حیدر نے جب اسمگلر کے حکم پر رات کی تاریکی میں گہرے سمندر میں چھلانگ لگا ئی تو اسے لگا کہ اس کے سفر اور زندگی کا اختتام ہونے والا ہے لیکن اچانک اوپر پرواز کرتے ہیلی کاپٹر کی سرچ لائٹ اس پر پڑی، اسے بچا لیا گیا۔
اشتہار
حیدر اب جرمن شہر آؤگسبرگ میں قائم ’گرینڈ ہوٹل‘ میں رہ رہا ہے۔ حیدر کے سفر کی کہانی کو آؤگسبرگ یونیورسٹی میں زیر تعلیم ڈیزائن کے ایک طالب علم وولف گانگ سپیئر نے ایک ’کامک بُک‘ یا باتصویر کتاب کے ذریعے بیان کیا ہے۔
چودہ صفحات پر مشتمل یہ کامک بُک ’گرینڈ ہوٹل سے کہانیاں‘ نامی ایک کتابی سلسلے کا حصہ ہے۔ زندگی کے رنگوں کی طرح رنگین کامکس کا یہ سلسلہ آؤگسبرگ یونیورسٹی کے ڈیزائن ڈیپارٹمنٹ میں زیر تعلیم طلبا نے تیار کیا ہے، جن میں آٹھ تارکین وطن کی ہجرت کی کہانیوں کو تصویروں کے ذریعے بیان کیا گیا ہے۔
یونیورسٹی سے وابستہ ڈیزائن کے پروفیسر مائیک لوُس کا کہنا ہے کہ اس کتابی سلسلے کی بنیاد تین سال قبل رکھی گئی تھی اور گزشتہ برس انہوں نے ایک ورکشاپ کے دوران اپنے طلبا کو پناہ گزینوں کی رہائش گاہ کو موضوع بنانے کے لیے کہا۔
پروفیسر لوُس نے ڈی ڈبلیو کو دیے گئے اپنے ایک خصوصی انٹرویو میں کہا، ’’مجھے معلوم نہیں تھا کہ اس اسائنمنٹ پر طلبا کا ردِعمل کیا ہو گا لیکن تمام طلبا نے کھلے ذہن کے ساتھ اسے قبول کیا اور بالآخر چودہ طلبا نے کامکس کے ذریعے تارکین وطن کی کہانیاں بیان کیں۔ ان میں سے ہر ایک منفرد کتاب تھی۔‘‘
گرینڈ ہوٹل کبھی بوڑھے اور ریٹائرڈ افراد کے لیے ایک اولڈ ہاؤس کے طور پر زیر استعمال تھا تاہم 2013ء میں یہاں مہاجرین، فنکاروں اور ہوٹل کے مہمانوں کو ایک ہی چھت تلے رکھنے کا منصوبہ شروع کیا گيا۔ اسی انفرادیت نے گرینڈ ہوٹل کو ایک ماڈل پراجیکٹ بنا دیا جہاں ایک چھت تلے مختلف نوع کی کہانیاں موجود ہیں۔
ایسی ہی کہانیوں میں سے ایک داستان فلسطین سے تعلق رکھنے والے ايک پناہ گزین کی بھی ہے جسے مارٹا نیگیلے نامی طالب علم نے قلم بند کیا اور جس میں اس فلسطینی مہاجر کی اپنے وطن سے وابستہ یادوں کو دکھایا گیا ہے۔ ہوٹل میں مقیم کچھ لوگ ٹرین کے ذریعے سفر کر کے وہاں تک پہنچے ہیں تو کچھ خستہ حال کشتی کے ذریعے بحیرہ روم عبور کر کے۔
حیدر کے سفر پر مبنی کامک بُک بنانے والے پچیس سالہ طالب علم وولف گانگ شپیئر کا کہنا تھا، ’’کتاب کے لیے تحقیق کرتے ہوئے میں نے حیدر کے ساتھ گفتگو کرتے ہوئے بہت کچھ سیکھا اور جانا۔ ہر کوئی مہاجرین کے بارے میں رائے تو رکھتا ہے لیکن ان سے بات کوئی بھی نہیں کرتا۔ انسان کسی چیز سے خوف زدہ تب ہی ہوتا ہے جب وہ اس کے بارے میں کچھ نہیں جانتا۔‘‘
پاکستانی تارک وطن، اکبر علی کی کہانی تصویروں کی زبانی
اکبر علی بھی ان ہزاروں پاکستانی تارکین وطن میں سے ایک ہے جو مہاجرین کے موجودہ بحران کے دوران جرمنی اور دیگر یورپی ممالک پہنچے۔ اس پرخطر سفر کے دوران علی نے چند مناظر اپنے موبائل فون میں محفوظ کر لیے۔
تصویر: DW/S. Haider
ایران کا ویزہ لیکن منزل ترکی
