جرمن چانسلر انگیلا میرکل کی جانب سے مہاجرین کے لیے ملکی سرحدیں کھول دیے جانے کے اعلان کے بعد سن 2015 میں اگست اور ستمبر کے مہینوں میں لاکھوں تارکین وطن جرمنی پہنچے تھے۔ اس کے بعد گزشتہ دو برسوں کے دوران کیا کیا ہوا؟
اشتہار
اگست 2015
پچیس اگست سن 2015 کے روز جرمنی نے شامی مہاجرین کے لیے ’ڈبلن ضوابط‘ معطل دیے تھے۔ ان ضوابط کے تحت تارکین وطن صرف اسی یورپی ملک میں پناہ کی درخواستیں جمع کرا سکتے ہیں جس کے ذریعے وہ یورپی یونین کی حدود میں داخل ہوتے ہیں۔ اس فیصلے کے بعد یونان اور بلقان کی ریاستوں میں موجود شامی مہاجرین سمیت لاکھوں تارکین وطن جرمنی پہنچ گئے تھے۔
اس بحرانی صورت حال کے دوران ہی جرمن چانسلر انگیلا میرکل نے ’’ہم یہ کر سکتے ہیں‘‘ کا نعرہ لگاتے ہوئے کہا تھا کہ شام اور مشرق وسطیٰ کے جنگ زدہ خطوں سے ہجرت کرنے والے افراد کو پناہ دینا جرمنی کی ’’قومی ذمہ داری‘‘ ہے۔
چار ستمبر کے روز جرمنی اور آسٹریا نے ہنگری میں پھنسے مہاجرین کو اپنی سرحدوں میں داخل ہونے کی اجازت دے دی۔ میونخ کے مرکزی ٹرین اسٹیشن پر مہاجرین کے استقبال اور خوش آمدید کہنے والوں کا رش تھا۔ عوامی سطح پر اس خوش آمدیدی انداز کے باعث جرمنی یورپ کا رخ کرنے والے مہاجرین کی پسندیدہ منزل بھی بنا رہا۔
تاہم صرف دو ہفتے بعد 13 ستمبر کے روز جرمنی نے آسٹریا سے متصل سرحدی راستوں کی نگرانی سخت کرنا شروع کر دی تھی۔
کروشیا کی پولیس مہاجرین کو زبردستی واپس سربیا بھیج دیتی ہے
01:50
اکتوبر 2015
اکتوبر میں یورپی یونین اور ترکی نے مہاجرین کے بہاؤ کو منظم کرنے اور روکنے کے لیے مشترکہ لائحہ عمل طے کرنے پر اتفاق کر لیا۔ پندرہ اکتوبر کے روز جرمن پارلیمان نے پناہ کے قوانین میں تبدیلی لاتے ہوئے البانیا اور کوسووو جیسے مشرقی یورپی ممالک کو ’محفوظ ممالک‘ کا درجہ دے دیا۔
نومبر کے مہینے میں جرمنی میں مقیم مہاجرین کے اہل خانہ کو جرمنی لانے کے قوانین بھی سخت بنا دیے گئے۔ علاوہ ازیں برلن حکومت نے ملکی سرحدوں پر تارکین وطن کے لیے خصوصی مراکز قائم کرنا شروع کر دیے۔ ان مراکز میں ان ممالک سے آئے تارکین وطن کو رکھا جا رہا تھا، جن کو جرمنی میں پناہ ملنے کے امکانات کم تھے۔
دسمبر 2015
سال کے آخر تک جرمنی میں قریب ایک ملین مہاجرین اور تارکین وطن پناہ کے حصول کی خاطر پہنچ چکے تھے۔ مجموعی طور پر اسی برس مہاجرین کے رہائشی مراکز پر حملوں کے واقعات میں بھی اضافہ ہوا۔
سال نو کے موقع پر کولون میں خواتین کو جنسی طور پر حراساں کیے جانے کے واقعات کے بعد عوامی سطح پر میرکل کی مہاجر دوست پالیسیوں پر تنقید کا سلسلہ شروع ہو گیا۔ یہ ایک واقعہ جرمنی میں مہاجرین کے لیے ’خوش آمدیدی کلچر‘ میں نمایاں کمی کا سبب بھی بنا۔
