جرمنی میں پناہ گزینوں کو جرمن زبان سیکھنے کے کسی کورس میں داخلے کے لیے طویل انتظار کرنا پڑتا تھا۔ تاہم اب اس سلسلے میں ایک خوش آئند تبدیلی آئی ہے۔ وہ کیا ہے؟
تصویر: DW/M. Karim Saleh
اشتہار
پناہ کے متلاشیوں کے لیے انتظار کی گھڑیاں ختم تو نہیں ہوئی مگر کم ضرور ہوئی ہیں۔ جرمنی میں زبان سکھانے کے ایک ادارے برلٹز کے سربراہ ماتھیاس شوارٹز نے بتایا کہ اب پناہ گزینوں کو زبان سیکھنے کے لیے کسی کورس میں داخلے کی خاطر کئی مہینوں تک انتظار نہیں کرنا پڑتا، ’’ گزشتہ بارہ مہینوں کے دوران اس مدت میں کمی واقع ہوئی ہے اور یہاں تک کے اساتذہ کو تلاش کرنے میں بھی آسانی ہوئی ہے‘‘۔
اس سے قبل مہاجرین اور پناہ گزینوں کی جانب سے بارہا شکایات کی گئی تھیں کہ انہیں جرمن زبان کے کورسز میں جگہ نہیں مل پاتی اور اس کے لیے انہیں کئی کئی مہینوں تک انتظار کرنا پڑتا ہے۔
ماتھیاس شوارٹز سے مزید کہا کہ ہجرت اور پناہ گزین کے جرمن ادارے (بی اے ایم ایف ) نے بھی اس سلسلے میں فیس اور اخراجات کا دوبارہ سے تعین کیا ہے، ’’اب برلٹز کو جرمن زبان سیکھنے والے ہر طالب علم اور ہر ایک گھنٹے کے لیے تین یورو نوے سینٹ ( 3,90 ) ملتے ہیں۔‘‘ پہلے اس سے ایک یورو کم ادا کیا جاتا تھا۔ انہوں نے مزید بتایا کہ اسی طرح بی اے ایم ایف نے یہ فیصلہ بھی کیا ہے کہ اساتذہ کو ہر تدریسی گھنٹے کا معاوضہ 35 یورو دیا جائے گا، ’’اس کام کے لیے صرف پیسہ ہی واحد کشش نہیں ہے بلکہ اس کے لیے اساتذہ میں ان کے فرائض کے حوالے سے جوش و ولولہ بھی ضروری ہے۔‘‘
گزشتہ برس برلٹز کی جانب سے چار سو مختلف کورسز کے ذریعے پناہ کے دس ہزار سے زائد متلاشیوں کو جرمن زبان سکھانے کی کوشش کی گئی۔ ماتھیاس شوارٹز کے بقول، ’’انضمام کے کورسس کی وجہ سے ادارے کو مالی فائدہ بھی ہوتا ہے ورنہ ہم ایسا کرتے ہی نہیں۔‘‘
جرمن کہاوتوں پر بنائی گئی منفرد تصاویر
جرمن زبان کی چند ایک منتخب کہاوتوں پر مبنی یہ تصاویر خاص طور پر ڈی ڈبلیو کے لیے بنائی گئی ہیں۔ یہ کہاوتیں آج بھی زبان زد خاص و عام ہیں اور ان کی اہمیت کم نہیں ہوئی ہے۔ کیا آپ کے ہاں بھی اس سے ملتی جُلتی کہاوتیں ہیں؟
تصویر: Antje Herzog
جو خوبصورت بننا چاہتا ہے، اُسے تکلیف اُٹھانا پڑتی ہے
کہاوتوں کے جرمن ماہرین بھی نہیں جان پائے کہ یہ کہاوت کہاں سے آئی ہے لیکن اس کا پیغام انتہائی واضح ہے: خوبصورتی قربانی مانگتی ہے۔ لڑکیاں ماڈل بننے کے لیے بھوک برداشت کرتی ہیں، لوگ جسم پر ٹیٹو بنوانے کے لیے تکلیف سے گزرتے ہیں۔ انگریزی میں ملتا جُلتا محاورہ ہے، ’نو پین، نو گین‘۔
