یورپ میں مہاجرین کے حقوق کے لیے سرگرم ساٹھ سرکردہ کارکنان اٹلی اور فرانس کی سرحد سے لندن تک مارچ کرتے ہوئے یہ مطالبہ کر رہے ہیں کہ یورپ مزید تارکین وطن کو اپنے ہاں جگہ دے۔
تصویر: Reuters/E. Gaillard
اشتہار
انسانی حقوق کے یہ سرگرم کارکنان اطالوی قصبے وینتیمیگیلیا سے اپنے مارچ کا آغاز کر رہے ہیں۔ یہ افراد چودہ سو کلومیٹر کا فاصلہ طے کرتے ہوئے اور ساٹھ مختلف علاقوں سے گزرتے ہوئے مختلف مقامات پر مقامی افراد سے گفتگو کریں گے اور انہیں مہاجرین اور تارکین وطن کو ان کے آبائی ممالک میں لاحق خطرات اور یورپ میں پناہ دے کر ان کی زندگیوں کو محفوظ بنانے کی ضرورت کے موضوع پر شعور و آگہی دیں گے۔
’میکسیکو باڑ یا ٹرمپ کی دیوار‘
امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ میکسیکو سے ملنے والی امریکی سرحد پر ایک دیوار تعمیر کرنا چاہتے ہیں۔ یہ دنیا کا سب سے بڑا تعمیراتی منصوبہ ہو گا۔ کئی سالوں سے اس سرحد کو محفوظ بنانے کے لیے باڑ لگانے کا سلسلہ جاری ہے۔
تصویر: Reuters/J. L. Gonzalez
ٹرمپ کا تجربہ
اپنی انتخابی مہم میں ڈونلڈ ٹرمپ نے کہا تھا، ’’اپنی جنوبی سرحد پر میں ایک دیوار تعمیر کرنا چاہتا ہوں اور کوئی بھی مجھ سے بہتر دیواریں نہیں بنا سکتا۔ میں اس دیوار کی تعمیر کے اخراجات میکسیکو سے حاصل کروں گا۔‘‘ بہرحال ابھی تک انہوں نے اونچی عمارتین اور ہوٹل ہی بنائے ہیں۔ ٹرمپ کے تارکین وطن سے متعلق دس نکاتی منصوبے میں اس دیوار کی تعمیر کو اوّلین ترجیح حاصل ہے۔
تصویر: picture-alliance/AP Photo/C. Torres
کام جاری ہے
امریکا اور میکسیکو کے مابین سرحد تقریباً تین ہزار دو سو کلومیٹر طویل ہے۔ ان میں سے گیارہ سو کلومیٹر پر پہلے ہی باڑ لگائی جا چکی ہے۔ یہ سرحد چار امریکی اور میکسیکو کی چھ ریاستوں کے درمیان سے گزرتی ہے۔ دشوار گزار راستوں کی وجہ سے ریاست نیو میکسیکو میں اس باڑ کی تعمیر کا کام ادھورا ہی رہ گیا۔
تصویر: Reuters/M. Blake
حالات کے ہاتھوں مجبور
غیر قانونی طریقوں سے میکسیکو سے امریکا میں داخل ہونے والے افراد کی تعداد ساڑھے تین لاکھ سالانہ بنتی ہے۔ ان میں سے زیادہ تر کا تعلق میکسیکو سے ہی ہوتا ہے۔ میکسیکو کے شہریوں کو بہت ہی کم امریکی ویزا جاری کیا جاتا ہے۔ یہ لوگ ایک بہتر زندگی کا خواب لے کر امریکا آتے ہیں۔
تصویر: picture-alliance/dpa/A. Zepeda
باڑ کی وجہ سے تقسیم
یہ خاندان باڑ کی وجہ سے تقسیم ہیں تاہم ایک دوسرے مصافحہ کیا جا سکتا ہے۔ ڈونلڈ ٹرمپ کے صدر بننے کے بعد سے ان لوگوں کے جلد ہی ایک دوسرے سے ملنے کے امکانات بھی تقریباً ختم ہو گئے ہیں۔
تصویر: picture-alliance/ZumaPress/J. West
تعصب
ٹرمپ نے اپنی انتخابی مہم کے دوران کہا تھا،’’میکسیکو اپنے اُن شہریوں کو ادھر بھیجتا ہے، جو کسی کام کے نہیں اور نا ہی ان میں کوئی قابلیت ہے۔ یہاں مسائل کا شکار میکسیکن ہی آتے ہیں، جو منشیات فروش اور جرائم پیشہ ہونے کے علاوہ خواتین کے ساتھ جنسی زیادتی کرتے ہیں۔‘‘ ٹرمپ ایسے تمام جرائم پیشہ افراد کو ملک بدر کرنا چاہتے ہیں۔
تصویر: picture-alliance/AP Photo/G. Bull
ریگستان، سرحد اور واپسی
