انسانی حقوق کی عالمی تنظیم ایمنسٹی انٹرنیشنل نے منگل کے روز کہا ہے کہ یورپی حکومتیں لیبیا کے حکام کی مدد کر کے اس شورش زدہ ملک میں اسمگلروں کے ہاتھوں تشدد سمیت تارکین وطن کے حقوق کی پامالیوں کی مرتکب ہو رہی ہیں۔
تصویر: picture alliance/AP Photo/D. Etter
اشتہار
بحیرہء روم کے ذریعے یورپی یونین میں داخل ہونے والے تارکین وطن کی تعداد میں کمی کے لیے یورپی یونین لیبیا کو معاونت فراہم کر رہی ہے، جس میں کوسٹ گارڈز کی تربیت بھی شامل ہے۔ کئی ملین یورو مالیت کے اس پروجیکٹ کے تحت اقوام متحدہ کے امدادی اداروں کے ذریعے لیبیا میں تارکین وطن کے حراستی مراکز کی حالت زار کی بہتری کی کوشش بھی کی جا رہی ہے، تاہم وہاں ہزاروں مہاجرین اب بھی انسانوں کے اسمگلروں کے شکنجے میں پھنسے ہوئے ہیں۔ ان مہاجرین کو شدید جسمانی تشدد، جبری مشقت، غلامی اور جنسی استحصال کا سامنا ہے اور انسانی حقوق کی تنظیمیں الزام عائد کرتی ہیں کہ لیبیا کے بعض حکومتی عناصر ان اسمگلروں سے تعاون بھی کرتے ہیں۔
ایمنسٹی انٹرنیشنل کے مطابق قریب بیس ہزار افراد اب بھی لیبیا میں جبری مشقت، جنسی استحصال، ماورائے قانون قتل اور شدید جسمانی تشدد جیسے حالات کا سامنا کر رہے ہیں۔ ایسی ہی الزامات حالیہ کچھ عرصے میں متعدد دیگر بین الاقوامی امدادی اداروں کی جانب سے بھی سامنے آئے ہیں۔
مہاجرین کی کشتی ڈوبنے کے ڈرامائی مناظر
اقوام متحدہ کے ادارہ برائے مہاجرین نے خدشہ ظاہر کیا ہے کہ بحیر روم کو عبور کرنے کی کوشش میں حالیہ ہفتے کے دوران رونما ہونے والے تین حادثوں کے نتیجے میں کم از کم سات سو افراد ہلاک جبکہ دیگر سینکڑوں لاپتہ ہو چکے ہیں۔
تصویر: picture-alliance/dpa/Italian Navy/Handout
عمومی غلطی
ماہی گیری کے لیے استعمال ہونے والی اس کشتی میں سوار مہاجرین نے جب ایک امدادی کشتی کو دیکھا تو اس میں سوار افراد ایک طرف کو دوڑے تاکہ وہ امدادی کشتی میں سوار ہو جائیں۔ یوں یہ کشتی توازن برقرار نہ رکھ سکی اور ڈوب گئی۔
تصویر: Reuters/Marina Militare
اچانک حادثہ
عینی شاہدین کے مطابق اس کشتی کو ڈوبنے میں زیادہ وقت نہ لگا۔ تب یوں محسوس ہوتا تھا کہ اس کشتی میں سوار افراد پتھروں کی طرح پانی میں گر رہے ہوں۔ یہ کشتی لیبیا سے اٹلی کے لیے روانہ ہوئی تھی۔
تصویر: Reuters/Marina Militare
الٹی ہوئی کشتی
دیکھتے ہی دیکھتے یہ کشتی مکمل طور پر الٹ گئی۔ لوگوں نے تیر کر یا لائف جیکٹوں کی مدد سے اپنی جان بچانے کی کوشش شروع کردی۔ اطالوی بحریہ کے مطابق پانچ سو افراد کی جان بچا لی گئی۔
تصویر: Reuters/Marina Militare
امدادی آپریشن
دو اطالوی بحری جہاز فوری طور پر وہاں پہنچ گئے۔ امدادی ٹیموں میں ہیلی کاپٹر بھی شامل تھے۔ بچ جانے والے مہاجرین کو بعد ازاں سیسلی منتقل کر دیا گیا، جہاں رواں برس کے دوران چالیس ہزار مہاجرین پہنچ چکے ہیں۔
تصویر: Reuters/Marina Militare
ہلاک ہونے والوں میں چالیس بچے بھی