بلقان کی متعدد ریاستوں نے مہاجرین کے لیے ملکی سرحدیں بند کر دیں جس کے بعد ان راستوں سے جرمنی پہنچنے والے تارکین وطن کی تعداد کم ہو گئی۔ جرمنی میں مہاجر مخالف سیاسی جماعت اے ایف ڈی پہلی مرتبہ تین وفاقی جرمن ریاستوں کی پارلیمان میں پہچنے میں کامیاب ہوئی۔ ترکی اور یورپی یونین کے مابین مہاجرین سے متعلق معاہدہ طے پایا۔
اپریل 2016
یورپی یونین کے ترکی کے ساتھ طے پانے والے منصوبے کے تحت یونان پہنچنے والے مہاجرین اور تارکین وطن کو واپس ترکی بھیجنے اور ہر شامی مہاجر کے بدلے ترکی میں موجود ایک شامی مہاجر کو قانونی طور پر یورپ آباد کرنے کا سلسلہ شروع کیا گیا۔
مئی 2016
یورپی یونین نے ایسے رکن ممالک کے خلاف جرمانہ عائد کرنے کے ایک منصوبے پر کام شروع کیا جو ’’مہاجرین کی منصفانہ تقسیم کے یورپی منصوبے‘‘ کے تحت یونان اور اٹلی میں موجود مہاجرین کو اپنے ہاں قبول کرنے سے انکار کر رہے تھے۔
جولائی 2016
انیس جولائی کے روز ایک نوجوان افغان تارک وطن نے ایک ٹرین میں سوار مسافروں پر خنجر اور کلہاڑی سے حملہ کر دیا جس میں بیس افراد زخمی ہوئے۔ پچیس جولائی کے روز آنسباخ شہر میں ایک شامی مہاجر نے خود کو دھماکا خیز مواد سے اڑا لیا جس میں بارہ افراد زخمی ہوئے۔
چودہ دسمبر کے روز جرمنی نے پہلی مرتبہ افغان تارکین وطن کو خصوصی طیارے میں سوار کر کے واپس افغانستان ملک بدر کرنے کا سلسلہ شروع کا۔
انیس دسمبر کو تیونس سے تعلق رکھنے والے تارک وطن نے برلن میں کرسمس مارکیٹ پر ٹرک سے حملہ کر دیا جس میں بارہ افراد ہلاک اور چھپن زخمی ہو گئے۔ بعد ازاں اطالوی شہر میلان میں حملہ آور خود بھی مارا گیا۔ اس حملے کے بعد ایک مرتبہ پھر جرمن چانسلر کی مہاجر دوست پالیسی تنقید کی زد میں آئی۔
مال بردار ٹرینوں میں چھپے مہاجرین کیسے پکڑے جاتے ہیں؟
01:50
This browser does not support the video element.
فروری 2017
جرمنی میں دہشت گردی کے ان واقعات کے بعد چانسلر میرکل نے پناہ کے مستر درخواست گزاروں، خصوصاﹰ افغان مہاجرین کی تیز تر ملک بدریوں کا منصوبہ پیش کیا۔
مارچ 2017
تین مارچ کے روز انگیلا میرکل نے تیونس کے ساتھ پندرہ سو تیونسی شہریوں کی وطن واپسی کے لیے ایک معاہدہ طے کیا۔
اگست 2017
گیارہ اگست کے روز اقوام متحدہ کے مہاجرین سے متعلق امور کے کمشنر فلیپو گرانڈی نے چانسلر میرکل سے ملاقات کی۔ جرمنی نے اقوام متحدہ کے مہاجرین سے متعلق اداروں کے لیے پچاس ملین یورو مختص کیے۔ میرکل نے بحیرہ روم میں فعال انسانوں کے اسمگلروں کو روکنے کے لیے تعاون کا اعلان بھی کیا۔
چانسلر میرکل نے اٹھائیس اگست کے روز یورپی اور افریقی ممالک کے رہنماؤں سے ملاقات کی جس میں ان خطوں سے یورپ کی جانب ہجرت کرنے والے افراد کو روکنے کے طریقہ کار پر گفتگو کی گئی۔
