1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

مہاجرین کے حالیہ بحران کا ذمہ دار مغرب ہے، ولادیمیر پوٹن

13 نومبر 2021

روس کے صدر نے کہا ہے کہ مہاجرین کے حالیہ بحران کی جڑ مغرب ہے اور اس کا ذمہ دار بیلاروس کو نہیں ٹھہرایا جا سکتا۔ دوسری جانب پولینڈ کی پولیس کو ہلاک ہونے والے ایک اور مہاجر کی نعش ملی ہے۔ اس طرح ہلاکتیں نو ہو گئی ہیں۔

Migration I Polen I EU I Belarus
تصویر: REUTERS

روس کے صدر ولادیمیر پوٹن نے اپنے ایک تازہ بیان میں کہا ہے کہ مہاجرین کے بحران کا ذمہ دار مغرب ہے اور اس کی ذمہ داری بیلاروس پر عائد کرنا درست نہیں۔ روسی صدر نے مہاجرین کے بحران کو شام، عراق اور افغانستان کی جنگوں سے منسلک کیا ہے۔

سلامتی کونسل میں یورپی ممالک اور روس کے مابین تلخ جملوں کا تبادلہ

ادھر یورپی یونین بیلاروس اور اس کے صدر الیکسانڈر لوکوشینکو پر نئی پابندیوں کا نفاذ کرنے کی تیاریوں میں ہے۔

مہاجرین پولستانی سرحد کے پار دیکھتے ہوئےتصویر: Yuri Shamshur/Tass/dpa/picture alliance/

روسی صدر کا خصوصی انٹرویو

صدر پوٹن نے ملکی ٹیلی وژن کو دیے گئے انٹرویو میں یہ سوال اٹھایا ہے کہ کیا بیلاروس مہاجرین کے مسائل کو شروع کرنے والا ملک ہے۔ انہوں واضح کیا کہ یہ صحیح نہیں ہے بلکہ مغرب اس بحران کا ذمہ دار ہے اور اس میں یورپی ممالک بھی حصہ دار ہیں۔

پوٹن کا اشارہ عراق، شام اور افغانستان کے مسلح تنازعات اور جنگوں کی جانب تھا، جس میں امریکا اور اس کے اتحادی یورپی ممالک شامل تھے۔

پولینڈ اور بیلاروس کی سرحد پر مہاجرین کا بحران

شام کے مسلح تنازعے میں روس صدر بشار الاسد حکومت کے حلیف اور مددگار ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ بیلاروس میں جمع مہاجرین میں انہی جنگ زدہ علاقوں کے افراد ہیں اور یہ یاد رکھنے کی بات ہے کہ اس بحران سے بیلاروس کا لینا دینا نہیں ہے۔

روس کے صدر ولادیمیر پوٹنتصویر: Mikhail Metzel/Sputnik/REUTERS

روسی صدر کے مطابق یہ ایک حقیقت ہے کہ ان مہاجرین نے یورپی یونین پہنچنے کا راستہ ضرور بیلاروس سے منتخب کیا ہے کیونکہ ان کا تعلق جن ممالک سے ہے، انہیں اس ملک میں ویزا فری داخل ہونے کی اجازت ہے۔

روسی صدر نے پولینڈ کی سیکورٹی فورسز پر الزام عائد کیا کہ وہ ان مہاجرین کی مارپیٹ کے علاوہ ان کے سروں سے بلند گولیاں چلا کر انہیں خوفزدہ کرنے کا سلسلہ جاری رکھے ہوئے ہیں۔

انہوں نے مزید کہا کہ پولستانی سرحدی محافظین بارڈر پر تیز روشنیاں جلانے کے علاوہ بار بار سائرن نشر کرتے ہیں، جن سے سرحد پر جمع افراد میں بے چینی و پریشانی پیدا ہو چکی ہے۔

عراق سے بیلاروس تک کا روٹ، مہاجرین یورپ کیسے پہنچ رہے ہیں؟

پوٹن نے سوال کیا کہ مغربی اقوام جن حقوق کی پالیسیوں کا عَلم اٹھائے ہوئے ہے، اس کا شائبہ بھی پولینڈ کی سرحد پر نظر نہیں آتا۔

بیلا روس کی سرحد پر کھڑے مہاجرین امدادی تنظیموں کی جانب سے خوراک وصول کرنے کے منتظرتصویر: Leonid Shcheglov/AP/picture alliance

پوٹن نے اپنے انٹرویو میں واضح کیا کہ وہ ہر ایک کو بتانا چاہتے ہیں کہ مہاجرین کے بحران سے ان کا کوئی تعلق نہیں جبکہ مغربی اقوام ان پر بغیر کسی ٹھوس وجوہ کے ذمہ داری عائد کیے ہوئے ہیں۔ انہوں اس کی بھی تردید کی کہ روسی ہوائی کمپنیاں مہاجرین کو منسک پہنچانے میں شامل ہیں۔

اپنے بیان میں روسی صدر نے اس توقع کا اظہار کیا کہ جلد ہی صدر لوکاشینکو اور جرمن چانسلر انگیلا میرکل اس بحران کے حوالے سے بات چیت کریں گے۔ یہ امر اہم ہے کہ روس صدر لوکاشینکو اور ان کے ملک بیلاروس کا حامی و حلیف ہے۔

طیارہ تنازعہ: یورپی یونین نے بیلاروس پر پابندیاں عائد کردیں

صدر ولادیمیر پوٹن کا انٹرویو روسی ٹیلی وژن اتوار چودہ نومبر کو نشر کرے گا۔

نوجوان شامی کی نعش

پولینڈ کی پولیس نے بیلاروس کی سرحد کے درختوں میں سے ایک نوجوان شامی کی لاش اپنے قبضے میں لی ہے۔ یورپی یونین کی مشرقی سرحد پر ہونے والی یہ ایک اور موت ہے۔

خاردار سرحد کے پار کھڑا چوکس پولستانی بارڈر گارڈتصویر: Viktor Tolochko/Sputnik/picture alliance/dpa

پولستانی پولیس کے مطابق جس شامی کی لاش ملی ہے، اس کی عمر بیس برس کے قریب ہے اور یہ ایک سرحدی گاؤں وولکا ٹیرچووؤسکا (Wolka Terechowska) کے درختوں کے جھنڈ سے ملی ہے۔ اس نعش کو پوسٹ مارٹم کے لیے روانہ کر دیا گیا ہے تا کہ موت کی وجوہات کا تعین کیا جا سکے۔

بیلاروس کے صدر کو اپنے قتل کا خدشہ، حکم نامے پر دستخط کر دیے

اب تک بیلا روس سے یورپی یونین پہنچنے کی کوشش میں ہلاک ہونے والے مہاجرین کی تعداد اب نو ہو گئی ہے۔ منسک حکومت کئی ماہ سے ہزاروں مہاجرین کو پولینڈ، لیتھوینیا اور لیٹویا کی سرحدوں کی جانب روانہ کرنے کا سلسلہ جاری رکھے ہوئے ہے۔ ان مہاجرین میں بیشتر کا تعلق مشرقِ وسطیٰ کے افراتفری کے شکار ممالک شام و عراق سے ہے۔

ع ح/ش ح (روئٹرز،اے پی)

ڈی ڈبلیو کی اہم ترین رپورٹ سیکشن پر جائیں

ڈی ڈبلیو کی اہم ترین رپورٹ

ڈی ڈبلیو کی مزید رپورٹیں سیکشن پر جائیں