مہاجرین کے لیے ’ناقص‘ سہولیات پر امدادی ڈاکٹروں کا احتجاج
عاطف بلوچ31 دسمبر 2015
سسلی میں مہاجرین کے لیے ’نامناسب‘ سہولیات کی وجہ سے ایم ایس ایف وہاں قائم مہاجرین کے ایک رجسٹریشن سینٹر پر تعینات اپنا عملہ واپس بلا رہا ہے۔ ایم ایس ایف نے کہا ہے کہ اطالوی حکومت نے اس کی گزارشات نظر انداز کر دی ہیں۔
تصویر: DW/D. Cupolo
اشتہار
خبر رساں ادارے ڈی پی اے نے بتایا ہے کہ بین الاقوامی میڈیکل چیرٹی ادارے ’ڈاکٹرز وِدآؤٹ بارڈرز‘ (ایم ایس ایف) نے اطالوی جزیرے سسلی پر تعینات اپنے عملے کو واپس بلانے کا فیصلہ کر لیا ہے۔
اس عالمی امدادی تنظیم کا عملہ سسلی میں قائم مہاجرین کی رجسٹریشن کے ایک سینٹر پر تعینات تھا تاہم تارکین وطن کے لیے ’نامناسب اور ناقص‘ سہولیات کے باعث اس ادارے نے احتجاجی طور پر وہاں سے اپنے کارکن واپس بلانے کا اعلان کیا ہے۔
ایم ایس ایف نے اس تناظر میں روم حکومت سے بارہا درخواست کی تھی کہ وہ وہاں کی ابتر صورتحال کو بہتر بنانے کے لیے اقدامات کرے، جسے ایم ایس ایف کے مطابق نظر انداز کر دیا گیا تھا۔ یوں اکتیس دسمبر بروز جمعرات ’ ڈاکٹرز وِدآؤٹ بارڈرز‘ نے اعلان کیا کہ وہ وہاں سے اپنا عملہ واپس بلا رہا ہے۔ تاہم یہ عالمی ادارہ اٹلی کے ایسے دیگر مراکز پر اپنا کام معمول کے مطابق جاری رکھے گا۔
’ایم ایس ایف‘ کی طرف سے یہ اعلان ایک ایسے وقت پر کیا گیا ہے جب سسلی کے جزیرے کے جنوب مشرقی کونے ’پوزالو‘ کو ’ہاٹ اسپاٹ‘ بنانے کا اعلان کیا گیا ہے۔ مختلف جزائر پر بنائے جانے والے ان ہاٹ اسپاٹ سینٹرز میں مہاجرین کی درخواستوں پر تیزی سے عمل کیا جاتا ہے۔ پوزالو میں قائم کیے جانے والے اس سینٹر میں وہاں جمع شدہ مہاجرین میں سے ایسے افراد کی شناخت کرنا ہو گی، جو اقتصادی مقاصد کی وجہ سے نقل مکانی کر رہے ہیں۔
اٹلی میں ایم ایس ایف مشن کے سربراہ اشٹیفانو ڈی کارلو نے ڈی پی اے سے گفتگو کرتے ہوئے کہا، ’’ہماری طرف سے متعدد مرتبہ مطالبہ کرنے کے باوجود روم حکومت نے سسلی میں قائم رجسٹریشن سینٹرز کی صورتحال بہتر بنانے کے لیے اقدامات نہیں کیے۔‘‘ انہوں نے کہا کہ جس طرح اور جن حالات میں ان جزائر پر پہنچنے والے مہاجرین کا استقبال کیا جاتا ہے، وہ انتہائی نامناسب ہیں۔ اس پر روم حکومت کی طرف سے فوری طور پر کوئی ردعمل ظاہر نہیں کیا گیا۔
موریا، دنیا کا ’بدترین مہاجر کیمپ‘
موریا بھی انہی رجسٹریشن مراکز میں سے ایک ہے۔ لمبی قطاروں، ابتر حالات اور بنیادی اشیا کی عدم موجودگی کے باعث موریا کو دنیا کا بدترین مہاجر کیمپ قرار جاتا ہے۔
تصویر: DW/D. Cupolo
حقیقی مہاجر کون ہے؟
