مہاجرین کی ڈوبتی کشتی ساحل تک لانے والی شامی لڑکی گرفتار
31 اگست 2018
سن دو ہزار پندرہ میں سمندر میں ڈوبتی مہاجرین کی ایک کشتی کو کھینچ کر یونان کے ساحل تک لانے والی دو شامی بہنوں میں سے ایک سارہ مردینی کو مبینہ انسانی اسمگلنگ کے الزام میں گرفتار کر لیا گیا ہے۔
اشتہار
یونان کی پولیس نے آج بروز منگل بتایا ہے کہ انہوں نے ایک امدادی تنظیم کے دو اراکین کو یونانی جزیرے لیسبوس پر گرفتار کر لیا ہے جبکہ تیس دیگر مشتبہ افراد کے بارے میں تفتیش کی جارہی ہے۔ ان افراد پر منی لانڈرنگ، مہاجرین کو یونان اسمگل کرنے اور جاسوسی کرنے کا شبہ ہے۔
تئیس سالہ شامی مہاجر لڑکی سارہ مردینی کو ایتھنز میں انتہائی سیکیورٹی کی جیل میں رکھا گیا ہے۔ مردینی کے وکیل حارث پیسٹیکوس نے خبر رساں ادارے روئٹرز کو بتایا ہے کہ سارہ مردینی نے خود پر عائد تمام الزامات کو قبول کرنے سے انکار کر دیا ہے۔
پیسٹیکوس کے مطابق،’’ وہ خالصتاﹰ رضاکارانہ کام کر رہی تھی۔ اُس کے خلاف ایک بھی ثبوت نہیں مل سکا ہے۔‘‘
گرفتار ہونے والا دوسرا شخص چوبیس سالہ رضا کار جرمن شہری سین بندر ہے جس نے اپنی زندگی کا زیادہ تر حصہ آئر لینڈ میں گزارا ہے۔ بندر کے مقدمے کی پیروی بھی پیسٹیکوس کر رہے ہیں اور انہوں نے بھی تمام الزامات سے انکار کیا ہے۔
حکام کا کہنا ہے کہ مشتبہ مجرمانہ گروپ نے انسانی اسمگلنگ کے نیٹ ورک کی براہ راست معاونت کی۔ ان افراد پر ایک جرائم پیشہ تنظیم قائم کرنے اور اس میں شمولیت اختیار کرنے، جعل سازی اور امیگریشن کوڈ کی خلاف ورزی کے الزامات عائد کیے گئے ہیں۔
پیسٹیکوس کا کہنا ہے کہ مردینی جو جرمنی میں مقیم تھی اور اپنا وقت یونان اور جرمنی میں گزارتی تھی، چند مبینہ جرائم کے ارتکاب کے وقت یونان میں موجود نہیں تھی۔ فی الحال مقدمے کی سماعت کے لیے کوئی تاریخ مختص نہیں کی گئی ہے۔ جرم ثابت ہونے پر یونانی قانون کے تحت مردینی کو اٹھارہ ماہ تک کی سزا ہو سکتی ہے۔
سارہ مردینی اور اُن کی بہن یسری مردینی سن 2015 میں بحیرہ ایجیئن عبور کر کے یورپ پہنچی تھیں۔
یہ دونوں بہنیں اس سے قبل شام میں تیراکی کے مقابلوں میں شریک ہوا کرتی تھیں۔ یسری مردینی نے سن 2016 کے ریو اولمپکس میں بھی حصہ لیا تھا۔ ان دونوں کو شام کی سب سے بہترین تیراک تصور کیا جاتا تھا۔
خبر رساں اداروں کے مطابق ان دونوں بہنوں نے پہلے لبنان اور پھر ترکی کا سفر اختیار کیا اور پھر انسانوں کے اسمگلروں کو پیسے دے کر ایک خستہ حال کشتی کے ذریعے یونان تک کے سفر پر نکلیں۔ اس کشتی پر موجود 20 افراد میں سے صرف تین تیرنا جانتے تھے۔ یہ کشتی ہوا کے تھپیٹروں اور سمندری موجوں کا مقابلہ نہ کر سکی اور تمام تر کوشش کے باوجود ڈوبنے لگی۔ ایسے میں مردینی سسٹرز اور ایک اور تیراک نے سمندر میں اتر کر اس کشتی کو سہارا دیا اور یہ ساڑھے تین گھنٹے تک تیر کر کشتی کو لیے یونانی جزیرے لیسبوس پر پہنچے اور اس طرح یہ سمندر تیر کر عبور کر لیا گیا۔
ترکی اور یونان کے درمیان خطرناک سمندری راستہ عبور کرتے ہوئے سینکڑوں تارکین وطن ڈوب کر ہلاک ہو چکے ہیں۔
ص ح / ع ت / روئٹرز
کن ممالک کے کتنے مہاجر بحیرہ روم کے ذریعے یورپ آئے؟
