’مہاجرین کے اہل خانہ سے متعلق جرمن قوانین غیر آئینی ہیں‘
شمشیر حیدر epd.
19 جون 2017
یورپی یونین نے جرمنی اور بعض دیگر یورپی ممالک کی جانب سے مہاجرین کے اپنے اہل خانہ کو نہ بلا سکنے کے قوانین پر تنقید کرتے ہوئے کہا ہے کہ ایسے ضوابط ممکنہ طور پر انسانی حقوق کے منافی اور غیر آئینی ہیں۔
اشتہار
نیوز ایجنسی ای پی ڈی کی سٹراسبُرگ سے ملنے والی رپورٹوں کے مطابق جرمنی اور بعض دیگر ممالک میں مہاجرین کے اہل خانہ کو ان ممالک میں بلا سکنے کے نئے اور سخت تر قوانین کو یورپی یونین کے انسانی حقوق کے کمشنر نیلز موئژنیئکس نے شدید تنقید کا نشانہ بنایا ہے۔
جرمنی اور چند دیگر یورپی ممالک نے تسلیم شدہ مہاجرین کے لیے اپنے عزیز و اقارب کو قانونی طریقے سے میزبان ممالک میں بلانے کے قوانین میں کافی سختی کر دی ہے۔ پیر کے روز سٹراسبُرگ میں انہیں قوانین کے حوالے سے بات چیت کرتے ہوئے موئژنیئکس کا کہنا تھا کہ کئی یورپی ممالک نے اس حوالے سے جو سخت قوانین متعارف کرائے ہیں، وہ نہ صرف انسانی حقوق کے منافی ہیں بلکہ بادی النظر میں غیر قانونی بھی ہیں۔
یونین کے رکن ممالک میں مہاجرین کے اہل خانہ کے حوالے سے قوانین بھی مختلف ہیں لیکن اس کے علاوہ یہ بھی پیش نظر رکھا جاتا ہے کہ اپنے اہل خانہ کو بلانے کی خواہش رکھنے والے کسی تارک وطن کو خود کس حیثیت میں پناہ دی گئی ہے۔
پاکستانی تارکین وطن کے کرچی کرچی خواب
مہاجرین کے موجودہ بحران کے دوران ہزارہا پاکستانی بھی مغربی یورپ پہنچے ہیں۔ یونان سے ایک پاکستانی افتخار علی نے ہمیں کچھ تصاویر بھیجی ہیں، جو یورپ میں بہتر زندگی کے خواب اور اس کے برعکس حقیقت کے درمیان تضاد کی عکاس ہیں۔
تصویر: Iftikhar Ali
بہتر مستقبل کے خواب کی تعبیر، بیت الخلا کی صفائی
جو ہزاروں پاکستانی تارکین وطن اپنے گھروں سے نکلے، ان کی منزل جرمنی و مغربی یورپی ممالک، اور خواہش ایک بہتر زندگی کا حصول تھی۔ شاید کسی نے سوچا بھی نہ ہو گا کہ خطرناک پہاڑی اور سمندری راستوں پر زندگی داؤ پر لگانے کے بعد انہیں ایتھنز میں پناہ گزینوں کے ایک کیمپ میں بیت الخلا صاف کرنا پڑیں گے۔
تصویر: Iftikhar Ali
ایجنٹوں کے وعدے اور حقیقت
زیادہ تر پاکستانی صوبہ پنجاب سے آنے والے تارکین وطن کو اچھے مستقبل کے خواب انسانوں کی اسمگلنگ کرنے والے ایجنٹوں نے دکھائے تھے۔ جرمنی تک پہنچانے کے ابتدائی اخراجات پانچ لاکھ فی کس بتائے گئے تھے اور تقریباﹰ ہر کسی سے یہ پوری رقم پیشگی وصول کی گئی تھی۔ جب یہ پاکستانی شہری یونان پہنچے تو مزید سفر کے تمام راستے بند ہو چکے تھے۔ اسی وقت ایجنٹوں کے تمام وعدے جھوٹے اور محض سبز باغ ثابت ہوئے۔
تصویر: Iftikhar Ali
پاکستانیوں سے امتیازی سلوک کی شکایت
شام اور دیگر جنگ زدہ ممالک سے آنے والے تارکین وطن کو بلقان کی ریاستوں سے گزر کر جرمنی اور دیگر مغربی یورپی ممالک جانے کی اجازت ہے۔ یورپی حکومتوں کے خیال میں زیادہ تر پاکستانی شہری صرف اقتصادی وجوہات کی بنا پر ترک وطن کرتے ہیں۔ اسی لیے انہیں یورپ میں پناہ دیے جانے کے امکانات بہت کم ہوتے ہیں۔ لیکن اکثر پاکستانیوں کو شکایت ہے کہ یونان میں حکام ان سے نامناسب اور امتیازی سلوک روا رکھے ہوئے ہیں۔
تصویر: Iftikhar Ali
کیمپ میں رہنا ہے تو صفائی تم ہی کرو گے!