علی نے پاکستان سے مقدس مقامات کی زیارت کے لیے ایران کا ویزہ لیا۔ ایران سے انسانوں کے اسمگلروں نے اسے سنگلاخ پہاڑوں کے ایک طویل پیدل راستے کے ذریعے ترکی پہچا دیا۔ تین مہینے ترکی کے مختلف شہروں میں گزارنے کے بعد علی نے یونان کے سفر کا ارادہ کیا اور اسی غرض سے وہ ترکی کے ساحلی شہر بودرم پہنچ گیا۔
تصویر: Akbar Ali
میدانوں کا باسی اور سمندر کا سفر
بحیرہ ایجیئن کا خطرناک سمندری سفر سینکڑوں تارکین وطن کو نگل چکا ہے۔ یہ بات علی کو بھی معلوم تھی۔ پنجاب کے میدانی علاقے میں زندگی گزارنے والے علی نے کبھی سمندری لہروں کا سامنا نہیں کیا تھا۔ علی نے اپنے دل سے سمندر کا خوف ختم کرنے کے لیے پہلے سیاحوں کے ساتھ سمندر کی سیر کی۔ پھر درجنوں تارکین وطن کے ہمراہ ایک چھوٹی کشتی کے ذریعے یونانی جزیرے لیسبوس کے سفر پر روانہ ہو گیا۔
تصویر: Akbar Ali
دیکھتا جاتا ہوں میں اور بھولتا جاتا ہوں میں
سمندر کی خونخوار موجوں سے بچ کر جب علی یونان پہنچا تو اسے ایک اور سمندر کا سامنا تھا۔ موسم گرما میں یونان سے مغربی یورپ کی جانب رواں مہاجرین کا سمندر۔ علی کو یہ سفر بسوں اور ٹرینوں کے علاوہ پیدل بھی طے کرنا تھا۔ یونان سے مقدونیا اور پھر وہاں سے سربیا تک پہنچتے پہنچتے علی کے اعصاب شل ہو چکے تھے۔ لیکن منزل ابھی بھی بہت دور تھی۔
تصویر: Akbar Ali
کھنچی ہے جیل کی صورت ہر ایک سمت فصیل
ہزاروں مہاجرین کی روزانہ آمد کے باعث یورپ میں ایک بحرانی کیفیت پیدا ہو چکی تھی۔ علی جب سربیا سے ہنگری کے سفر پر نکلا تو ہنگری خاردار تاریں لگا کر اپنی سرحد بند کر چکا تھا۔ وہ کئی دنوں تک سرحد کے ساتھ ساتھ چلتے ہنگری میں داخل ہونے کا راستہ تلاشتے رہے لیکن ہزاروں دیگر تارکین وطن کی طرح علی کو بھی سفر جاری رکھنا ناممکن لگ رہا تھا۔
تصویر: Akbar Ali
متبادل راستہ: ہنگری براستہ کروشیا
کروشیا اور ہنگری کے مابین سرحد ابھی بند نہیں ہوئی تھی۔ علی دیگر مہاجرین کے ہمراہ بس کے ذریعے سربیا سے کروشیا کے سفر پر روانہ ہو گیا، جہاں سے وہ لوگ ہنگری میں داخل ہونے میں کامیاب ہو گئے۔ ہنگری سے بذریعہ ٹرین علی آسٹریا پہنچا، جہاں کچھ دن رکنے کے بعد وہ اپنی آخری منزل جرمنی کی جانب روانہ ہو گیا۔
تصویر: Akbar Ali
جرمنی آمد اور بطور پناہ گزین رجسٹریشن
اکبر علی جب جرمنی کی حدود میں داخل ہوا تو اسے پناہ گزینوں کی رجسٹریشن کے مرکز لے جایا گیا۔ علی نے جرمنی میں پناہ کی باقاعدہ درخواست دی، جس کے بعد اسے جرمنی کے شہر بون میں قائم ایک شیلٹر ہاؤس پہنچا دیا گیا۔ علی کو اب اپنی درخواست پر فیصلہ آنے تک یہاں رہنا ہے۔ اس دوران جرمن حکومت اسے رہائش کے علاوہ ماہانہ خرچہ بھی دیتی ہے۔ لیکن علی کا کہنا ہے کہ سارا دن فارغ بیٹھنا بہت مشکل کام ہے۔
تصویر: DW/S. Haider
تنہائی، فراغت اور بیوی بچوں کی یاد
علی جرمن زبان سے نابلد ہے۔ کیمپ میں کئی ممالک سے آئے ہوئے مہاجرین رہ رہے ہیں۔ لیکن علی ان کی زبان بھی نہیں جانتا۔ اسے اپنے بچوں اور بیوی سے بچھڑے ہوئے سات ماہ گزر چکے ہیں۔ اپنے خاندان کا واحد کفیل ہونے کے ناطے اسے ان کی فکر لاحق رہتی ہے۔ اس کا کہنا ہے، ’’غریب مزدور آدمی ہوں، جان بچا کر بھاگ تو آیا ہوں، اب پچھتاتا بھی ہوں، بیوی بچوں کے بغیر کیا زندگی ہے؟ لیکن انہی کی خاطر تو سب کچھ کر رہا ہوں۔‘‘