تصویر: Antje Herzog
سب سے پہلے چوہے کسی ڈوبتے جہاز کو چھوڑتے ہیں
قدیم زمانوں میں جب لوگ بحری جہازوں پر سفر کرتے تھے تو نیچے والے حصے میں کوئی شگاف پڑنے کی صورت میں چوہے اوپر آنا شروع ہو جاتے تھے۔ اس سے لوگ یہ ماننا شروع ہو گئے کہ چوہے کسی آنے والے ناخوشگوار واقعے کی پیش گوئی کر سکتے ہیں۔ آج کل یہ کہاوت اُن لوگوں کے لیے استعمال کی جاتی ہے، جو مشکل وقت میں کسی ادارے کو چھوڑ کر نکل جاتے ہیں۔
تصویر: DW/A. Herzog/C. Dillon
مچھلی ہمیشہ سر سے خراب ہونا شروع ہوتی ہے
جب مچھلی مرتی ہے تو اُس کا سر سب سے پہلے گلنا سڑنا شروع کر دیتا ہے اور اسی لیے سب سے پہلے بُو بھی اُسی میں سے آتی ہے۔ یہ کہاوت تب بولی جاتی ہے، جب قیادت ہی اپنی کمپنی یا اپنی سیاسی جماعت کو تباہ کرنے کا باعث بننے لگتی ہے۔ جرمنی میں اس کہاوت کو سن 2000ء میں شہرت ملی، جب سابق چانسلر گیرہارڈ شروئیڈر نے یہی کہاوت ایک دوسری جماعت سے تعلق رکھنے والے وزیر اعلیٰ کے لیے استعمال کی۔
تصویر: DW/A. Herzog/C. Dillon
انسان اُس شاخ کو نہیں کاٹتا، جس پر وہ بیٹھا ہوتا ہے
اردو میں محاورے کی زبان میں اس سے ملتی جُلتی کہاوت ہے، اپنے پاؤں پر خود کلہاڑی مار لینا یا پھر جس تھالی میں کھانا، اُسی میں چھید کرنا۔ مطلب یہ کہ انسان ایسے بہت سے کام کر لیتا ہے، جن کے نتیجے میں اُسے نقصان اُٹھانا پڑتا ہے۔ یہ جرمن محاورہ ایسا نہ کرنے کا مشورہ دیا ہے۔
تصویر: DW/A. Herzog/C. Dillon
بولنا چاندی ہے، خاموشی سونا
اس جرمن کہاوت کے مطابق گفتگو چاندی ہے تو خاموشی سونا ہے۔ جب تک کوئی زبان نہ کھولے، ہم اُس کے بارے میں کوئی رائے قائم نہیں کر پاتے۔ جونہی وہ بولنا شروع کرتا ہے، اُس کی اصلیت ہم پر کھل جاتی ہے۔ لقمان حکیم کا ذکر قرآن میں بھی آیا ہے، جہاں ایک پوری سورۃ اُن سے موسوم ہے۔ اس دانا شخص کے ایک قول کا حوالہ تیرہویں صدی کے مسلمان عالم ابن کثیر نے دیا تھا، جو یہ تھا:’’اگر لفظ چاندی ہیں تو خاموشی سونا ہے۔‘‘
تصویر: DW/A. Herzog, C. Dillon
ایک ہاتھ دوسرے کو دھوتا ہے
مدد کہاں ختم ہوتی ہے اور کرپشن کہاں سے شروع ہوتی ہے؟ اس جرمن کہاوت کا مفہوم یہ ہے کہ مجرم ایک دوسرے کی مدد کرتے ہیں، مثلاً ایک مالدار شخص کسی بدعنوان سیاستدان کو پیسہ دیتا ہے۔ اردو میں اس سے ملتی جُلتی کہاوت کے لیے فارسی کی کہاوت من ترا حاجی بگویم، تُو مرا ملا بگو استعمال کرتے ہیں۔ یہ ضرب المثل تب استعمال ہوتی ہے، جب لوگ ایک دوسرے کی تعریف اس لیے کرتے ہیں کہ اگلا بھی جواب میں تعریفی کلمات کہے۔
