مہاجرین کے خلاف زیادہ تر جرائم کا کھوج نہ لگایا جا سکا
1 اپریل 2016یہ رپورٹ ایک جرمن میگزین ’ڈیر اشپیگل‘ اور صحافیوں کی ایک تنظیم ’کوریکٹیو‘ کی مشترکہ کوششوں سے مرتب کی گئی ہے۔ اس رپورٹ کے مطابق 2014ء کے دوران مہاجرین کے خلاف جرائم کے جو واقعات سرکاری طور پر رپورٹ کیے گئے، ان کی مجموعی تعداد 199 رہی۔
ان میں مختلف طرح کے جرائم شامل تھے مثلاﹰ نسلی منافرت، اشتعال انگیزی، زد وکوب کرنا، جسمانی نقصان پہنچانا یا پراپرٹی وغیرہ کو نقصان پہنچانا۔ اس کے علاوہ ان جرائم میں مہاجرین کی رہائش گاہوں یا قریبی دیواروں پر نسل پرستانہ نعرے یا گرافٹیز پینٹ کرنا اور یہاں تک کہ مہاجرین کے گھروں کو منصوبہ بندی کے ساتھ آگ لگانا بھی شامل ہیں۔ ایک شخص کو تو قتل کی کوشش کا بھی قصور وار قرار دیا گیا اور اسے پانچ سال کی سزا بھی سنائی گئی۔
2014ء کے دوران مہاجرین کے خلاف ہونے والے حملوں کے سرکاری طور پر رپورٹ شدہ 199 واقعات میں سے 107 واقعات کے ذمہ داروں کا سرے سے تعین ہی نہ ہو سکا۔ 50 واقعات میں پولیس نے ذمہ داروں کا کھوج تو لگا لیا مگر ان میں سے بھی 28 کیسز پر تفتیش کا عمل ختم کر دیا گیا۔ ان 200 کے قریب واقعات میں سے محض 15 کیسز میں ذمہ داروں کو سزا ہوئی۔ اس رپورٹ کے مطابق ابھی تک سات مقدمات پر تفتیشی عمل جاری ہے۔
2015ء کے دوران جرمنی میں آنے والے مہاجرین کی تعداد ایک ملین تک رہی، اسی وجہ سے ان کے خلاف حملوں میں بھی اضافہ ہوا۔ اندازوں کے مطابق 2014ء کے مقابلے میں گزشتہ برس مہاجرین کے خلاف حملوں میں پانچ گنا سے بھی زیادہ اضافہ ہوا۔ میڈیا کی طرف سے مرتب کردہ اعداد و شمار کے مطابق گزشتہ برس کے دوران مہاجرین کے خلاف ہونے والے حملوں کی تعداد ڈیڑھ ہزار تک رہی۔