مہاجرین کے موجودہ بحران کے دوران ہزارہا پاکستانی بھی مغربی یورپ پہنچے ہیں۔ یونان سے ایک پاکستانی افتخار علی نے ہمیں کچھ تصاویر بھیجی ہیں، جو یورپ میں بہتر زندگی کے خواب اور اس کے برعکس حقیقت کے درمیان تضاد کی عکاس ہیں۔
تصویر: Iftikhar Ali
بہتر مستقبل کے خواب کی تعبیر، بیت الخلا کی صفائی
جو ہزاروں پاکستانی تارکین وطن اپنے گھروں سے نکلے، ان کی منزل جرمنی و مغربی یورپی ممالک، اور خواہش ایک بہتر زندگی کا حصول تھی۔ شاید کسی نے سوچا بھی نہ ہو گا کہ خطرناک پہاڑی اور سمندری راستوں پر زندگی داؤ پر لگانے کے بعد انہیں ایتھنز میں پناہ گزینوں کے ایک کیمپ میں بیت الخلا صاف کرنا پڑیں گے۔
تصویر: Iftikhar Ali
ایجنٹوں کے وعدے اور حقیقت
زیادہ تر پاکستانی صوبہ پنجاب سے آنے والے تارکین وطن کو اچھے مستقبل کے خواب انسانوں کی اسمگلنگ کرنے والے ایجنٹوں نے دکھائے تھے۔ جرمنی تک پہنچانے کے ابتدائی اخراجات پانچ لاکھ فی کس بتائے گئے تھے اور تقریباﹰ ہر کسی سے یہ پوری رقم پیشگی وصول کی گئی تھی۔ جب یہ پاکستانی شہری یونان پہنچے تو مزید سفر کے تمام راستے بند ہو چکے تھے۔ اسی وقت ایجنٹوں کے تمام وعدے جھوٹے اور محض سبز باغ ثابت ہوئے۔
تصویر: Iftikhar Ali
پاکستانیوں سے امتیازی سلوک کی شکایت
شام اور دیگر جنگ زدہ ممالک سے آنے والے تارکین وطن کو بلقان کی ریاستوں سے گزر کر جرمنی اور دیگر مغربی یورپی ممالک جانے کی اجازت ہے۔ یورپی حکومتوں کے خیال میں زیادہ تر پاکستانی شہری صرف اقتصادی وجوہات کی بنا پر ترک وطن کرتے ہیں۔ اسی لیے انہیں یورپ میں پناہ دیے جانے کے امکانات بہت کم ہوتے ہیں۔ لیکن اکثر پاکستانیوں کو شکایت ہے کہ یونان میں حکام ان سے نامناسب اور امتیازی سلوک روا رکھے ہوئے ہیں۔
تصویر: Iftikhar Ali
کیمپ میں رہنا ہے تو صفائی تم ہی کرو گے!
ایسے درجنوں پاکستانی تارکین وطن کا کہنا ہے کہ یونانی حکام نے مہاجر کیمپوں میں صفائی کا کام صرف انہی کو سونپ رکھا ہے۔ ان سے کہا گیا ہے کہ پاکستانی شہریوں کو بالعموم مہاجر کیمپوں میں رکھنے کی اجازت نہیں ہے تاہم انہیں وہاں عارضی قیام کی اجازت صرف اس شرط پر دی گئی ہے کہ وہاں صفائی کا کام صرف وہی کریں گے۔
تصویر: Iftikhar Ali
پردیس میں تنہائی، مایوسی اور بیماری
سینکڑوں پاکستانی تارکین وطن اپنے یونان سے آگے کے سفر کے بارے میں قطعی مایوس ہو چکے ہیں اور واپس اپنے وطن جانا چاہتے ہیں۔ ان میں سے متعدد مختلف ذہنی اور جسمانی بیماریوں میں بھی مبتلا ہو چکے ہیں۔ ایک یونانی نیوز ویب سائٹ کے مطابق گزشتہ ہفتے دو پاکستانی پناہ گزینوں نے خودکشی کی کوشش بھی کی تھی۔
تصویر: Iftikhar Ali
کم اور نامناسب خوراک کا نتیجہ