میکسیکو کے بہت سے شہریوں کے لیے امریکا کا سفر اس باڑ پر ہی ختم ہو جاتا ہے۔ کچھ کو جیل کی ہوا کھانی پڑتی ہے جبکہ کچھ اس سرحد کو پار کرنے کی قیمت اپنی جان سے چکاتے ہیں۔ ذرائع ابلاغ سرحدی محافظین کی جانب سے میکسیکو میں فائرنگ کے الزامات عائد کرتے ہیں۔ ایک ایسے واقعے میں میکسیکو کے چھ ایسے شہری ہلاک ہو گئے تھے، جو سرحد پار نہیں کرنا چاہتے تھے۔
تصویر: Reuters/D.A. Garcia
اپنا محافظ خود
یہ ایک امریکی کاشتکار جم چلٹن ہے، جو اس بندوق کے ساتھ اپنی زمین کی نگرانی کر رہا ہے۔ اس کا دو لاکھ مربع میٹر پر محیط یہ فارم میکسیکو کی سرحد کے پاس جنوب مشرقی ایریزونا میں واقع ہے۔ یہاں پر صرف یہ خار دار تار ہی لگی ہے۔ جم چلٹن خود ہی اپنا محافظ ہے اور اس دوران اسے کئی مرتبہ اپنی یہ شاٹ گن اٹھانی پڑی ہے۔
تصویر: Getty Images/AFP/F.J. Brown
عجب انداز میں اختتام
عام بول چال میں اس تقریباً ساڑھے بائیس کلومیٹر طویل باڑ کو ’تورتیا وال‘ کے نام سے ہی پکارا جاتا ہے۔ ’تورتیا‘ میکسیکو کی ایک مخصوص قسم کی ایک روٹی کو کہا جاتا ہے۔ یہ باڑ سان ڈیاگو (کیلی فورنیا) اور بحرالکاہل کے درمیان نصب کی گئی ہے۔
پیر کے روز اس آگہی مہم مارچ کا آغاز کرنے والوں میں عالمگریت کی مخالف معروف شخصیت اور یورپی پارلیمان کے فرانسیسی رکن خوزے بوو بھی شامل ہیں۔ اس مارچ کے آغاز پر لوگوں کے ایک ہجوم نے مارچ کے شرکاء کو خدا حافظ کہا۔
مارچ کا آغاز اٹلی سے سڑکوں، پیدل اور ریل کے ذریعے پہاڑی راستہ عبور کر کے فرانس داخل ہونے کی کوشش میں ہلاک ہونے والے 17 افراد کی یاد میں ایک منٹ کی خاموشی کے ساتھ کیا گیا۔ اس موقع پر گاڑیوں کے ذریعے کیے جانے والے اس مارچ کے آغاز پر کار پارکنگ میں بہت سے افراد موجود تھے۔
تارکین وطن سے متعلق فرانسیسی تنظیم اوبرگ ڈیس مائیگرنٹس سے وابستہ مایا کونفورتی نے کہا، ’’آج ہمارے ساتھ بہت سے لوگ ہیں اور مجھے امید ہے کہ اس مارچ کی وجہ سے ہمیں مزید توانائی حاصل ہو گی۔‘‘
ان کا مزید کہنا تھا، ’’ہم تمام فرانس اور یورپ سے مطالبہ کرتے ہیں کہ اس مارچ میں ہمارے ساتھ شامل ہو جائیں، تاکہ ہم پوری توانائی اور عزم سے آگے بڑھیں۔‘‘
ہنگری کی سرحد پر مہاجرین کی ابتر صورتحال
ہنگری میں مہاجرین سے متعلق ریفرنڈم سے قبل اس ریاست کی سرحد پر جمع سینکڑوں مہاجرین کے مصائب میں اضافہ ہوتا جا رہا ہے۔ تاہم یہ لوگ انتہائی مشکلات کے باوجود اپنے مہاجرت کے سفر میں شکست تتسلیم کرنے کو تیار نہیں ہیں۔
تصویر: Reuters/L. Balogh
کوئی چارہ گر نہیں
دو اکتوبر بروز اتوار ہنگری میں ایک ریفرنڈم کا انعقاد کیا جا رہا ہے۔ اس ریفرنڈم میں عوام سے پوچھا جائے گا کہ کیا وہ یورپی یونین کے کوٹہ سسٹم کے تحت تارکین وطن کو ہنگری کی پارلیمان کی اجازت کے بغیر ملک میں پناہ دینے کے حق میں ہیں؟ وزیر اعظم وکٹور اوربان کی حکمران فیدس پارٹی کا کہنا ہے کہ اس کے سوال کا منفی میں جواب ہی ہنگری کی آزادی اور سالمیت کے حق میں ہو گا۔
تصویر: DW/D. Cupolo
یورپ داخل ہونے کے لیے نیا دروازہ
