جرمن چانسلر انگیلا میرکل نے زور دیا ہے کہ ترکی اور یورپی یونین کو مہاجرین سے متعلق طے پانے والی ڈیل کا احترام کرنا چاہیے۔ انہوں نے کہا کہ فریقین کو اس معاہدے کے تحت اپنے اپنے وعدوں پر عمل کرنا چاہیے۔
اشتہار
خبر رساں ادارے روئٹرز نے جرمن چانسلر انگیلا میرکل کے حوالے سے بتایا ہے کہ براستہ ترکی یورپ آنے والے مہاجرین کی نقل و حرکت کو روکنے کی خاطر طے پانے والی اس ڈیل پر عملدرآمد جاری رہنا چاہیے۔ جمعہ پچیس نومبر کی شب میرکل نے کہا، ’’میرے خیال میں ترکی کے ساتھ مہاجرین کی ڈیل ہمارے مشترکہ مفاد میں ہے۔‘‘ انہوں نے مزید کہا کہ یہ کوشش بھی ہے کہ ایسے معاہدے دیگر ممالک کے ساتھ بھی کیے جا سکیں۔
جرمن شہر نوئے میونسٹر میں اپنی سیاسی جماعت کرسچن ڈیموکریٹک یونین کے ایک علاقائی اجلاس سے خطاب کرتے ہوئے انگیلا میرکل کا کہنا تھا کہ مہاجرین کی ڈیل کا احترام کرتے ہوئے ترکی اور یورپی یونین دونوں کو ہی اپنے اپنے وعدوں کو پورا کرنے کی کوشش کرنا چاہیے۔
اسی برس مارچ میں طے پانے والی اس ڈیل کے تحت ترک حکومت مہاجرین کو یورپ جانے سے روک رہی ہے جبکہ یورپی یونین نے مہاجرین کی ترکی واپسی کی اس ڈیل کے بدلے ترکی کو چھ بلین یورو کی امداد فراہم کرنے کی یقین دہانی تو کرائی ہی ہے لیکن ساتھ ہی دیگر مراعات کی بھی بات کی گئی تھی۔ ان میں 75 ملین کی آبادی والے ملک ترکی کے باشندوں کو یورپی ممالک میں بغیر ویزے کے آزادانہ نقل و حرکت کی سہولت دینے کی شق بھی شامل ہے۔
یونان میں غیر قانونی پاکستانی تارکین وطن کا المیہ
یونانی جزیرے لیسبوس پر موجود پاکستانی تارکین وطن کسی صورت واپس ترکی نہیں جانا چاہتے۔ ان کا کہنا ہے کہ ترکی محفوظ ملک نہیں ہے اور انہیں بھی شامی مہاجرین کی طرح یورپ میں پناہ دی جائے۔
تصویر: DW/R. Shirmohammadi
’ماں کا زیور بیچ کر آیا ہوں‘
پاکستانی صوبہ پنجاب کے ضلع گجرات سے تعلق رکھنے والے ایک نوجوان تارک وطن کے مطابق وہ اپنی والدہ کا زیور بیچ کر اور اپنی جان خطرے میں ڈال کر یونان تک پہنچا ہے اور کسی صورت واپس نہیں جائے گا۔
تصویر: DW/R. Shirmohammadi
یونان بھی پناہ نہیں دے رہا
یورپی یونین اور ترکی کے مابین طے پانے والے معاہدے کے مطابق جو تارکین وطن یونان میں سیاسی پناہ کی درخواستیں نہیں دے رہے، انہیں واپس ترکی بھیجا جا رہا ہے۔ پاکستانی تارکین وطن کی اکثریت نے یونان میں پناہ کی درخواست اس لیے بھی نہیں دیں کہ انہیں خدشہ ہے کہ وہ مسترد کر دی جائیں گی۔
تصویر: DW/R. Shirmohammadi
’یورپی یونین ترکی کو پیسے نہ دے‘
