جرمن میڈیا نے سکیورٹی حکام کے حوالے سے بتایا ہے کہ القاعدہ سے تعلق رکھنے والے کم از کم ساٹھ جنگجو مہاجرین کے روپ میں جرمنی پہنچے۔ ملکی سکیورٹی اداروں کی ان مشتبہ سابق جنگجوؤں کی شناخت کے لیے تحقیقات جاری ہیں۔
اشتہار
جرمنی کے مؤقر ہفت روزہ جریدے ڈئر اشپیگل نے آج ہفتہ دو ستمبر کے روز اپنی ایک رپورٹ میں ملکی سکیورٹی ذرائع کے حوالے سے بتایا کہ شدت پسند تنظیم القاعدہ سے تعلق رکھنے والے کم از کم ساٹھ شامی جنگجو مہاجرین کے روپ میں جرمنی پہنچنے میں کامیاب رہے۔
گزشتہ برسوں کے دوران مختلف یورپی شہروں کو دہشت گردانہ واقعات کا سامنا رہا ہے۔ تقریباً تمام ہی واقعات میں مسلم انتہا پسند ہی ملوث پائے گئے ہیں۔
تصویر: Getty Images/D. Ramos
اگست سن 2017،بارسلونا
ہسپانوی شہر بارسلونا کے علاقےلاس رامباس میں کیے گئے حملے میں کم از کم تیرہ ہلاک ہوئے ہیں۔ اس واقعے میں دہشت گرد نے اپنی وین کو پیدل چلنے والوں پر چڑھا دیا تھا۔
تصویر: Imago/E-Press Photo.com
مارچ اور جون سن 2017، لندن
برطانیہ کے دارالحکومت میں دو جون کو تین افراد نے ایک کار لندن پل پر پیدل چلنے والوں پر چڑھا دی بعد میں کار چلانے والوں نے چاقو سے حملے بھی کیے۔ لندن پولیس نے تین حملہ آوروں کو ہلاک کر دیا تھا۔ اس حملے سے قبل ایسے ہی ایک حملے میں چار افراد کی ہلاکت ہوئی تھی۔ جون ہی میں ایک مسجد پر کیے گئے حملے میں ایک شخص کی موت واقع ہوئی تھی۔
تصویر: Getty Images/AFP/T. Akmen
مئی سن 2017، مانچسٹر
برطانوی شہر مانچسٹر میں امریکی گلوکارہ آریانے گرانڈے کے کنسرٹ کے دوران کیے گئے خود کش بمبار کے حملے میں کم از کم 22 انسانی جانیں ضائع ہوئی تھیں۔ ہلاک ہونے والوں میں بچے بھی شامل تھے۔ ایک سو سے زائد افراد زخمی ہوئے تھے۔
تصویر: Reuters/R. Boyce
اپریل سن 2017، اسٹاک ہولم
سویڈن کے دارالحکومت ایک ٹرک پیدل چلنے والوں پر چڑھانے کے واقعے میں پانچ افراد کی ہلاکت ہوئی۔ اس حملے میں ملوث ہونے کے شبے میں ایک 39 برس کے ازبک باشندے کو حراست میں لیا گیا تھا۔
تصویر: Reuters/A. Ringstrom
فروری، مارچ، اپریل سن 2017، پیرس
رواں برس کے ان مہینوں میں فرانسیسی دارالحکومت میں مختلف دہشت گردانہ حملوں کی کوشش کی گئی۔ کوئی بہت بڑا جانی نقصان نہیں ہوا سوائے ایک واقعے میں ایک پولیس افسر مارا گیا تھا۔
تصویر: picture-alliance/AP Photo/C. Paris
دسمبر سن 2016، برلن
جرمنی کے دارالحکومت برلن کی ایک کرسمس مارکیٹ پر کیے گئے حملے میں ایک درجن افراد موت کا نوالہ بن گئے تھے۔ حملہ آور تیونس کا باشندہ تھا اور اُس کو اطالوی شہر میلان کے نواح میں پولیس مقابلے میں مار دیا گیا تھا۔
تصویر: Getty Images/S. Loos
جولائی سن 2016، نیس
فرانس کے ساحلی شہر نیس میں پیدل چلنے والوں کے پرہجوم راستے پر ایک دہشت گرد نے ٹرک کو چڑھا دیا۔ اس ہولناک حملے میں 86 افراد مارے گئے تھے۔ اسلامک اسٹیٹ نے حملے کی ذمہ داری قبول کی تھی۔
تصویر: Reuters/E. Gaillard
مارچ سن 2016، برسلز
بیلجیم کے دارالحکومت برسلز کے میٹرو ریلوے اسٹیشن پر کیے گئے خودکش حملوں میں کم از کم 32 افراد کی موت واقع ہوئی تھی۔
