1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

مہاجرین کے بحران میں افغان باشندے نظر انداز

عاطف بلوچ7 مارچ 2016

یورپی یونین اور ترکی کی کوشش ہے کہ بحیرہ ایجیئن کے خطرناک راستے سے یونان پہنچنے والے شامی مہاجرین کی بڑی تعداد کو روکا جائے لیکن اس پورے بحران میں افغان مہاجرین نظر انداز ہوتے دکھائی دے رہے ہیں۔

Griechenland Mazedonien Flüchtlinge an der Grenze bei Idomeni
افغان تارکین وطن اور مہاجرین کے یورپ میں پناہ حاصل کرنے کے امکانات قدرے کم ہیںتصویر: Getty Images/AFP/L. Gouliamaki

افغان تارکین وطن اور مہاجرین کے یورپ میں پناہ حاصل کرنے کے امکانات قدرے کم ہیں۔ اس بحران میں پہلی ترجیح شامی مہاجرین کو دی جا رہی ہے۔ یہ الگ بات ہے کہ ترکی میں افغان مہاجرین کی تعداد میں اضافہ ہوتا جا رہا ہے، جو بحیرہ ایجیئن کو عبور کر کے یونان پہنچنے کی کوششیں جاری رکھے ہوئے ہیں۔

ترکی میں موجود شامی مہاجرین کی تعداد 2.7 ملین کے قریب بنتی ہے۔ ان مہاجرین کو یورپ میں داخل ہونے سے روکنے کی خاطر یورپی یونین اور ترکی کسی سمجھوتے پر پہنچنے کی کوششوں میں ہیں۔

افغان مہاجرین کا سفر ابھی ختم نہیں ہوا

02:53

This browser does not support the video element.

اس تناظر میں ترکی میں شامی مہاجرین کے لیے خصوصی مہاجر سینٹرز قائم کیے جا رہے ہیں، جہاں شامیوں کو طبی امداد کے علاوہ دیگر سہولیات فراہم کی جا رہی ہیں۔ شامی بچوں کے لیے تعلیمی سہولیات بھی فراہم کی جا رہی ہیں۔

دوسری طرف ترکی میں موجود افغان مہاجرین ان سہولہات سے محروم ہیں۔ امدادی کارکنوں نے خبردار کیا ہے کہ نظر انداز کیے جانے کی وجہ سے ترک ساحلوں پر موجود افغان مہاجرین کی زندگیوں کو خطرات لاحق ہو سکتے ہیں۔

یورپی پارلیمان کی ترکی کے لیے مندوب کاٹی پرِی نے حال ہی میں روئٹرز سے گفتگو کرتے ہوئے کہا تھا کہ یورپی یونین کی توجہ صرف شامی مہاجرین پر مرکوز ہے اور یونین کسی دوسری طرف دیکھ ہی نہیں رہی۔‘‘ پرِی کے بقول اگر ترکی میں شامی مہاجرین کے مسئلے کا حل نکال بھی لیا جائے، تو بھی مہاجرین کا بحران ختم نہیں ہو گا کیونکہ وہاں کئی ملکوں کے ایسے باشندے موجود ہیں، جن کے حقوق کی پامالی ہو رہی ہے۔

متعدد افغان مہاجرین نے روئٹرز کو بتایا کہ انہیں گزشتہ کئی برسوں سے اقوام متحدہ کی ایجنسی برائے مہاجرین کے ساتھ ابتدائی انٹرویو سے ہی روکا جا رہا ہے۔ یہی انٹرویو بعد ازاں مہاجرین کی آبادکاری کی طرف پہلا قدم ثابت ہوتا ہے۔

صرف شامی باشندے ہی پناہ کے حقدار کیوں ہیں؟

’یورپ کی زندگی بہت سخت ہے‘

گزشتہ برس ترکی پہنچنے والے افغان باشندوں کی تعداد تقریباﹰ تریسٹھ ہزار رہی تھی۔ سن دو ہزار چودہ میں یہ تعداد صرف ساڑھے پندرہ ہزار سے کچھ زائد تھی۔ چار بچوں کی ماں حکیمہ رضائی کا تعلق بھی افغانستان سے ہے۔ ترکی میں موجود یہ افغان خاتون یونان جانا چاہتی ہے۔

امدادی کارکنوں نے خبردار کیا ہے کہ نظر انداز کیے جانے کی وجہ سے ترک ساحلوں پر موجود افغان مہاجرین کی زندگیوں کو خطرات لاحق ہو سکتے ہیںتصویر: DW/R. Shirmohammadi

حکیمہ کے چار بچے پہلے ہی اس کے برادر نسبتی کے ساتھ یونان پہنچ چکے ہیں۔ اس کا کہنا ہے کہ اسے اپنے بچوں کے پاس جانے نہیں دیا جا رہا۔ اپنے بچوں کی شناختی دستاویزات دکھاتے ہوئے حکیمہ نے روئٹرز کو بتایا، ’’میں ہر روز روتی ہوں۔‘‘

دوسری طرف یورپی کمیشن کے اعداد و شمار کے مطابق گزشتہ برس ترکی میں چونسٹھ ہزار افراد نے پناہ کی درخواستیں جمع کرائی تھیں، جن میں گیارہ ہزار کے قریب افغان شہری بھی تھے۔ تاہم ان میں سے صرف 459 کی درخواستوں پر عملدردآمد ہوا۔ یہ امر اہم ہے کہ ان میں سے بہت سے مہاجرین غیرقانونی طور پر ترکی سے یونان پہنچ بھی چکے ہیں۔

اس موضوع سے متعلق مزید سیکشن پر جائیں
ڈی ڈبلیو کی اہم ترین رپورٹ سیکشن پر جائیں

ڈی ڈبلیو کی اہم ترین رپورٹ

ڈی ڈبلیو کی مزید رپورٹیں سیکشن پر جائیں