لیسبوس پہنچتے ہی مہاجرین کو قومیت کے حوالے سے الگ الگ کر دیا جاتا ہے۔ شامی باشندوں کو ’تارا کیپی کیمپ‘ منتقل کیا جاتا ہے، جہاں زیادہ تر مہاجرین شلیٹر ہاؤسز میں رکھے جاتے ہیں۔ دیگر کو موریا کیمپ رکھا جاتا ہے۔ یہ سابقہ حراستی مرکز یونان کا پہلا ہاٹ سپاٹ رجسڑیشن کیمپ ہے، جہاں اقتصادی مقاصد کی خاطر نقل مکانی کرنے والوں کی رجسٹریشن کی جاتی ہے۔ یہاں زیادہ تر افراد کیمپوں یا درختوں کے نیچے ہی سوتے ہیں۔
تصویر: DW/D. Cupolo
بہت زیادہ رش، اہم اشیا کی قلت
اس مقام پر گنجائش سے زیادہ مہاجرین موجود ہیں۔ اس لیے یہاں تنازعات بھی جنم لیتے رہتے ہیں، جیسا کہ خوارک حاصل کرنے کی قطاروں کو توڑنے پر لڑائی۔ اقوام متحدہ کے مطابق اس کیمپ میں چار سو دس افراد کی گنجائش ہے جبکہ حقیقت میں وہاں دو تا چار ہزار افراد موجود ہوتے ہیں۔ اس کیمپ میں بنیادی اشیا کی قلت بھی ہے۔
تصویر: DW/D. Cupolo
خوراک کی کمی
ہالینڈ کے ایک امدادی ادارے کی بانی رومنا برونگرز کے بقول ان کا ادارہ اس کیمپ میں روزانہ ڈیڑھ ہزار افراد کے لیے کھانا پکاتا ہے، لیکن یہ کبھی بھی پورا نہیں ہوتا۔ وہ بتاتی ہیں کہ روز ہی کئی افراد بھوکے رہ جاتے ہیں۔ اس خاتون امدادی کارکن کا یہ بھی کہنا ہے کہ ان کا ادارہ ہرممکن کوشش کر رہا ہے لیکن مسائل زیادہ بڑے اور گھمبیر ہیں۔
تصویر: DW/D. Cupolo
کوڑے کرکٹ میں زندگی
رومنا برونگرز کا کہنا ہے کہ چھتیس رضاکاروں پر مشتمل ان کا گروہ اس کیمپ میں کوڑا کرکٹ کی صفائی اور بہتر نکاسی آب کی ذمہ داریاں نبھانے کی کوشش میں بھی ہے۔ وہ کہتی ہیں کہ اس کیمپ میں لوگ کوڑے کرکٹ میں ہی سو جاتے ہیں، ’’اس مقام کو صاف ستھرا رکھنا ناممکن ہے۔‘‘ وہ کہتی ہیں کہ حفظان صحت کی ناقص صورتحال کی وجہ سے وبائیں بھی پھوٹ سکتی ہیں۔
تصویر: DW/D. Cupolo
تحریک کا نہ ہونا
لیسبوس میں رضاکاروں کی رابطہ کمیٹی کے سربراہ فریڈ مورلٹ اس ابتر صورتحال کے لیے انتظامیہ کو ذمہ دار قرار دیتے ہیں۔ ان کے بقول پولیس اہلکار اس کیمپ کے انتظام کی ذمہ دار ہیں لیکن ان میں کچھ کرنے کے تحریک ہی نہیں اور کبھی کبھار تو وہ کام پر آتے ہی نہیں۔ مورلٹ بقول یوں یہاں پہلے سے موجود لوگوں کی رجسٹریشن نہیں ہو پاتی جبکہ مزید لوگ پہنچ جاتے ہیں۔
تصویر: DW/D. Cupolo
پاکستان سے ترکی تک ننگے پاؤں سفر
فیص اللہ (تصویر میں پنک شرٹ میں ملبوس) کے بقول انہوں نے پاکستان سے ترکی تک کا سفر بغیر جوتوں کے ننگے پاؤں ہی طے کیا۔ فیض اللہ کے دوست اسرار احمد (انتہائی دائیں) کے مطابق وہ اس کیمپ میں یونہی سوتے ہیں، بغیر کسی کمبل کے، ’’ہم ایسا اس لیے کر رہے ہیں تاکہ ہمارے بچے ہماری طرح زندگی بسر کرنے پر مجبور نہ ہوں۔‘‘
تصویر: DW/D. Cupolo
تعاون نہ ہونے کے برابر
