مہاجرین کے ساتھ نازیوں والا سلوک کیوں؟ ترک صدر کا سوال
11 مارچ 2020
ترک صدر نے یونانی سرحدی محافظوں پر الزام عائد کر دیا ہے کہ وہ ترکی سے یورپی یونین داخل ہونے کی کوشش کرنے والے مہاجرین کو واپس دھکیلنے کے لیے نازیوں والا طریقہ کار اختیار کیے ہوئے ہیں۔
اشتہار
ترک صدر رجب طیب ایروآن نے بدھ کے دن کہا کہ یونانی ساحلی محافظ مہاجرین کے ساتھ انتہائی برا اور ناروا سلوک اختیار کیے ہوئے ہیں۔ دارالحکومت انقرہ میں واقع پارلیمان میں اپنے خطاب میں انہوں نے کہا کہ یہ ویسا ہی سلوک ہے، جیسا ماضی میں نازیوں نے کیا تھا۔ ایردوآن نے اٹھائیس فروری کو اعلان کیا تھا کہ اب ان کی حکومت ترکی میں مقیم مہاجرین کو یورپی یونین جانے سے نہیں روکے گی۔
سن دو ہزار سولہ میں ترکی اور یورپی یونین کے مابین ایک ڈیل کے تحت ترک صدر نے ان مہاجرین کو یورپی یونین میں داخل ہونے سے روکنے کا عہد کیا تھا۔ اس ڈیل کے عوض یورپی یونین نے ترکی کو مالی معاونت فراہم کرنے کی حامی بھی بھری تھی۔
تاہم اب ایردوآن کی کوشش ہے کہ اس ڈیل پر دوبارہ مذاکرات کرتے ہوئے کچھ نئی شرائط منوا لی جائیں، جن میں یہ بھی شامل ہے کہ یورپی یونین ترک فورسز کی طرف سے شامی علاقے ادلب میں جاری فوجی کارروائی کی حمایت کرے۔
ادھر یونانی حکومت نے کہا ہے کہ گزشتہ دو ہفتوں کے دوران ترکی سے یونان داخل ہونے کی غیرقانونی کوشش کرنے والے بیالیس ہزار سے زائد مہاجرین کو واپس دھکیل دیا گیا ہے۔
یہ پاکستانی یورپ کیوں جانا چاہتا ہے؟
01:39
اس دوران یونانی سکیورٹی اور سرحدی گارڈز نے ان تارکین وطن افراد کے خلاف تیز دھار والا پانی اور آنسو گیس کا استعمال بھی کیا ہے۔ ہزاروں مہاجرین اس وقت ترکی اور یونان کی سرحد پر موجود ہیں، جو یورپی یونین میں شامل ممالک کی سرحدوں میں داخل ہونے کی کوشش میں ہیں۔
ترک صدر نے بدھ کے دن پارلیمان میں ایسی ویڈیوز دکھائیں، جن میں یونانی سرحدی محافظ مہاجرین کو واپس دھکیلنے کی کوشش کر رہے ہیں۔ ساتھ ہی انہوں نے یہ بھی کہا، ''یونانی سرحد پر فلمائے گئے ان امیجز اور نازیوں نے جو کچھ کیا تھا، ان میں کوئی فرق نہیں‘‘۔ انہوں نے ایتھنز حکومت پر زور دیا کہ وہ ان مہاجرین کو یورپی یونین کے امیر ممالک میں داخلے کی اجازت دے۔
ایردوآن نے یونانی حکومت سے مخاطب ہوتے ہوئے مزید کہا، ''آپ ان (مہاجرین) کو کیوں روک رہے ہیں اور ان کے خلاف نازیوں کی طرح سلوک کیوں کر رہے ہیں؟‘‘۔ ترک صدر نے یونانی سرحدوں پر مہاجرین کے ساتھ مبینہ ابتر سلوک کو کڑی تنقید کا نشانہ بھی بنایا۔
ترکی نے یہ الزام بھی عائد کیا ہے کہ سرحدوں پر فائرنگ کے نتیجے میں چار مہاجرین ہلاک ہوئے ہیں۔ تاہم یونان نے ان الزامات کو مسترد کر دیا ہے۔ ایتھنز کا کہنا ہے کہ ملکی سرحدوں کی حفاظت ان کی ڈیوٹی ہے۔
اس وقت ترکی میں 3.6 ملین مہاجرین موجود ہیں، جن میں سے زیادہ تر کا تعلق خانہ جنگی کے شکار ملک شام سے ہے۔ شام میں جاری جنگی کارروائیوں کے تناظر میں خدشہ ہے کہ ہمسایہ ملک شام سے مزید مہاجرین ترکی کا رخ کریں گے۔
سن دو ہزار گیارہ میں شروع ہونے والی شامی خانہ جنگی کے نتیجے میں اقوام متحدہ کے مطابق کم ازکم اب تک تین لاکھ اسی ہزار افراد ہلاک ہو چکے ہیں جبکہ بے گھر ہونے والے شہریوں کی تعداد بھی لاکھوں میں ہے۔
ع ب / ک م / خبر رساں ادارے
یونان میں کن ممالک کے مہاجرین کو پناہ ملنے کے امکانات زیادہ؟
