مہاجرین کے لیے نیا جرمن لیبر قانون تنقید کی زد میں
7 جون 2019
جرمن ارکان پارلیمان کے منظور کردہ قانون کا مقصد یہ کہ تارکین وطن کے جرمن معاشرے میں انضمام کو آسان بنانا ہے لیکن ساتھ ہی سیاسی پناہ کے ناکام امیدواروں کی ملک بدری کی راہ بھی ہموار ہو گی۔
اشتہار
دانش مرزا 2015ء میں جرمنی آئے اور سیاسی پناہ کی درخواست جمع کرا دی۔ انہوں نے جرمن زبان سیکھی اور ایک ایسا بیڈمنٹن کلب کی رکنیت حاصل کر لی جس نے انہیں جرمنی میں زندگی گزارنے میں مدد فراہم کی۔ پاکستان میں اپنی نرسنگ ڈگری کی بدولت انہیں اسی شعبے میں مزید تربیت کا موقع ملا جس کے بعد انہیں ایک بزرگ افراد کے گھر میں مستقل ملازمت مل گئی۔ اب دو برس بعد دانش مرزا مزید تربیت حاصل کر کے باقاعدہ طور پر بزرگ افراد کے لیے نرسنگ کرنا چاہتے ہیں۔
جرمنی میں ملازمتیں، کس ملک کے تارکین وطن سر فہرست رہے؟
سن 2015 سے اب تک جرمنی آنے والے مہاجرین اور تارکین وطن میں سے اب ہر چوتھا شخص برسرروزگار ہے۔ پکچر گیلری میں دیکھیے کہ کس ملک کے شہری روزگار کے حصول میں نمایاں رہے۔
تصویر: DW/Aasim Saleem
شامی مہاجرین
گزشتہ تین برسوں کے دوران پناہ کی تلاش میں جرمنی آنے والے شامی مہاجرین کی تعداد سوا پانچ لاکھ سے زائد رہی۔ شامیوں کو جرمنی میں بطور مہاجر تسلیم کرتے ہوئے پناہ دیے جانے کی شرح بھی سب سے زیادہ ہے۔ تاہم جرمنی میں روزگار کے حصول میں اب تک صرف بیس فیصد شامی شہری ہی کامیاب رہے ہیں۔
تصویر: Delchad Heji
افغان مہاجرین
سن 2015 کے بعد سے اب تک جرمنی میں پناہ کی درخواستیں جمع کرانے والے افغان باشندوں کی تعداد ایک لاکھ نوے ہزار بنتی ہے۔ اب تک ہر چوتھا افغان تارک وطن جرمنی میں ملازمت حاصل کر چکا ہے۔
تصویر: DW/M. Hassani
اریٹرین تارکین وطن
افریقی ملک اریٹریا سے تعلق رکھنے والے چھپن ہزار سے زائد مہاجرین اس دوران جرمنی آئے، جن میں سے اب پچیس فیصد کے پاس روزگار ہے۔
تصویر: Imago/Rainer Weisflog
عراقی مہاجرین
اسی عرصے میں ایک لاکھ ساٹھ ہزار سے زائد عراقی بھی جرمنی آئے اور ان کی درخواستیں منظور کیے جانے کی شرح بھی شامی مہاجرین کے بعد دوسرے نمبر پر ہے۔ تاہم اب تک ایک چوتھائی عراقی تارکین وطن جرمنی میں ملازمتیں حاصل کر پائے ہیں۔
تصویر: picture alliance/dpa/W. Kastl
صومالیہ کے مہاجرین
افریقی ملک صومالیہ کے قریب سترہ ہزار باشندوں نے اس دورانیے میں جرمن حکام کو اپنی سیاسی پناہ کی درخواستیں جمع کرائیں۔ اب تک صومالیہ سے تعلق رکھنے والے پچیس فیصد تارکین وطن جرمنی میں نوکریاں حاصل کر چکے ہیں۔
تصویر: picture-alliance/dpa/P. Pleul
ایرانی تارکین وطن
ان تین برسوں میں قریب چالیس ہزار ایرانی شہری بھی بطور پناہ گزین جرمنی آئے۔ جرمنی کے وفاقی دفتر روزگار کی رپورٹ کے مطابق اب تک ان ایرانی شہریوں میں سے قریب ایک تہائی جرمنی میں ملازمتیں حاصل کر چکے ہیں۔
تصویر: DW/Aasim Saleem
نائجیرین تارکین وطن
افریقی ملک نائجیریا سے تعلق رکھنے والے پناہ گزینوں کو بھی جرمنی میں روزگار ملنے کی شرح نمایاں رہی۔ جرمنی میں پناہ گزین پچیس ہزار نائجیرین باشندوں میں سے تینتیس فیصد افراد کے پاس روزگار ہے۔
تصویر: DW/A. Peltner
پاکستانی تارکین وطن
جرمنی میں ملازمتوں کے حصول میں پاکستانی تارکین وطن سر فہرست رہے۔ سن 2015 کے بعد سیاسی پناہ کی تلاش میں جرمنی آنے والے قریب بتیس ہزار پاکستانی شہریوں میں سے چالیس فیصد افراد مختلف شعبوں میں نوکریاں حاصل کر چکے ہیں۔
تصویر: picture-alliance/dpa/J. Reinders
8 تصاویر1 | 8
