جرمن سیاسی جماعت ایف ڈی پی کے سربراہ کرسٹیان لِنڈنر نے سیاسی پناہ کے متلاشی افراد کے لیے ایک نیا منصوبہ پیش کیا ہے۔ منصوبے میں جنگ زدہ ممالک کے باشندوں کو جنگ ختم ہونے پر دوبارہ ان کے آبائی ملک بھیجنے کی تجویز دی گئی ہے۔
اشتہار
اگر ایف ڈی پی 24 سمتبر کو ہونے والے انتخابات میں بہتر کارکردگی دکھاتی ہے اور آئندہ حکومت کا حصہ بنتی ہے، تو اس کے منصوبے کے مطابق جنگ زدہ ممالک سے جرمنی پہنچنے والے سیاسی پناہ کے متلاشی افراد کو ان کے آبائی ممالک میں جنگ ختم ہونے پر واپس بھیجا سکے گا۔ کرسٹیان لِنڈنر نے اپنے اس منصوبے میں چانسلر انگیلا میرکل کی مہاجرین دوست پالیسیوں کو تنقید کا نشانہ بنایا ہے، مگر عین ممکن ہے کہ وہ آئندہ میرکل کے ساتھ آئندہ حکومت میں شامل ہوں۔
پیر کے روز برلن میں اپنی پارٹی کی جانب سے اس منصوبے کی تفصیلات بتاتے ہوئے لِنڈنر کا کہنا تھا کہ جرمنی کو مہاجرین سے متعلق اپنی پالیسیاں تبدیل کرنا چاہیئں۔ انہوں نے کہا کہ اگر ان کی جماعت آئندہ حکومتی اتحاد میں شامل ہوتی ہے، تو اتحاد میں شامل ہونے کی شرط مہاجرین سے متعلق پالیسی میں تبدیلی ہو گی۔
یہ بات اہم ہے کہ مہاجرین کے بحران نے جرمن معاشرے پر گہرے اثرات مرتب کئے ہیں اور رواں ماہ ہونے والے انتخابات میں یہ موضوع اہم ترین موضوعات میں سے ایک ہے۔
یونان میں غیر قانونی پاکستانی تارکین وطن کا المیہ
یونانی جزیرے لیسبوس پر موجود پاکستانی تارکین وطن کسی صورت واپس ترکی نہیں جانا چاہتے۔ ان کا کہنا ہے کہ ترکی محفوظ ملک نہیں ہے اور انہیں بھی شامی مہاجرین کی طرح یورپ میں پناہ دی جائے۔
تصویر: DW/R. Shirmohammadi
’ماں کا زیور بیچ کر آیا ہوں‘
پاکستانی صوبہ پنجاب کے ضلع گجرات سے تعلق رکھنے والے ایک نوجوان تارک وطن کے مطابق وہ اپنی والدہ کا زیور بیچ کر اور اپنی جان خطرے میں ڈال کر یونان تک پہنچا ہے اور کسی صورت واپس نہیں جائے گا۔
تصویر: DW/R. Shirmohammadi
یونان بھی پناہ نہیں دے رہا
یورپی یونین اور ترکی کے مابین طے پانے والے معاہدے کے مطابق جو تارکین وطن یونان میں سیاسی پناہ کی درخواستیں نہیں دے رہے، انہیں واپس ترکی بھیجا جا رہا ہے۔ پاکستانی تارکین وطن کی اکثریت نے یونان میں پناہ کی درخواست اس لیے بھی نہیں دیں کہ انہیں خدشہ ہے کہ وہ مسترد کر دی جائیں گی۔
تصویر: DW/R. Shirmohammadi
’یورپی یونین ترکی کو پیسے نہ دے‘
لیسبوس میں موجود یورپ میں پناہ کے خواہش مند ان پاکستانیوں کا دعویٰ ہے کہ ترکی یورپ سے پیسے لے کر مہاجرین کو واپس ترکی آنے کی اجازت دے رہا ہے۔ انہیں نے الزام عائد کیا کہ ترکی اپنے ہاں پناہ گزینوں کو کوئی سہولیات نہیں دیتا اور وہاں انہیں پہلے بھی کھلے آسمان تلے سونا پڑتا تھا۔
تصویر: DW/R. Shirmohammadi
صرف شامی مہاجرین ہی پناہ کے مستحق؟
یورپ میں زیادہ تر صرف خانہ جنگی سے بچ کر آنے والے شامی مہاجرین ہی کو پناہ دی جا رہی ہے۔ پاکستان اور افغانستان سے تعلق رکھنے والے تارکین وطن کا کہنا ہے کہ وہ بھی اپنی جانوں کے تحفظ کے لیے یورپ میں پناہ حاصل کرنا چاہتے ہیں۔
تصویر: DW/R. Shirmohammadi
خیمے عارضی، سفر مسلسل
لیسبوس کے جزیرے پر سمندر کے کنارے عارضی خیموں میں شب و روز گزارنے والے ان پاکستانی تارکین وطن کا سفر ابھی ختم نہیں ہوا۔ یورپ اور ترکی کے مابین معاہدے کے بعد انہیں بھی واپس ترکی جانا پڑے گا لیکن انہیں پھر بھی امید ہے کہ وہ مغربی یورپ کی جانب اپنا سفر جاری رکھ سکیں گے۔