لیسبوس میں موجود یورپ میں پناہ کے خواہش مند ان پاکستانیوں کا دعویٰ ہے کہ ترکی یورپ سے پیسے لے کر مہاجرین کو واپس ترکی آنے کی اجازت دے رہا ہے۔ انہیں نے الزام عائد کیا کہ ترکی اپنے ہاں پناہ گزینوں کو کوئی سہولیات نہیں دیتا اور وہاں انہیں پہلے بھی کھلے آسمان تلے سونا پڑتا تھا۔
تصویر: DW/R. Shirmohammadi
صرف شامی مہاجرین ہی پناہ کے مستحق؟
یورپ میں زیادہ تر صرف خانہ جنگی سے بچ کر آنے والے شامی مہاجرین ہی کو پناہ دی جا رہی ہے۔ پاکستان اور افغانستان سے تعلق رکھنے والے تارکین وطن کا کہنا ہے کہ وہ بھی اپنی جانوں کے تحفظ کے لیے یورپ میں پناہ حاصل کرنا چاہتے ہیں۔
تصویر: DW/R. Shirmohammadi
خیمے عارضی، سفر مسلسل
لیسبوس کے جزیرے پر سمندر کے کنارے عارضی خیموں میں شب و روز گزارنے والے ان پاکستانی تارکین وطن کا سفر ابھی ختم نہیں ہوا۔ یورپ اور ترکی کے مابین معاہدے کے بعد انہیں بھی واپس ترکی جانا پڑے گا لیکن انہیں پھر بھی امید ہے کہ وہ مغربی یورپ کی جانب اپنا سفر جاری رکھ سکیں گے۔
تصویر: DW/R. Shirmohammadi
بحیرہ ایجیئن کا خطرناک سفر بےسود
خستہ حال کشتیوں کے ذریعے بحیرہ ایجیئن عبور کر کے ترکی سے بحفاظت یونان پہنچ جانے والے یہ تارکین وطن دراصل خوش قسمت ہیں۔ یورپ میں مہاجرین کے موجودہ بحران کے دوران اب تک ہزاروں انسان سمندر میں ڈوب چکے ہیں۔
تصویر: DW/R. Shirmohammadi
کھانے کے لیے قطار
لیسبوس نامی اس یونانی جزیرے پر موجود ان تارکین وطن کو کافی کھانا بھی دستیاب نہیں ہوتا۔ کھانے کے حصول کے لیے انہیں طویل قطاروں میں کھڑے ہو کر اپنی باری کا انتظار کرنا پڑتا ہے۔
تصویر: DW/R. Shirmohammadi
’خواب ایسا تو نہیں تھا‘
اچھے مستقبل کی خواہش دل میں لیے اور خطرناک راستے عبور کر کے یونان پہنچنے والے ان پاکستانی تارکین وطن کو اپنے شب و روز ایسی خستہ حالی میں گزارنا پڑ رہے ہیں کہ وہ ان حالات کو اپنے مستقبل کے خوابوں اور ان کی ممکنہ تعبیر کے بالکل برعکس قرار دیتے ہیں۔
تصویر: DW/R. Shirmohammadi
’ہمیں بھی پناہ دو!‘
پاکستان، افغانستان اور دیگر ممالک سے تعلق رکھنے والے ان تارکین وطن کو یورپ میں پناہ ملنے کے امکانات نہایت کم ہیں۔ پناہ کے متلاشی ان غیر ملکیوں کا احتجاج کرتے ہوئے کہنا تھا کہ یورپی یونین انہیں بھی شامی مہاجرین کی طرح انسانی ہمدردی کی بنیاد پر پناہ دے۔
تصویر: DW/R. Shirmohammadi
’مر جائیں گے، واپس نہیں جائیں گے‘
