سینیئر سفارتکاروں کے ایک گروپ نے ترکی اور یورپی یونین کے مابین طے پانے والی مہاجرین سے متعلق اُس ڈیل کو سخت تنقید کا نشانہ بنایا ہے، جس کے تحت ترکی مالی مدد کے عوض مہاجرین کو یورپ جانے سے روک رہا ہے۔
اشتہار
دی ایلڈرز (بڑوں) نامی اس گروپ نے کہا ہے کہ مہاجرین کو یورپ تک پہنچنے سے روکنے کے لیے طے کی گئی اس ڈیل سے دیگر ممالک کے ہاتھوں ایک ’بُری مثال‘ آ جائے گی۔
نوبل انعام یافتہ نیلسن منڈیلا نے ’دی ایلڈرز‘ کی بنیاد رکھی تھی، جس میں اس وقت دنیا بھر سے تعلق رکھنے والے سینیئر سفارتکار بھی شامل ہو چکے ہیں۔
دی ایلڈرز کے مطابق برسلز اور انقرہ کے مابین طے پانے والی یہ ڈیل ’اخلاقی طور پر مشکوک‘ ہے جبکہ امکان ہے کہ یہ بین الاقوامی قوانین کے بھی خلاف ہو۔ اس گروپ کی ایک تازہ رپورٹ میں کہا گیا ہے، ’’اس طرح ایک پیچیدہ مثال قائم جا رہی ہے‘‘۔
اس رپورٹ کے مطابق یورپی یونین نے افریقہ اور مشرق وسطیٰ کے سولہ ممالک کو بھی ایسی ہی پیشکش کر دی ہے تاکہ وہ بھی مالی مدد کے بدلے مہاجرین کو یورپ سفر کرنے سے روک دیں۔
رپورٹ کے مطابق ان میں سوڈان اور اریٹیریا جیسے ممالک بھی شامل ہیں، جہاں انسانی حقوق کی صورتحال پر سوالیہ نشان لگے ہوئے ہیں۔
اس گروہ کے رکن اور اقوام متحدہ کے سابق سیکرٹری جنرل کوفی عنان نے خبردار کیا ہے کہ یورپی یونین اور ترکی کے مابین یہ ڈیل مہاجرین کے حقوق پر سمجھوتے کا باعث بن رہی ہے۔
مارچ میں طے پانے والی اس ڈیل کے باعث ترکی سے بحیرہ ایجبیئن کے راستے یونان پہنچنے والے مہاجرین کی تعداد میں واضح کمی ہوئی ہے۔
اگرچہ اس ڈیل کو حتمی شکل دینے میں برلن حکومت نے اہم کردار ادا کیا تھا لیکن ’دی ایلڈرز‘ نے مہاجرین کے بحران میں جرمنی کے کردار کو سراہتے ہوئے کہا ہے کہ دیگر یورپی ممالک کو بھی مہاجرین کی منصفانہ تقسیم کے کوٹے کو تسلیم کرنا چاہیے۔
یورپ میں اچھے مستقبل کا خواب، جو ادھورا رہ گیا
یورپی یونین اور ترکی کے مابین طے پانے والے معاہدے کے مطابق یونان پہنچنے والے غیر قانونی تارکین وطن کی ترکی واپسی کا عمل پیر چار اپریل سے شروع ہو جائے گا۔
تصویر: DW/G. Harvey
ترکی واپسی کی تیاری
یورپی یونین اور ترکی کے مابین طے پانے والے معاہدے کے مطابق یونان پہنچنے والے غیر قانونی تارکین وطن کی ترکی واپسی کا عمل پیر چار اپریل سے شروع ہو جائے گا۔ فی الحال واضح نہیں ہے کہ پیر کے روز کتنے پناہ گزین ملک بدر کیے جائیں گے۔
تصویر: Getty Images/AFP/A. Isakovic
سڑکوں پر گزرتے شب و روز
ہزاروں تارکین وطن اپنی جانیں خطرے میں ڈال کر یونان تک تو پہنچ گئے لیکن پہلے سے معاشی زبوں حالی کے شکار اس ملک میں انہیں رہائش فراہم کرنے کے لیے خاطر خواہ انتظامات نہیں ہیں۔ آج ایتھنز حکام نے پیریئس کے ساحلی علاقے پر موجود تارکین وطن کو دیگر یونانی علاقوں میں منتقل کرنا شروع کر دیا ہے۔
تصویر: Reuters/A.Konstantinidis
لیسبوس سے انخلاء