اس گیٹ کے ذریعے مہاجرین ہنگری کے علاقے کیلیبیا میں داخل ہوتے ہیں۔ سربیا اور ہنگری کی حکومتوں کے مابین ایک ڈیل کے تحت یومیہ بیس مہاجرین کو ہنگری میں داخل ہونے کی اجازت دی جاتی ہے۔ ان مہاجرین کی سربیا میں رجسٹریشن ہوتی ہے جبکہ ہنگری میں داخل ہونے سے قبل ان کا تفصیلی انٹرویو بھی کیا جاتا ہے۔
تصویر: DW/D. Cupolo
انتظامی غلطیوں کا احتمال
سربیا سے ہنگری داخل ہونا آسان نہیں۔ اٹھارہ سالہ مصری مہاجر محمد جمال کو اطلاع ملی کہ اس کا اںٹرویو ہونے والا ہے۔ تاہم جب وہ ہنگری پہنچا تو معلوم ہوا کہ یہ انٹرویو اس کا نہیں بلکہ اسی کے ہم نام کسی اور مصری مہاجر کا تھا۔ ہنگری کے حکام کے پاس جمال کا ڈیٹا نہیں کہ آیا وہ سربیا میں داخل ہوا بھی تھا یا نہیں۔
تصویر: DW/D. Cupolo
انتظار کی تھکن
انٹرویو کے انتظار میں جمال نے ہنگری کی سرحد سے متصل ایک عارضی کیمپ میں رہائش اختیار کر لی ہے۔ اس کیمپ میں رہنے والے دیگر مہاجرین بھی انٹرویو کے منتظر ہیں۔ وہاں بنیادی سہولیات کا فقدان ہے۔ اس تصویر میں نظر آنے والے بچے ایزدی گھرانوں سے تعلق رکھتے ہیں، جو بے یارومدگار یورپ داخل ہونے کی کوشش میں ہیں۔
تصویر: DW/D. Cupolo
سرحدوں کی سخت نگرانی
جمال نے ڈی ڈبلیو کو بتایا کہ وہ ہنگری داخل ہونے کے لیے کوئی اور راستہ تلاش کر لے گا۔ اس نے کہا کہ اس مقصد کے لیے وہ انسانوں کے اسمگلروں سے بات چیت کر رہا ہے۔ اس کی ایک ایسی ہی کوشش ناکام ہو چکی ہے۔ ہنگری کی سرحد پر محافظ چوکنا ہیں جبکہ ہیلی کاپٹروں سے نگرانی بھی کی جا رہی ہے۔ جمال کے بقول اگر کوئی مہاجر سرحدی محافظوں سے تیز بھاگتا ہے تو اس کے پیچھے سدھائے ہوئے کتے چھوڑ دیے جاتے ہیں۔
تصویر: DW/D. Cupolo
’یہ جگہ پھر بھی بہتر ہے‘
اربیل میں کار مکینک ولید خالد اپنے بچوں کے ہمراہ ہنگری کی سرحد پر کئی مہینوں سے رہائش پذیر ہے۔ اس کے بچے یہاں کھیلتے رہتے ہیں۔ ولید کا کہنا ہے کہ یہاں کے حالات انتہائی برے ہیں لیکن پھر بھی یہ مقام کئی دیگر علاقوں سے بہتر ہے۔
تصویر: DW/D. Cupolo
واپسی کا راستہ نہیں
ہنگری میں کیلیبیا کے مہاجر کیمپ میں رہائش پذیر زیادہ تر مہاجرین کا تعلق مشرق وسطیٰ کے ممالک سے ہے۔ پاکستانی اور افغان مہاجرین ہورگوس نامی ایک دوسرے کیمپ میں سکونت پذیر ہیں۔ خالد کا کہنا ہے کہ وہ کیلیبیا میں رہنے کو ترجیح دیتا ہے کیونکہ دیگر کیمپوں میں اسے کئی مرتبہ لوٹا جا چکا ہے۔
تصویر: DW/D. Cupolo
ہنگری کی حکومت کا خوف
ہنگری کی حکومت کا کہنا ہے کہ بڑے پیمانے پر مہاجرین کی آمد سے ملکی ثقافت تباہ ہو جائے گی۔ یورپی یونین کی کوشش ہے کہ مہاجرین کو تمام یورپی ملکوں میں ایک کوٹہ سسٹم کے تحت تقسیم کر دیا جائے۔ تاہم اوربان کا کہنا ہے کہ مہاجرین کو کوٹہ سسٹم کے تحت یورپی ممالک میں پناہ دینے کا فیصلہ دراصل ان کے ملک کی قومی خودمختاری کے خلاف ہے۔
تصویر: DW/D. Cupolo
8 تصاویر1 | 8
کاروں کا یہ کاروان اٹلی سے شروع ہو گا اور فرانس کو عبور کرتا ہوا، چینل ٹنل کے ذریعے لندن پہنچے گا۔ یہ بات اہم ہے کہ اٹلی اور فرانس کی اس سرحد پر حالیہ کچھ عرصے میں فرانس نے سکیورٹی میں نمایاں اضافہ کیا ہے اور ان سرحدی علاقوں میں اب لوگوں کو پولیس بھی زیادہ دکھائی دینے لگی ہے، جب کہ شناختی دستاویزات کی جانچ بھی تواتر سے کی جا رہی ہے۔