تصویر: A. Herzog / C. Dillon
چھت پر بیٹھے کبوتر سے ہاتھ میں آ گئی چڑیا بہتر ہے
اردو میں کہا جاتا ہے کہ ’بھاگتے چور کی لنگوٹی ہی سہی‘۔ اس جرمن کہاوت میں بھی ہمیشہ زیادہ سے زیادہ کی خواہش کرنے سے خبردار کیا گیا ہے۔ بنیادی طور پر یہ کہاوت لاطینی زبان و ادب سے آئی ہے، جہاں یہ کہا گیا ہے کہ ہاتھ میں آ گیا پرندہ جنگل میں موجود ہزاروں پرندوں سے بہتر ہے۔ انگریزی میں اس سے ملتی جُلتی کہاوت ہے کہ ہاتھ میں موجود ایک پرندہ جنگل میں موجود دو پرندوں سے بہتر ہے۔
تصویر: DW/A. Herzog/C. Dillon
زیادہ باورچی کھانا خراب کر دیتے ہیں
اس جرمن محاورے کا مطلب سیدھا سادا ہے کہ اگر کسی واضح قیادت کے بغیر زیادہ لوگ کسی منصوبے کو سرانجام دینے کی کوشش کریں گے تو وہ پایہٴ تکمیل کو کم ہی پہنچ پائے گا۔ جرمنی میں کام کی جگہوں پر ایسا اکثر نظر آتا ہے کہ کام خواہ جتنے مرضی لوگ انجام دیں، اُنہیں ہدایات کوئی ایک شخص ہی دیتا ہے۔ اُردو میں ’دو ملاؤں میں مرغی حرام‘ کسی حد تک ملتی جُلتی کہاوت ہے۔
تصویر: Antje Herzog/Conor Dillon
شیشے کے گھر میں بیٹھ کر دوسروں پر پتھر نہیں پھینکنے چاہییں
اس محاورے کی جڑیں جرمن سرزمین میں ہیں اور اس کے ڈانڈے بائبل کے اُس واقعے سے ملتے ہیں، جس میں حضرتِ عیسیٰ نے کہا تھا کہ ایک گناہ گار کو پتھر صرف وہی مارے، جس نے خود کبھی گناہ نہ کیا ہو۔ اسی لیے اس جرمن کہاوت کا مطلب یہ ہے کہ ہم میں سے ہر ایک گویا شیشے کے ایک گھر میں بیٹھا ہوا ہے، ایسے میں دوسروں پر انگلی اٹھانے سے گریز کرنا چاہیے۔
تصویر: Antje Herzog/Conor Dillon
جھوٹ کے پاؤں چھوٹے ہوتے ہیں
یہ محاورہ کئی زبانوں میں پایا جاتا ہے۔ چھوٹے پاؤں سے یہ ہرگز مراد نہیں کہ چھوٹے قد کے لوگ زیادہ جھوٹ بولتے ہیں۔ مطلب یہی ہے کہ جھوٹ زیادہ دیر تک چل نہیں سکتا، جلد پکڑا جاتا ہے۔ اردو زبان میں تو سرے سے جھوٹ کے پاؤں ہی نہیں ہوتے۔
تصویر: Antje Herzog/Conor Dillon
ہر شخص اپنی قسمت خود بناتا ہے
اس کہاوت کا لفظی مطلب یہ ہے کہ ہر انسان اپنی قسمت خود ’گھڑ کر بناتا‘ ہے۔ اس کہاوت کی جڑیں جرمن زبان و ادب میں نہیں بلکہ پہلی بار یہ کہاوت تین سو قبل مسیح میں ایک رومی سیاستدان نے لاطینی زبان میں کہی تھی۔ مطلب یہ ہے کہ انسان محنت اور کوشش سے جو چاہے، حاصل کر سکتا ہے۔