تازہ اطلاعات کے مطابق جہاں ان حادثات میں سات سو افراد کے ہلاک ہونے کا خدشہ ظاہر کیا جا رہا ہے، وہیں چالیس بچوں کے سمندر برد ہونے کا بھی قوی اندیشہ ہے۔
تصویر: Reuters/Marina Militare
حقیقی اعدادوشمار نامعلوم
جمعے کو ہونے والے حادثے میں ہلاک یا لاپتہ ہونے والوں کی تعداد کے بارے میں ابھی تک کوئی معلومات حاصل نہیں ہو سکی ہیں۔
تصویر: Reuters/EUNAVFOR MED
مہاجرین کو کون روکے؟
ایسے خدشات درست معلوم ہوتے نظر آ رہے ہیں کہ ترکی اور یورپی یونین کی ڈیل کے تحت بحیرہ ایجیئن سے براستہ ترکی یونان پہنچنے والے مہاجرین کے راستے مسدود کیے جانے کے بعد لیبیا سے اٹلی پہنچنے والے مہاجرین کی تعداد بڑھ جائے گی۔
تصویر: picture-alliance/dpa/Italian Navy/Marina Militare
عینی شاہدین کے بیانات
عینی شاہدین نے بتایا ہے کہ کس طرح انہوں نے اپنی آنکھوں سے مہاجرین کی کشتیوں کوڈوبتے دیکھا، جن میں سینکڑوں افراد سوار تھے۔ یہ تلخ یادیں ان کے ذہنوں پر سوار ہو چکی ہیں۔
تصویر: Getty Images/G.Bouys
سینکڑوں ہلاک
گزشتہ سات دنوں کے دوران بحیرہ روم میں مہاجرین کی کشتیون کو تین مخلتف حادثات پیش آئے۔ اقوام متحدہ کے ادارہ برائے مہاجرین کے مطابق ان حادثات کے نتیجے میں کم ازکم سات سو افراد ہلاک جبکہ سینکڑوں لاپتہ ہو گئے ہیں۔
تصویر: Reuters/H. Amara
بحران شدید ہوتا ہوا
موسم سرما کے ختم ہونے کے بعد شمالی افریقی ملک لیبیا سے یورپی ملک اٹلی پہنچنے والے افراد کی تعداد میں تیزی دیکھی جا رہی ہے۔ اطالوی ساحلی محافظوں نے گزشتہ پیر سے اب تک کم ازکم چودہ ہزار ایسے افراد کو بچایا ہے، جو لیبیا سے یورپ پہنچنے کی کوشش میں بحیرہ روم میں بھٹک رہے تھے۔
تصویر: picture-alliance/dpa/Italian Navy/Handout
10 تصاویر1 | 10
منگل کے روز ایمنسٹی انٹرنیشنل کے یورپ کے خطے کے سربراہ جان ڈاہلہوؤزن کی کی جانب سے جاری کردہ بیان میں کہا گیا ہے، ’’یورپی حکومتیں نہ صرف اس تشدد اور مسائل سے آگاہ ہیں بلکہ وہ لیبیا کے حکام کو تارکین وطن کو بحیرہء روم عبور کرنے سے روکنے کے لیے معاونت بھی فراہم کر رہی ہیں۔ اس لیے ان جرائم کی ذمہ داری یورپی حکومتوں پر بھی عائد ہوتی ہے۔‘‘
ایمنسٹی انٹرنیشنل کے اس بیان پر یورپی کمیشن کی جانب سے کوئی تبصرہ سامنے نہیں آیا ہے۔
بحیرہ روم میں مہاجرین کی کشتیاں ڈوبنے کے خوفناک مناظر
01:11
This browser does not support the video element.
لیبیا کے ذریعے حالیہ کچھ عرصے میں لاکھوں افراد بحیرہء روم عبور کر کے یورپی یونین پہنچنے ہیں، تاہم جولائی سے اس تعداد میں نمایاں کمی واقع ہوئی ہے۔ اس کی ایک بڑی وجہ یہ ہے کہ لیبیا میں کوسٹ گارڈز ان تارکین وطن کو بحیرہء روم کے اس سفر سے روک رہے ہیں جب کہ تارکین وطن کی کشتیوں کو بھی سمندر سے دوبارہ لیبیا پہنچا دیا جاتا ہے، جس کے بعد عام طور پر ایسے تارکین وطن یورپ انسانوں کے اسمگلروں کے شکنجے میں پھنس جاتے ہیں۔