یونان میں پناہ کے متلاشی زیادہ تر پاکستانیوں کا کہنا ہے کہ مہاجر کیمپوں میں انہیں ملنے والی خوراک بہت کم ہوتی ہے اور اس کا معیار بھی ناقص ۔ ایسے کئی تارکین وطن نے بتایا کہ انہیں زندہ رہنے کے لیے روزانہ صرف ایک وقت کا کھانا ہی میسر ہوتا ہے۔ ان حالات میں اکثر افراد ذہنی پریشانیوں کے ساتھ ساتھ جسمانی طور پر لاغر اور بیماریوں کا شکار ہو چکے ہیں۔
تصویر: Iftikhar Ali
وطن واپسی کے لیے بھی طویل انتظار
بہت سے مایوس پاکستانی پناہ گزینوں کے لیے سب سے اذیت ناک مرحلہ یہ ہے کہ وہ اپنے پاس کوئی بھی سفری دستاویزات نہ ہونے کے باعث اب فوراﹰ وطن واپس بھی نہیں جا سکتے۔ ان کے بقول ایتھنز میں پاکستانی سفارت خانے کی جانب سے لازمی جانچ پڑتال کے بعد انہیں عبوری سفری دستاویزات جاری کیے جانے کا عمل انتہائی طویل اور صبر آزما ہے۔
تصویر: Iftikhar Ali
غریب الوطنی میں بچوں کی یاد
پاکستان کے ضلع گجرات سے تعلق رکھنے والا اکتالیس سالہ سجاد شاہ بھی اب واپس وطن لوٹنا چاہتا ہے۔ تین بچوں کے والد سجاد شاہ کے مطابق اسے اپنے اہل خانہ سے جدا ہوئے کئی مہینے ہو چکے ہیں اور آج اس کے مالی مسائل پہلے سے شدید تر ہیں۔ سجاد کے بقول مہاجر کیمپوں میں کھیلتے بچے دیکھ کر اسے اپنے بچے بہت یاد آتے ہیں اور اسی لیے اب وہ جلد از جلد واپس گھر جانا چاہتا ہے۔
تصویر: Iftikhar Ali
اجتماعی رہائش گاہ محض ایک خیمہ
دیگر ممالک سے تعلق رکھنے والے مہاجرین اور پناہ گزینوں کو یونانی حکام نے پختہ عمارات میں رہائش فراہم کی ہے جب کہ پاکستانیوں کو زیادہ تر عارضی قیام گاہوں کے طور پر زیر استعمال اجتماعی خیموں میں رکھا گیا ہے۔ یہ صورت حال ان کے لیے اس وجہ سے بھی پریشان کن ہے کہ وہ یورپ کی سخت سردیوں کے عادی نہیں ہیں۔
تصویر: Iftikhar Ali
جب انتظار کے علاوہ کچھ نہ کیا جا سکے
یونان میں ان پاکستانیوں کا کہنا ہے کہ وہ پاکستانی سفارت خانے کو اپنے لیے سفری دستاویزات کے اجراء کی درخواستیں دے چکے ہیں اور کئی مہینے گزر جانے کے بعد بھی اب تک انتظار ہی کر رہے ہیں۔ ایسے ایک پاکستانی شہری کے مطابق چند افراد نے بین الاقوامی ادارہ برائے مہاجرت سے بھی اپنی وطن واپسی میں مدد کی درخواست کی لیکن جواب ملا کہ واپسی کے لیے درکار سفری دستاویزات صرف پاکستانی سفارتی مراکز ہی جاری کر سکتے ہیں
تصویر: Iftikhar Ali
پناہ نہیں، بس گھر جانے دو
یونان میں بہت سے پاکستانی تارکین وطن نے اسلام آباد حکومت سے درخواست کی ہے کہ ان کی جلد از جلد وطن واپسی کے لیے عملی اقدامات کیے جائیں۔ ان افراد کا دعویٰ ہے کہ ایتھنز میں پاکستانی سفارت خانہ ’بار بار کے وعدوں کے باوجود کوئی مناسب مدد نہیں کر رہا‘۔ احسان نامی ایک پاکستانی تارک وطن نے ڈی ڈبلیو کو بتایا، ’’نہ ہم واپس جا سکتے ہیں اور نہ آگے، پس پچھتاوا ہے اور یہاں ٹائلٹس کی صفائی کا کام۔‘‘