اس سال اکتیس اکتوبر تک ڈیڑھ لاکھ سے زائد انسان کشتیوں میں سوار ہو کر بحیرہ روم کے راستوں کے ذریعے یورپ پہنچے، اور 3 ہزار افراد ہلاک یا لاپتہ بھی ہوئے۔ ان سمندری راستوں پر سفر کرنے والے پناہ گزینوں کا تعلق کن ممالک سے ہے؟
تصویر: Reuters/A. Konstantinidis
نائجیریا
یو این ایچ سی آر کے اعداد و شمار کے مطابق اس برس اکتوبر کے آخر تک بحیرہ روم کے ذریعے اٹلی، یونان اور اسپین پہنچنے والے ڈیڑھ لاکھ تارکین وطن میں سے بارہ فیصد (یعنی قریب سترہ ہزار) پناہ گزینوں کا تعلق افریقی ملک نائجیریا سے تھا۔
تصویر: picture-alliance/AP Photo/S. Diab
شام
خانہ جنگی کے شکار ملک شام سے تعلق رکھنے والے مہاجرین کی تعداد پچھلے دو برسوں کے مقابلے میں اس سال کافی کم رہی۔ اقوام متحدہ کے ادارہ برائے مہاجرین کے مطابق ساڑھے چودہ ہزار شامی باشندوں نے یورپ پہنچنے کے لیے سمندری راستے اختیار کیے۔
تصویر: picture-alliance/NurPhoto/A. Masiello
جمہوریہ گنی
اس برس اب تک وسطی اور مغربی بحیرہ روم کے سمندری راستوں کے ذریعے یورپ کا رخ کرنے والے گیارہ ہزار چھ سو پناہ گزینوں کا تعلق مغربی افریقی ملک جمہوریہ گنی سے تھا۔
تصویر: STR/AFP/Getty Images
آئیوری کوسٹ
براعظم افریقہ ہی کے ایک اور ملک آئیوری کوسٹ کے گیارہ ہزار سے زائد شہریوں نے بھی اس برس بحیرہ روم کے سمندری راستوں کے ذریعے پناہ کی تلاش میں یورپ کا رخ کیا۔
تصویر: picture-alliance/NurPhoto/T. Markou
بنگلہ دیش
جنوبی ایشیائی ملک بنگلہ دیش کے قریب نو ہزار شہری اس سال کے پہلے دس ماہ کے دوران خستہ حال کشتیوں کی مدد سے بحیرہ روم عبور کر کے یورپ پہنچے۔ مہاجرت پر نگاہ رکھنے والے ادارے بنگلہ دیشی شہریوں میں پائے جانے والے اس تازہ رجحان کو غیر متوقع قرار دے رہے ہیں۔
تصویر: Getty Images/M. Bicanski
مراکش
شمالی افریقی مسلم اکثریتی ملک مراکش کے ساحلوں سے ہزارہا انسانوں نے کشتیوں کی مدد سے یورپ کا رخ کیا، جن میں اس ملک کے اپنے پونے نو ہزار باشندے بھی شامل تھے۔
تصویر: Getty Images/AFP/A. Messinis
عراق
مشرق وسطیٰ کے جنگ زدہ ملک عراق کے باشندے اس برس بھی پناہ کی تلاش میں یورپ کا رخ کرتے دکھائی دیے۔ اقوام متحدہ کے اعداد و شمار کے مطابق رواں برس کے پہلے نو ماہ کے دوران چھ ہزار سے زائد عراقی شہریوں نے سمندری راستوں کے ذریعے یورپ کا رخ کیا۔
تصویر: picture-alliance/dpa/E. Menguarslan
اریٹریا اور سینیگال
ان دونوں افریقی ممالک کے ہزاروں شہری گزشتہ برس بڑی تعداد میں سمندر عبور کر کے مختلف یورپی ممالک پہنچے تھے۔ اس برس ان کی تعداد میں کچھ کمی دیکھی گئی تاہم اریٹریا اور سینیگال سے بالترتیب ستاون سو اور چھپن سو انسانوں نے اس برس یہ خطرناک راستے اختیار کیے۔
تصویر: picture-alliance/AP Photo/S. Diab
پاکستان
بحیرہ روم کے پر خطر سمندری راستوں کے ذریعے اٹلی، یونان اور اسپین پہنچنے والے پاکستانی شہریوں کی تعداد اس برس کے پہلے نو ماہ کے دوران بتیس سو کے قریب رہی۔ گزشتہ دو برسوں کے دوران ایک لاکھ سے زائد پاکستانیوں نے مختلف یورپی ممالک میں پناہ کی درخواستیں دی تھیں۔
تصویر: picture-alliance/AP Photo/T. Stavrakis
افغانستان
رواں برس کے دوران افغان شہریوں میں سمندری راستوں کے ذریعے یورپ پہنچنے کے رجحان میں نمایاں کمی دیکھی گئی۔ یو این ایچ سی آر کے مطابق اس برس اب تک 2770 افغان شہریوں نے یہ پر خطر بحری راستے اختیار کیے۔