ترکی سے غیر قانونی طور پر یونان پہنچنے والے زیادہ تر تارکین وطن لیسبوس نامی یونانی جزیرے پر پہنچتے ہیں۔ معاہدہ طے پانے کے بعد تارکین وطن کو لیسبوس کے کیمپوں سے نکال کر دیگر علاقوں کی جانب لے جایا جا رہا ہے جس کے بعد انہیں واپس ترکی بھیجنے کے اقدامات کیے جائیں گے۔
تصویر: Reuters/M. Karagiannis
یاس و امید کے درمیان
ہزاروں تارکین وطن یونان اور مقدونیہ کی سرحد پر واقع ایڈومینی کیمپ میں اب بھی اس امید سے بیٹھے ہیں کہ کسی وقت سرحد کھول دی جائے گی اور وہ جرمنی اور دیگر مغربی یورپی ممالک کی جانب اپنا سفر جاری رکھ سکیں گے۔ ان ہزاروں تارکین وطن کے ہمراہ بچے اور عورتیں بھی موجود ہیں۔
تصویر: DW/D. Tosidis
خاردار تاروں کے سائے میں
مقدونیہ اور یونان کے مابین سرحد مکمل طور پر بند ہے۔ تارکین وطن متبادل راستوں کے ذریعے مقدونیہ پہنچنے کی ایک سے زائد منظم کوششیں کر چکے ہیں لیکن ہر مرتبہ انہیں گرفتار کر کے واپس بھیج دیا جاتا ہے۔ پناہ گزینوں نے مقدونیہ کی سکیورٹی فورسز کی جانب سے تشدد اور ناروا سلوک کی شکایات بھی کیں ہیں۔
تصویر: picture-alliance/dpa
یورپ میں بھی پولیس سے جھڑپیں
یونانی حکام تارکین وطن سے بارہا درخواست کر چکے ہیں کہ وہ ایڈومینی سے دوسرے کیمپوں میں منتقل ہو جائیں۔ کیمپ خالی کروانی کی کوششوں کے دوران یونانی پولیس اور تارکین وطن نے احتجاج اور مظاہرے کیے۔ اس دوران پولیس اور تارکین وطن میں جھڑپیں بھی ہوئیں۔
تصویر: Getty Images/AFP/A. Isakovic
معاہدے کے باوجود ترکی سے یونان آمد میں اضافہ
اگرچہ یہ بات واضح ہے کہ غیر قانونی طور پر یونان پہنچنے والے تمام تارکین وطن کو معاہدے کی رو سے واپس ترکی بھیج دیا جائے گا۔ اس کے باوجود پناہ گزین بحیرہ ایجیئن کا خطرناک سمندری سفر طے کر کے مسلسل ترکی سے یونان پہنچ رہے ہیں۔ گزشتہ چند دنوں کے دوران تارکین وطن کی آمد میں مزید اضافہ دیکھا گیا ہے۔
تصویر: Getty Images/A. Koerner
لائف جیکٹوں کا ’پہاڑ‘
سمندری سفر کے دوران تارکین وطن کے زیر استعمال لائف جیکٹیں یونانی جزیروں پر اب بھی موجود ہیں۔ انسانی حقوق کے لیے کام کرنے والے اداروں کا کہنا ہے کہ ترکی پناہ گزینوں کے لیے محفوظ ملک نہیں ہے اس لیے انہیں واپس ترکی نہیں بھیجا جانا چاہیے۔ یونین کا کہنا ہے کہ ان اقدامات کے ذریعے تارکین وطن کو خطرناک سمندری راستے اختیار کرنے سے روکا جانے میں مدد حاصل ہو گی۔
تصویر: DW/G. Harvey
8 تصاویر1 | 8
کوفی عنان نے جرمن چانسلر انگیلا میرکل کی مہاجر پالیسی کی ستائش کرتے ہوئے مزید کہا، ’’یہ یورپ کے لیے ایک مثال ہے۔ یورپ کے دیگر ممالک کو بھی ایسا ہی کرنا چاہیے۔‘‘ تاہم بہت سے یورپی، بالخصوص مشرقی یورپی ممالک مہاجرین کی منصفانہ تقسیم کے کوٹہ سسٹم کے خلاف ہیں۔
الجزائر سے تعلق رکھنے والے سینیئر سفارتکار لخدر براہیمی کا کہنا ہے، ’’بہت سے یورپی ممالک ہمیں جو لیکچر دیتے ہیں، دراصل وہ ان کے برخلاف عمل کر رہے ہیں۔‘‘