ایسے درجنوں پاکستانی تارکین وطن کا کہنا ہے کہ یونانی حکام نے مہاجر کیمپوں میں صفائی کا کام صرف انہی کو سونپ رکھا ہے۔ ان سے کہا گیا ہے کہ پاکستانی شہریوں کو بالعموم مہاجر کیمپوں میں رکھنے کی اجازت نہیں ہے تاہم انہیں وہاں عارضی قیام کی اجازت صرف اس شرط پر دی گئی ہے کہ وہاں صفائی کا کام صرف وہی کریں گے۔
تصویر: Iftikhar Ali
پردیس میں تنہائی، مایوسی اور بیماری
سینکڑوں پاکستانی تارکین وطن اپنے یونان سے آگے کے سفر کے بارے میں قطعی مایوس ہو چکے ہیں اور واپس اپنے وطن جانا چاہتے ہیں۔ ان میں سے متعدد مختلف ذہنی اور جسمانی بیماریوں میں بھی مبتلا ہو چکے ہیں۔ ایک یونانی نیوز ویب سائٹ کے مطابق گزشتہ ہفتے دو پاکستانی پناہ گزینوں نے خودکشی کی کوشش بھی کی تھی۔
تصویر: Iftikhar Ali
کم اور نامناسب خوراک کا نتیجہ
یونان میں پناہ کے متلاشی زیادہ تر پاکستانیوں کا کہنا ہے کہ مہاجر کیمپوں میں انہیں ملنے والی خوراک بہت کم ہوتی ہے اور اس کا معیار بھی ناقص ۔ ایسے کئی تارکین وطن نے بتایا کہ انہیں زندہ رہنے کے لیے روزانہ صرف ایک وقت کا کھانا ہی میسر ہوتا ہے۔ ان حالات میں اکثر افراد ذہنی پریشانیوں کے ساتھ ساتھ جسمانی طور پر لاغر اور بیماریوں کا شکار ہو چکے ہیں۔
تصویر: Iftikhar Ali
وطن واپسی کے لیے بھی طویل انتظار
بہت سے مایوس پاکستانی پناہ گزینوں کے لیے سب سے اذیت ناک مرحلہ یہ ہے کہ وہ اپنے پاس کوئی بھی سفری دستاویزات نہ ہونے کے باعث اب فوراﹰ وطن واپس بھی نہیں جا سکتے۔ ان کے بقول ایتھنز میں پاکستانی سفارت خانے کی جانب سے لازمی جانچ پڑتال کے بعد انہیں عبوری سفری دستاویزات جاری کیے جانے کا عمل انتہائی طویل اور صبر آزما ہے۔
تصویر: Iftikhar Ali
غریب الوطنی میں بچوں کی یاد
پاکستان کے ضلع گجرات سے تعلق رکھنے والا اکتالیس سالہ سجاد شاہ بھی اب واپس وطن لوٹنا چاہتا ہے۔ تین بچوں کے والد سجاد شاہ کے مطابق اسے اپنے اہل خانہ سے جدا ہوئے کئی مہینے ہو چکے ہیں اور آج اس کے مالی مسائل پہلے سے شدید تر ہیں۔ سجاد کے بقول مہاجر کیمپوں میں کھیلتے بچے دیکھ کر اسے اپنے بچے بہت یاد آتے ہیں اور اسی لیے اب وہ جلد از جلد واپس گھر جانا چاہتا ہے۔
تصویر: Iftikhar Ali
اجتماعی رہائش گاہ محض ایک خیمہ
دیگر ممالک سے تعلق رکھنے والے مہاجرین اور پناہ گزینوں کو یونانی حکام نے پختہ عمارات میں رہائش فراہم کی ہے جب کہ پاکستانیوں کو زیادہ تر عارضی قیام گاہوں کے طور پر زیر استعمال اجتماعی خیموں میں رکھا گیا ہے۔ یہ صورت حال ان کے لیے اس وجہ سے بھی پریشان کن ہے کہ وہ یورپ کی سخت سردیوں کے عادی نہیں ہیں۔
تصویر: Iftikhar Ali
جب انتظار کے علاوہ کچھ نہ کیا جا سکے