تصویر: picture-alliance/AP Photo/V. Mayo
جنوری سن 2016، استنبول
ترکی کے تاریخی شہر استنبول کے نائٹ کلب پر کیے گئے حملے میں 35 افراد کی ہلاکت ہوئی تھی۔ ان ہلاک شدگان میں بارہ جرمن شہری تھے۔ حملہ آور کا تعلق اسلامک اسٹیٹ سے بتایا گیا تھا۔
تصویر: picture-alliance/Zuma Press/Depo Photos
نومبر سن 2015، پیرس
پیرس میں کیے منظم دہشت گردانہ حملوں میں 130 افراد کی موت واقع ہوئی تھی۔ ان حملوں کے دوران ایک میوزک کنسرٹ اور مختلف ریسٹورانٹوں پر حملے کیے گئے تھے۔ حملہ آور جہادی تنظیم ’اسلامک اسٹیٹ‘ کے حامی تھے۔
تصویر: Getty Images/AFP/B. Guay
فروری سن 2015، کوپن ہیگن
ڈنمارک کے دارالحکومت میں واقع ایک کیفے پر ایک نوجوان کی فائرنگ سے ایک شخص کی موت واقع ہوئی تھی۔ اسی حملہ آور نے بعد میں ایک یہودی عبادت گاہ کے محافظ کو بھی ہلاک کیا تھا۔
تصویر: Reuters/H. Hanschke
جنوری سن 2015، پیرس
فرانسیسی دارالحکومت پیرس میں ایک میگزین کے دفتر اور یہودیوں کی اشیائے ضرورت کی مارکیٹ پر کیے گئے حملوں میں 17 افراد مارے گئے تھے۔
تصویر: Getty Images/AFP/E. Feferberg
مئی سن 2014، برسلز
فرانس سے تعلق رکھنے والے ایک مسلمان حملہ آور نے بیلجیم کے یہودی میوزیم پر فائرنگ کر کے چار افراد کو موت کی گھاٹ اتار دیا۔ حملہ آور ایک خود ساختہ جہادی تھا۔
تصویر: AFP/Getty Images/G. Gobet
جولائی سن 2005، لندن
چار برطانوی مسلمانوں نے لندن میں زیر زمین چلنے والے ٹرام کو مختلف مقامات پر نشانہ بنایا۔ ان بم حملوں میں 56 افراد کی موت واقع ہوئی تھی۔
تصویر: dpa
مارچ سن 2004، میڈرڈ
منظم بم حملوں سے ہسپانوی دارالحکومت میڈرڈ کے ریلوے اسٹیشن پر 191 انسان موت کے منہ میں چلے گئے تھے۔ ان بموں کے پھٹنے سے پندرہ سو سے زائد زخمی ہوئے تھے۔
تصویر: AP
15 تصاویر1 | 15
نیوز ایجنسی ڈی پی اے نے لکھا ہے کہ ان مشتبہ جنگجوؤں کا تعلق شام میں سرگرم ’اویس القرنی بریگیڈ‘ سے ہے۔ شامی خانہ جنگی میں یہ گروہ ’فری سیریئن آرمی‘ کے ساتھ مل کر اسد حکومت کے خلاف لڑتا رہا تھا تاہم بعد ازاں اس گروہ نے شدت پسند تنظیم النصرہ فرنٹ میں شمولیت اختیار کر لی تھی۔
القاعدہ کے قریب تصور کیے جانے والے ’النصرہ فرنٹ‘ نے رواں برس جولائی کے اواخر میں اپنا نام تبدیل کرتے ہوئے ’جبھة الفتح الشام‘ رکھ لیا تھا۔ تجزیہ کاروں کے مطابق نام کی تبدیلی کے بعد اس گروہ نے القاعدہ کے ساتھ اپنے روابط مبینہ طور پر ختم کر دیے ہیں۔
ڈئر اشپیگل نے اپنی رپورٹ میں لکھا ہے کہ مہاجرین کے روپ میں جرمنی پہنچنے والے ان جنگجوؤں نے شامی خانہ جنگی کے دوران ’شامی فوجیوں اور عام شہریوں کے قتل عام کے کئی واقعات‘ میں حصہ لیا تھا۔
جرمن سکیورٹی ادارے ایسے پچیس سابق جنگجوؤں کی شناخت کے بعد اپنی تحقیقات جاری رکھے ہوئے ہیں۔ تاہم رپورٹوں کے مطابق اس گروہ کے کم از کم تیس یا اس سے بھی زیادہ جنگجو ایسے بھی ہیں، جن کی شناخت اور ملک میں موجودگی کے مقام کے بارے میں ابھی تک جرمن سکیورٹی اداروں کو کوئی معلومات نہیں ہیں۔
جرمن خفیہ اداروں نے اس معاملے کی تحقیقات اور ان مبینہ شدت پسند جنگجوؤں کی شناخت کے لیے ایک خصوصی مشترکہ ٹیم بھی تشکیل دے رکھی ہے۔