ترکی سے یونان پہنچنے والے اور اب وہاں سے ملک بدری کے تقریباﹰ یقینی خطرے کا سامنا کرنے والے ان تارکین وطن کا کہنا ہے کہ وہ ترکی واپسی کے بجائے موت کو ترجیح دیں گے۔ اس موقف کے ساتھ اب وہ احتجاجی مظاہرے بھی کرنے لگے ہیں۔
تصویر: DW/R. Shirmohammadi
جب پریشانی بےحال کردے
ان تارکین وطن کو ان کے احتجاج کے باوجود ابھی تک یہی ’ناپسندیدہ امکان‘ دکھائی دے رہا ہے کہ انہیں زبردستی واپس ترکی بھیج دیا جائے گا۔ انسانی حقوق کی کئی تنظیموں کی رائے میں ترکی خود بھی کوئی ’محفوظ ملک‘ نہیں ہے۔
تصویر: DW/R. Shirmohammadi
11 تصاویر1 | 11
میرکل کا یہ بیان ایک ایسے وقت پر سامنے آیا ہے، جب ترکی اور یورپی یونین میں کشیدگی میں مزید اضافہ ہوا ہے۔ یورپی پارلیمان نے ایک حالیہ قرارداد میں مطالبہ کیا تھا کہ ترکی میں جاری حکومتی کریک ڈاؤن کے باعث پیدا ہونے والے حالات میں انقرہ کے ساتھ ترکی کی یورپی یونین میں ممکنہ شمولیت سے متعلق جاری مذاکراتی عمل منجمد کر دیا جانا چاہیے۔ ترکی میں جولائی کی ناکام فوجی بغاوت کے بعد ترک صدرایردوآن ’ملک دشمن‘ عناصر کے خلاف بڑے پیمانے پر کریک ڈاؤن جاری رکھے ہوئے ہیں، جس دوران میڈیا اور اپوزیشن کو بھی نشانہ بنایا جا رہا ہے۔
یورپی یونین متعدد مرتبہ مطالبہ کر چکی ہے کہ ترک حکومت اپنے اس کریک ڈاؤن میں شفافیت لائے اور بالخصوص میڈیا اور صحافیوں کے خلاف جاری کارروائی کو قانونی دائرے میں رکھے۔ ترک صدر کا البتہ کہنا ہے کہ ملک میں ایسے عناصر کے خلاف کارروائی جاری رہے گی، جو پندرہ جولائی کی ناکام بغاوت کا حصہ تھے یا جو ’باغی عناصر‘ کے ساتھ ہمدردی رکھتے ہیں۔
ترک صدر نے یورپی پارلیمان کی طرف منظور کی جانے والی قرارداد پر شدید ردعمل ظاہر کرتے ہوئے کہا تھا کہ اگر یورپی یونین نے انقرہ کو ’ڈرانے دھمکانے‘ کا سلسلہ جاری رکھا تو وہ اپنے ملک میں موجود شامی مہاجرین کو یورپ جانے کی اجازت دے دیں گے۔ واضح رہے کہ ترکی میں موجود تقریباﹰ ڈھائی ملین مہاجرین میں سے بہت سے یورپ جانے کے لیے بے چین ہیں لیکن ترکی نے مہاجرین کی ڈیل کے تحت ان کے راستے بند کر رکھے ہیں۔
موجودہ صورتحال میں جرمن چانسلر میرکل نے کہا ہے کہ مہاجرین کی ڈیل کے حوالے سے اطراف کو اپنی اپنی ذمہ داریوں کو نبھاتے رہنا چاہیے۔ ایک سوال کے جواب میں میرکل نے کہا کہ اگر ترکی کے ساتھ یہ ڈیل ناکامی سے دوچار ہو گئی، تو ان کے پاس اس حوالے سے کوئی متبادل منصوبہ نہیں ہے۔
میرکل نے زور دیا کہ وہ بھرپور کوشش کریں گی کہ اس ڈیل پر عملدرآمد جاری رہے بلکہ یورپ کو مہاجرین کے حوالے سے درپیش بحران کے حل کے لیے دیگر ممالک سے بھی ایسے معاہدوں کو حتمی شکل دی جائے۔