امدادی ادارے ’ایکشن ایڈ‘ سے وابستہ قنسطنطینہ سِٹریکوا کی کوشش ہے کہ موسم سرما سے قبل اس کیمپ میں خواتین کے لیے شیلٹر ہاؤسز کا انتظام ہو جائے لیکن پولیس کی مداخلت کی وجہ سے یہ ممکن نہیں ہو پا رہا۔ انہوں نے بتایا کہ اس کیمپ کے باہر ایک کنٹینر پڑا ہے، جو رہائش کے لیے استعمال کیا جا سکتا ہے تاہم پولیس اسے اس کمیپ میں لانے کی اجازت نہیں دے رہی۔
تصویر: DW/D. Cupolo
فیصلہ کون کرے گا؟
بیس سالہ افغان شہری ارشد رحیمی کہتا ہے کہ طالبان کے ایک حملے میں اس کے باپ اور بہن کے کے قتل کے بعد اس کی ماں نے اسے افغانستان سے فرار ہونے پر مجبور کر دیا تھا۔ وہ کہتا ہے، ’’مجھے طالبان سے خطرہ لاحق ہے لیکن یہاں لوگ کہتے ہیں کہ میں اقتصادی مقاصد کے لیے نقل مکانی کر رہا ہوں۔‘‘ وہ اس الجھن میں سوال کرتا ہے کہ کون فیصلہ کرے گا کہ وہ مہاجر ہے یا نہیں؟
تصویر: DW/D. Cupolo
گوانتانامو بے جیسی صورتحال
لیسبوس میں رضاکاروں کی رابطہ کمیٹی کے سربراہ فریڈ مورلٹ اس مقام کو ایک حراستی کیمپ کے مترادف قرار دیتے ہیں، ’’باڑوں اور خار دار تاروں کے ساتھ یہ گوانتانامو کے حراستی کیمپ جیسا معلوم ہوتا ہے۔‘‘ انہوں نے مزید کہا کہ صرف موسم سرما کی وجہ سے ہی لوگ ہجرت کے عمل کو ترک نہیں کریں گے کیونکہ سردیوں میں سمندر قدرے پرسکون رہتے ہیں۔
تصویر: DW/D. Cupolo
’اللہ کے رحم و کرم پر اکیلا‘
افغان شہری یزمان یوسفی کے بقول ، ’’جب میں کشتی پر سوار ہو کر یہاں آ رہا تھا تو سمندر بیچ میں نے محسوس کیا کہ میں اللہ کے رحم وکرم پر ہوں۔‘‘ ایران میں بطور پناہ گزین زندگی بسر کر چکنے والے یوسفی نے مزید کہا کہ وہ اب بھی خود کو خدا کے ساتھ تنہا ہی محسوس کرتا ہے، ’’جیسے میں نے اس کشتی میں محسوس کیا تھا کہ اگر اللہ نے چاہا تو میں بچ جاؤں گا۔ اس کیمپ میں بھی زندگی بسر کرتے ہوئے بھی میری یہی سوچ ہے۔‘‘
تصویر: DW/D. Cupolo
10 تصاویر1 | 10
ڈی کارلوکے مطابق ان سینٹرز پر پہنچنے کے باوجود مہاجرین محفوظ نہیں ہوتے۔ انہوں نے مزید کہا کہ نومبر میں ایم ایس ایف نے اٹلی کی ایک پارلیمانی کمیٹی کے سامنے بھی اپنی سفارشات پیش کی تھیں تاہم اس کے بعد بھی نہ تو وفاقی اور نہ ہی مقامی سطح پر حکام نے اس ٹیم کی سفارشات پر کوئی کان دھرے۔
ایم ایس ایف کی ٹیم ان مقامات پر حکومتی طبی عملے کے ساتھ مل کر مہاجرین اور تارکین وطن کو بنیادی طبی امداد فراہم کر رہی ہے۔
’ڈاکٹرز وِدآؤٹ بارڈرز‘ نے سسلی میں ایسے سینٹرز بھی قائم کر رکھے ہیں، جہاں ذہنی صدمے سے دوچار مہاجرین اور تارکین وطن کو نفسیاتی مدد فراہم کی جاتی ہے۔
سن 2015 کے دوران کشیتوں کے ذریعے اٹلی پہنچنے والے مہاجرین کی تعداد ڈیرھ لاکھ کے قریب بنتی ہے۔ ان میں سے پندرہ ہزار افراد کو پوزالو میں قائم سینٹر پر رکھا گیا ہے۔ یہ سینٹر اتنے زیادہ مہاجرین کے لیے بہت چھوٹا ہے اور وہاں بنیادی سہولیات کا بھی شدید فقدان پایا جاتا ہے۔