مہاجرین کے لیے سرحدیں بند نہیں کریں گے، اطالوی وزیر اعظم
عاطف بلوچ، روئٹرز
23 جولائی 2017
اطالوی وزیر اعظم نے ہمسایہ ممالک کے ایسے مطالبات رد کر دیے ہیں کہ وہ مہاجرین کی آمد روکنے کی خاطر اپنی قومی سرحدوں کو بند کر دیں۔ رواں برس شمالی افریقہ سے اٹلی پہنچنے والے مہاجرین کی تعداد ایک لاکھ سے تجاوز کر چکی ہے۔
اشتہار
خبر رساں ادارے اے ایف پی نے اطالوی وزیر اعظم پاؤلو جینٹیلونی کے حوالے سے بتایا ہے کہ روم حکومت مہاجرین کے بحران کے تناظر میں ہمسایہ ممالک کی طرف سے دی جانے والی ’دھمکیوں‘ کو قبول نہیں کرتی ہے۔ متعدد یورپی ممالک کا کہنا ہے کہ اس براعظم کی سلامتی کو یقینی بنانے کی خاطر مہاجرین کے بہاؤ کا سلسلہ روکنا ہو گا۔
بائیس جولائی بروز جمعہ پاؤلو جینٹیلونی نے واضح کیا کہ مہاجرین کے بحران کے معاملے پر اٹلی اپنی ذمہ داری نبھاتا رہے گا اور وہ ہمسایہ ممالک اور دیگر یورپی ممالک سے توقع کرتا ہے کہ وہ بھی اس سلسلے میں اپنا کردار مؤثر طریقے سے نبھائیں گے۔
بحیرہ روم میں مہاجرین کی کشتیاں ڈوبنے کے خوفناک مناظر
01:11
قبل ازیں ہمسایہ ممالک نے اٹلی پر زور دیا تھا کہ وہ اپنی قومی سرحدوں کو بند کر دے تاکہ بحیرہ روم کے ذریعے شمالی افریقہ سے اطالوی جزائر پر پہنچنے والے افریقی تارکین وطن اور مہاجرین کا راستہ روکا جا سکے۔
آسٹریا کی حکومت نے گزشتہ ہفتے ہی اٹلی کو خبردار کیا تھا کہ اگر وہ سمندری راستوں کی نگرانی نہیں بڑھاتا تو ویانا حکومت سرحدوں پر فوجی دستے تعینات کر دے گی۔
اس پیشرفت پر اطالوی حکومت نے گزشتہ ہفتے ہی ویانا میں تعینات آسٹریائی سفیر کو طلب کر کے احتجاج بھی کیا تھا۔
ہنگری، آسڑیا، پولینڈ، سلوواکیہ اور چیک ری پبلک سمیت وسطی یورپ کے کئی ممالک کا کہنا ہے کہ یہ مہاجرین جب شینگن زون میں داخل ہو جاتے ہیں تو پھر وہ شینگن زون کے کسی ملک بھی جا سکتے ہیں۔
اقوام متحدہ کے اعدادوشمار کے مطابق رواں برس جولائی کے مہینے تک بحیرہ روم کے خطرناک پانیوں سے گزر کر کم ازکم ایک لاکھ افریقی مہاجرین و تارکین وطن اٹلی پہنچ چکے ہیں۔ اس کوشش میں تقریبا دو ہزار تین سو ساٹھ افراد سمندر برد بھی ہو چکے ہیں۔
رواں برس یورپ پہنچنے کی کوشش کرنے والے تارکین وطن میں سے پچاسی فیصد اٹلی میں موجود ہیں۔ ان میں سے زیادہ تر کا تعلق شورش زدہ ملک لیبیا سے ہے۔
اٹلی کا کہنا ہے کہ دیگر یورپی ممالک بھی ان مہاجرین کو اپنے اپنے ممالک میں آباد کرنے کے حوالے سے اقدامات اٹھائیں تاہم بالخصوص ہنگری، پولینڈ اور چیک ری پبلک ان مہاجرین کو اپنے ممالک میں پناہ نہ دینے کے بارے میں کھل کا اظہار کر چکے ہیں۔
یہ ممالک مسلم مہاجرین کو اپنے ’یورپی کلچر‘ کے لیے ایک خطرہ تصور کرتے ہیں۔ ہنگری کے وزیر اعظم وکٹور اوربان نے اپنے ایک تازہ بیان میں کہا ہے کہ وہ ’نئے، مکسڈ مسلمائزڈ یورپ‘ کے نظریے کو مسترد کرتے ہیں۔
مہاجرین کی کشتی ڈوبنے کے ڈرامائی مناظر
اقوام متحدہ کے ادارہ برائے مہاجرین نے خدشہ ظاہر کیا ہے کہ بحیر روم کو عبور کرنے کی کوشش میں حالیہ ہفتے کے دوران رونما ہونے والے تین حادثوں کے نتیجے میں کم از کم سات سو افراد ہلاک جبکہ دیگر سینکڑوں لاپتہ ہو چکے ہیں۔