تصویر: DW/R. Shirmohammadi
بحیرہ ایجیئن کا خطرناک سفر بےسود
خستہ حال کشتیوں کے ذریعے بحیرہ ایجیئن عبور کر کے ترکی سے بحفاظت یونان پہنچ جانے والے یہ تارکین وطن دراصل خوش قسمت ہیں۔ یورپ میں مہاجرین کے موجودہ بحران کے دوران اب تک ہزاروں انسان سمندر میں ڈوب چکے ہیں۔
تصویر: DW/R. Shirmohammadi
کھانے کے لیے قطار
لیسبوس نامی اس یونانی جزیرے پر موجود ان تارکین وطن کو کافی کھانا بھی دستیاب نہیں ہوتا۔ کھانے کے حصول کے لیے انہیں طویل قطاروں میں کھڑے ہو کر اپنی باری کا انتظار کرنا پڑتا ہے۔
تصویر: DW/R. Shirmohammadi
’خواب ایسا تو نہیں تھا‘
اچھے مستقبل کی خواہش دل میں لیے اور خطرناک راستے عبور کر کے یونان پہنچنے والے ان پاکستانی تارکین وطن کو اپنے شب و روز ایسی خستہ حالی میں گزارنا پڑ رہے ہیں کہ وہ ان حالات کو اپنے مستقبل کے خوابوں اور ان کی ممکنہ تعبیر کے بالکل برعکس قرار دیتے ہیں۔
تصویر: DW/R. Shirmohammadi
’ہمیں بھی پناہ دو!‘
پاکستان، افغانستان اور دیگر ممالک سے تعلق رکھنے والے ان تارکین وطن کو یورپ میں پناہ ملنے کے امکانات نہایت کم ہیں۔ پناہ کے متلاشی ان غیر ملکیوں کا احتجاج کرتے ہوئے کہنا تھا کہ یورپی یونین انہیں بھی شامی مہاجرین کی طرح انسانی ہمدردی کی بنیاد پر پناہ دے۔
تصویر: DW/R. Shirmohammadi
’مر جائیں گے، واپس نہیں جائیں گے‘
ترکی سے یونان پہنچنے والے اور اب وہاں سے ملک بدری کے تقریباﹰ یقینی خطرے کا سامنا کرنے والے ان تارکین وطن کا کہنا ہے کہ وہ ترکی واپسی کے بجائے موت کو ترجیح دیں گے۔ اس موقف کے ساتھ اب وہ احتجاجی مظاہرے بھی کرنے لگے ہیں۔
تصویر: DW/R. Shirmohammadi
جب پریشانی بےحال کردے
ان تارکین وطن کو ان کے احتجاج کے باوجود ابھی تک یہی ’ناپسندیدہ امکان‘ دکھائی دے رہا ہے کہ انہیں زبردستی واپس ترکی بھیج دیا جائے گا۔ انسانی حقوق کی کئی تنظیموں کی رائے میں ترکی خود بھی کوئی ’محفوظ ملک‘ نہیں ہے۔
تصویر: DW/R. Shirmohammadi
11 تصاویر1 | 11
اپنے بیان میں لنِڈنر نے کہا کہ نئے منصوبے کے مطابق جنگ زدہ ممالک سے جرمنی کا رخ کرنے والے سیاسی پناہ کے متلاشی افراد کے لیے خصوصی قانون سازی کی جائے گی، تاکہ انہیں ان کے آبائی ممالک میں صورت حال بہتر ہونے پر واپس بھیجا جا سکے۔ تاہم ان کا کہنا تھا کہ اپنے ممالک میں جان کو لاحق خطرات کی وجہ سے جرمن پہنچنے والوں پر اس منصوبے کا اطلاق نہیں ہو گا۔
لبرل جماعت ایف ڈی پی کو امید ہے کہ وہ چار برس کی غیرحاضری کے بعد ایک بار پھر جرمن پارلیمان کا حصہ بن جائے گی۔ یہ جماعت گزشتہ انتخابات میں پارلیمان میں داخلے کے کم از کم مطلوبہ ووٹ حاصل کرنے میں ناکام رہی تھی۔ تاہم اس سے قبل ایف ڈی پی انگیلا میرکل کی حکومت کا حصہ رہی تھی۔
جرمنی: افغان مہاجرین کی اجتماعی ملک بدری پھر سے شروع
01:33
اگر چانسلر انگیلا میرکل کی قدامت جماعت سی ڈی یو انتخابات میں زیادہ نشستیں حاصل کرنے میں کامیاب ہوتی ہے اور اسے حکومت سازی کے لیے کسی اتحادی کی ضرورت پڑتی ہے، تو مبصرین کے مطابق قوی امکانات ہیں کہ ایف ڈی پی دوبارہ اس حکومتی اتحاد کا حصہ ہو سکتی ہے۔