سن 2013 سے لے کر جون سن 2018 تک کے عرصے میں ایک لاکھ 67 ہزار تارکین وطن نے یونان میں سیاسی پناہ کے حصول کے لیے حکام کو اپنی درخواستیں جمع کرائیں۔
تصویر: DW/R. Shirmohammadi
1۔ شام
مذکورہ عرصے کے دوران یونان میں سیاسی پناہ کے حصول کے لیے سب سے زیادہ درخواستیں خانہ جنگی کے شکار ملک شام کے باشندوں نے جمع کرائیں۔ یورپی ممالک میں عام طور پر شامی شہریوں کو باقاعدہ مہاجر تسلیم کیے جانے کی شرح زیادہ ہے۔ یونان میں بھی شامی مہاجرین کی پناہ کی درخواستوں کی کامیابی کی شرح 99.6 فیصد رہی۔
تصویر: UNICEF/UN012725/Georgiev
2۔ یمن
پناہ کی تلاش میں یونان کا رخ کرنے والے یمنی شہریوں کی تعداد بہت زیادہ نہیں ہے اور وہ اس حوالے سے ٹاپ ٹین ممالک کی فہرست میں شامل نہیں ہیں۔ تاہم گزشتہ پانچ برسوں کے دوران یونانی حکام نے یمن سے تعلق رکھنے والے 97.7 فیصد تارکین وطن کی جمع کرائی گئی سیاسی پناہ کی درخواستیں منظور کیں۔
تصویر: DW/A. Gabeau
3۔ فلسطین
یمن کی طرح یونان میں پناہ کے حصول کے خواہش مند فلسطینیوں کی تعداد بھی زیادہ نہیں ہے۔ سن 2013 سے لے کر اب تک قریب تین ہزار فلسطینی تارکین وطن نے یونان میں حکام کو سیاسی پناہ کی درخواستیں جمع کرائیں۔ فلسطینی تارکین وطن کو پناہ ملنے کی شرح 95.9 فیصد رہی۔
تصویر: DW/R. Shirmohammadi
4۔ اریٹریا
اس عرصے کے دوران یونان میں افریقی ملک اریٹریا سے تعلق رکھنے والے غیر قانونی تارکین وطن کی جمع کرائی گئی پناہ کی کامیاب درخواستوں کی شرح 86.2 فیصد رہی۔
تصویر: picture alliance/AP Photo
ٰ5۔ عراق
عراق سے تعلق رکھنے والے قریب انیس ہزار تارکین وطن نے مذکورہ عرصے کے دوران یونان میں سیاسی پناہ کی درخواستیں جمع کرائیں۔ عراقی شہریوں کی پناہ کی درخواستوں کی کامیابی کا تناسب ستر فیصد سے زائد رہا۔
تصویر: Getty Images/AFP/S. Mitrolidis
6۔ افغانستان
یونان میں سن 2013 کے اوائل سے جون سن 2018 تک کے عرصے کے دوران سیاسی پناہ کی قریب بیس ہزار درخواستوں کے ساتھ افغان مہاجرین تعداد کے حوالے سے تیسرے نمبر پر رہے۔ یونان میں افغان شہریوں کی کامیاب درخواستوں کی شرح 69.9 فیصد رہی۔
تصویر: DW/S. Nabil
7۔ ایران
اسی عرصے کے دوران قریب چار ہزار ایرانی شہریوں نے بھی یونان میں سیاسی پناہ کے حصول کے لیے درخواستیں جمع کرائیں۔ ایرانی شہریوں کو پناہ ملنے کی شرح 58.9 فیصد رہی۔
تصویر: DW/R. Shirmohammadi
8۔ بنگلہ دیش
بنگلہ دیش سے تعلق رکھنے والے قریب پانچ ہزار تارکین وطن نے یونان میں حکام کو اپنی سیاسی پناہ کی درخواستیں جمع کرائیں۔ بنگلہ دیشی تارکین وطن کو پناہ دیے جانے کی شرح محض 3.4 فیصد رہی۔
تصویر: picture alliance/NurPhoto/N. Economou
9۔ پاکستان
پاکستانی شہریوں کی یونان میں سیاسی پناہ کی درخواستوں کی تعداد شامی مہاجرین کے بعد سب سے زیادہ تھی۔ جنوری سن 2013 سے لے کر رواں برس جون تک کے عرصے میں 21 ہزار سے زائد پاکستانیوں نے یونان میں پناہ کے حصول کے لیے درخواستیں جمع کرائیں۔ تاہم کامیاب درخواستوں کی شرح 2.4 فیصد رہی۔
تصویر: DW/R. Shirmohammadi
10۔ بھارت
پاکستانی شہریوں کے مقابلے یونان میں بھارتی تارکین وطن کی تعداد بہت کم رہی۔ تاہم مہاجرت سے متعلق یونانی وزارت کے اعداد و شمار کے مطابق محض 2.3 فیصد کے ساتھ بھارتی تارکین وطن کو پناہ دیے جانے کی شرح پاکستانی شہریوں سے بھی کم رہی۔