دانش مرزا کو جرمنی کے شمال مشرقی شہر شویٹ کے ٹاؤن ہال میں جرمن چانسلر انگیلا میرکل سے ملاقات کا موقع ملا جس میں میرکل نے وعدہ کیا کہ وہ ہنر مند افراد کی سیاسی پناہ کے طریقہ کار کو بہتر کرنے کے لیے جلد قانون سازی کریں گی۔ اور آج جمعہ سات جون کو جرمن پارلیمنٹ نے ایک نئی پالیسی پیکج کو قانون کی شکل دے دی ہے۔
اس میں ’گے اورڈنیٹے- رؤک کہیر- گیزسٹس‘ بھی شامل ہے جس کا مطلب ہے ملک میں بسانے کا منظم قانون ۔ تاہم بہت سے قانونی ماہرین اور جرمنی کی لیفٹ پارٹی کے سیکرٹری جنرل ژؤرگ شنائیڈر کا کہنا ہے کہ یہ قانون غیر آئینی ہے۔ ان کا استدلال ہے کہ سیاسی پناہ کے متلاشیوں کو ملنے والی مراعات کا ان کی طرف سے حکام سے تعاون نہ کرنے کی صورت میں خاتمہ، یا ان کی ملک بدری سے قبل ہی انہیں حراست میں رکھنا اور باقاعدہ جیلوں میں رکھنے جیسے اقدامات دراصل جرمن آئین کی خلاف ورزی ہیں۔
اس قانونی پیکج میں ایک ایسا قانون بھی ہے جس کا مقصد ہنر مند غیر یورپی غیر ملکیوں کو جرمنی کی لیبر مارکیٹ کا حصہ بنانے کے عمل میں آسانی فراہم کرنا ہے۔ اس سے وہ لوگ بھی فائدہ اٹھا سکیں گے جنہوں نے سیاسی پناہ کی درخواست دے رکھی ہو اور وہ بھی جو کسی تیسرے ملک میں ورک ویزا کے لیے اپلائی کرتے ہیں۔
جرمنی: زیر تربیت مہاجرین کا تعلق ان ممالک سے ہے
گزشتہ برس مجموعی طور پر نو ہزار تین سو تارکین وطن کو مختلف جرمن کمپنیوں میں فنی تربیت (آؤس بلڈُنگ) کے حصول کی اجازت ملی۔ زیادہ تر مہاجرین کا تعلق مندرجہ ذیل ممالک سے ہے.
تصویر: D. Kaufmann
۱۔ افغانستان
افغانستان سے تعلق رکھنے والے 3470 مہاجرین اور تارکین وطن مختلف جرمن کمپنوں میں زیر تربیت ہیں۔
تصویر: DW/A. Grunau
۲۔ شام
جرمنی میں شامی مہاجرین تعداد کے حوالے سے پہلے نمبر پر ہیں، لیکن زیر تربیت مہاجرین کی تعداد محض ستائیس سو رہی، جو افغان پناہ گزینوں سے بھی کم ہے۔
تصویر: DW/Aasim Saleem
۳۔ عراق
ملک بھر کی مختلف کمپنیوں میں آٹھ سو عراقی مہاجرین تربیت حاصل کر رہے ہیں۔
تصویر: picture alliance/dpa/W. Kastl
۴۔ اریٹریا
افریقی ملک اریٹریا سے تعلق رکھنے والے سات سو دس تارکین وطن کو فنی تربیت کے حصول کے لیے جرمن کمپنیوں نے قبول کیا۔
تصویر: picture-alliance/dpa/F. Rumpenhorst
۵۔ ایران
جرمنی میں پناہ کے متلاشی ایرانیوں کی تعداد تو زیادہ نہیں ہے لیکن فنی تربیت حاصل کرنے والے ایرانی تارکین وطن تعداد (570) کے اعتبار سے پانچویں نمبر پر ہیں۔
تصویر: DW/R. Shirmohammadi
۶۔ پاکستان
چھٹے نمبر پر پاکستانی تارکین وطن آتے ہیں اور گزشتہ برس ساڑھے چار سو پاکستانی شہریوں کو جرمن کمپنیوں میں انٹرنشپ دی گئی۔
تصویر: DW/R. Fuchs
۷۔ صومالیہ
اس حوالے سے ساتواں نمبر صومالیہ کے تارکین وطن کا ہے۔ صومالیہ کے 320 تارکین وطن کو فنی تربیت فراہم کی گئی۔
تصویر: DW/A. Peltner
۸۔ نائجیریا
افریقی ملک نائجیریا سے تعلق رکھنے والے 280 پناہ گزینوں کو گزشتہ برس جرمنی میں فنی تربیت حاصل کرنے کا موقع ملا۔
تصویر: A.T. Schaefer
8 تصاویر1 | 8
مگر ایک امیگریشن ایکسپرٹ پروفیسر ہیلن شیونکن کا کہنا ہے کہ مختلف قوانین کا یہ پیکج ملا جلا پیغام دے رہا ہے: ’’ایک قانون اچھے طریقے سے تارکین وطن کو خوش آمدید کہہ رہا ہے تو ایک اور کا مطلب ہے کہ تارکین وطن کے لیے تربیت کا حصول یا کام کی اجازت حاصل کرنا مشکل بلکہ تقریباﹰ ناممکن بنا دیا جائے گا۔‘‘
جرمن چیمبر آف کامرس اینڈ انڈسٹری DIHK نے تاہم حکومت کی طرف سے سیاسی پناہ کے متلاشیوں کے حوالے سے قوانین کو آسان بنانے کی پارلیمانی کوشش کو سراہا ہے۔ کیونکہ اس وقت ملک میں چار لاکھ کے قریب سیاسی پناہ کے متلاشی جن کی اکثریت 2015ء میں جرمنی آئی تھی، اس وقت پیشہ ورانہ تربیت حاصل کر رہے ہیں یا پھر وہ ملازمت اختیار کر چکے ہیں۔ تاہم اس بات کے امکانات موجود ہیں کہ ان میں بعض لوگوں کو نئے قوانین کے تحت ملک بدر کر دیا جائے۔