یونان میں ان پاکستانیوں کا کہنا ہے کہ وہ پاکستانی سفارت خانے کو اپنے لیے سفری دستاویزات کے اجراء کی درخواستیں دے چکے ہیں اور کئی مہینے گزر جانے کے بعد بھی اب تک انتظار ہی کر رہے ہیں۔ ایسے ایک پاکستانی شہری کے مطابق چند افراد نے بین الاقوامی ادارہ برائے مہاجرت سے بھی اپنی وطن واپسی میں مدد کی درخواست کی لیکن جواب ملا کہ واپسی کے لیے درکار سفری دستاویزات صرف پاکستانی سفارتی مراکز ہی جاری کر سکتے ہیں
تصویر: Iftikhar Ali
پناہ نہیں، بس گھر جانے دو
یونان میں بہت سے پاکستانی تارکین وطن نے اسلام آباد حکومت سے درخواست کی ہے کہ ان کی جلد از جلد وطن واپسی کے لیے عملی اقدامات کیے جائیں۔ ان افراد کا دعویٰ ہے کہ ایتھنز میں پاکستانی سفارت خانہ ’بار بار کے وعدوں کے باوجود کوئی مناسب مدد نہیں کر رہا‘۔ احسان نامی ایک پاکستانی تارک وطن نے ڈی ڈبلیو کو بتایا، ’’نہ ہم واپس جا سکتے ہیں اور نہ آگے، پس پچھتاوا ہے اور یہاں ٹائلٹس کی صفائی کا کام۔‘‘
تصویر: Iftikhar Ali
11 تصاویر1 | 11
مثال کے طور پر جرمنی میں تسلیم شدہ مہاجر اور ثانوی حیثیت میں تحفظ کے حامل کسی مہاجر کے لیے اپنے اہل خانہ کر جرمنی بلا سکنے کے مختلف قوانین ہیں۔ مارچ سن 2016 میں جرمن پارلیمان نے مہاجرین کے حوالے سے جو نئے قوانین متعارف کرائے تھے، ان کے مطابق ثانوی تحفظ رکھنے والے غیر ملکی اپنے اہل خانہ کو دو سال تک جرمنی نہیں بلا سکتے۔
انسانی حقوق کے یورپی کمشنر نے اس حوالے سے خاص طور پر جرمن قوانین کو ہدف تنقید بناتے ہوئے کہا، ’’جرمنی میں ایسا رجحان خاص طور پر نمایاں ہے۔‘‘ یورپی یونین کے انسانی حقوق کے کمیشن کی رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ اہل خانہ کو بلانے کے حوالے سے تسلیم شدہ مہاجرین اور ثانوی حیثیت میں تحفظ کے حقدار قرار دیے جانے والے مہاجرین میں تفریق انسانی حقوق کے یورپی کنوینشن کے منافی ہے اور یوں اس کی قانونی حیثیت بھی متنازعہ ہے۔
یورپی یونین کے اس ادارے کی رپورٹ میں یہ بھی کہا گیا ہے کہ مندرجہ بالا دونوں طرح کے مہاجرین میں تفریق کا طریقہ کار بھی متنازعہ ہے۔ انسانی حقوق کا یورپی کنوینشن نہ صرف مہاجرین کو اپنے اہلِ خانہ کے ساتھ رہنے کا حق دیتا ہے بلکہ ان سے امتیازی سلوک روا رکھنے سے بھی منع کرتا ہے۔
اس رپورٹ کے مطابق جرمنی میں مہاجرین کے اہل خانہ سے متعلق نئے قوانین کے نفاذ کے بعد سے بین الاقوامی قوانین کے تحت مہاجر سمجھے جانے والے افراد کو بھی، جن میں شامی مہاجر بھی شامل ہیں، جرمنی میں ثانوی حیثیت میں تحفظ فراہم کیا جا رہا ہے۔
نیلز موئژنیئکس کا کہنا تھا کہ اہل خانہ سے متعلق ایسے سخت قوانین کی نہ صرف قانونی حیثیت متنازعہ ہے بلکہ اپنے عزیز و اقارب کو نہ بلا سکنے کے سبب مہاجرین بھی ذہنی دباؤ کا شکار اور بیمار رہتے ہیں۔ علاوہ ازیں شورش زدہ علاقوں میں رہنے والے ان مہاجرین کے اہل خانہ یورپ پہنچنے کے لیے غیر قانونی راستے اختیار کرنے پر مجبور ہو جاتے ہیں جس کے باعث کئی انسانی زندگیاں خطرے میں پڑ جاتی ہیں۔