زیادہ تر علاقے واپس اپنے قبضے میں لے چکی ہیں۔