تصویر: picture-alliance/dpa/Italian Navy/Handout
عمومی غلطی
ماہی گیری کے لیے استعمال ہونے والی اس کشتی میں سوار مہاجرین نے جب ایک امدادی کشتی کو دیکھا تو اس میں سوار افراد ایک طرف کو دوڑے تاکہ وہ امدادی کشتی میں سوار ہو جائیں۔ یوں یہ کشتی توازن برقرار نہ رکھ سکی اور ڈوب گئی۔
تصویر: Reuters/Marina Militare
اچانک حادثہ
عینی شاہدین کے مطابق اس کشتی کو ڈوبنے میں زیادہ وقت نہ لگا۔ تب یوں محسوس ہوتا تھا کہ اس کشتی میں سوار افراد پتھروں کی طرح پانی میں گر رہے ہوں۔ یہ کشتی لیبیا سے اٹلی کے لیے روانہ ہوئی تھی۔
تصویر: Reuters/Marina Militare
الٹی ہوئی کشتی
دیکھتے ہی دیکھتے یہ کشتی مکمل طور پر الٹ گئی۔ لوگوں نے تیر کر یا لائف جیکٹوں کی مدد سے اپنی جان بچانے کی کوشش شروع کردی۔ اطالوی بحریہ کے مطابق پانچ سو افراد کی جان بچا لی گئی۔
تصویر: Reuters/Marina Militare
امدادی آپریشن
دو اطالوی بحری جہاز فوری طور پر وہاں پہنچ گئے۔ امدادی ٹیموں میں ہیلی کاپٹر بھی شامل تھے۔ بچ جانے والے مہاجرین کو بعد ازاں سیسلی منتقل کر دیا گیا، جہاں رواں برس کے دوران چالیس ہزار مہاجرین پہنچ چکے ہیں۔
تصویر: Reuters/Marina Militare
ہلاک ہونے والوں میں چالیس بچے بھی
تازہ اطلاعات کے مطابق جہاں ان حادثات میں سات سو افراد کے ہلاک ہونے کا خدشہ ظاہر کیا جا رہا ہے، وہیں چالیس بچوں کے سمندر برد ہونے کا بھی قوی اندیشہ ہے۔
تصویر: Reuters/Marina Militare
حقیقی اعدادوشمار نامعلوم
جمعے کو ہونے والے حادثے میں ہلاک یا لاپتہ ہونے والوں کی تعداد کے بارے میں ابھی تک کوئی معلومات حاصل نہیں ہو سکی ہیں۔
تصویر: Reuters/EUNAVFOR MED
مہاجرین کو کون روکے؟
ایسے خدشات درست معلوم ہوتے نظر آ رہے ہیں کہ ترکی اور یورپی یونین کی ڈیل کے تحت بحیرہ ایجیئن سے براستہ ترکی یونان پہنچنے والے مہاجرین کے راستے مسدود کیے جانے کے بعد لیبیا سے اٹلی پہنچنے والے مہاجرین کی تعداد بڑھ جائے گی۔
تصویر: picture-alliance/dpa/Italian Navy/Marina Militare
عینی شاہدین کے بیانات
عینی شاہدین نے بتایا ہے کہ کس طرح انہوں نے اپنی آنکھوں سے مہاجرین کی کشتیوں کوڈوبتے دیکھا، جن میں سینکڑوں افراد سوار تھے۔ یہ تلخ یادیں ان کے ذہنوں پر سوار ہو چکی ہیں۔
تصویر: Getty Images/G.Bouys
سینکڑوں ہلاک
گزشتہ سات دنوں کے دوران بحیرہ روم میں مہاجرین کی کشتیون کو تین مخلتف حادثات پیش آئے۔ اقوام متحدہ کے ادارہ برائے مہاجرین کے مطابق ان حادثات کے نتیجے میں کم ازکم سات سو افراد ہلاک جبکہ سینکڑوں لاپتہ ہو گئے ہیں۔
تصویر: Reuters/H. Amara
بحران شدید ہوتا ہوا
موسم سرما کے ختم ہونے کے بعد شمالی افریقی ملک لیبیا سے یورپی ملک اٹلی پہنچنے والے افراد کی تعداد میں تیزی دیکھی جا رہی ہے۔ اطالوی ساحلی محافظوں نے گزشتہ پیر سے اب تک کم ازکم چودہ ہزار ایسے افراد کو بچایا ہے، جو لیبیا سے یورپ پہنچنے کی کوشش میں بحیرہ روم میں بھٹک رہے تھے۔