پاپوا نیو گنی کے مانوس جزیرے پر واقع مہاجرین کے حراستی مرکز کی بندش میں چوبیس گھنٹے کی توسیع کر دی ہے۔ دوسری طرف آسٹریلیا میں ان مہاجرین کے حق میں احتجاجی ریلیوں کا اہتمام کیا جا رہا ہے۔
اشتہار
خبر رساں ادارے روئٹرز نے گیارہ نومبر بروز ہفتہ بتایا کہ پاپوا نیو گنی کے جزیرے مانوس پر قائم آسٹریلوی حکومت کے زیر انتظام مہاجر کیمپ کی بندش میں چوبیس گھنٹے کی توسیع کر دی گئی ہے۔ تاہم اس تاخیر کی وجہ نہیں بتائی گئی۔ روئٹرز نے اس کیمپ میں موجود تین مہاجرین کے حوالے سے بتایا ہے کہ پاپوا نیو گنی کے متعلقہ حکام نے انہیں کہا ہے کہ وہ اتوار تک اس کیمپ میں رہ سکتے ہیں۔
مانوس کے اس کیمپ میں گزشتہ چار سالوں سے مقیم عراقی مہاجر بہروز بوچانی نے روئٹرز کو بتایا کہ اس حراستی مرکز کے باہر موجود پولیس اہلکاروں نے مائیکروفون کے ذریعے یہ اعلان کیا کہ اس کیمپ میں موجود افراد مزید ایک دن وہاں رہ سکتے ہیں۔
اقوام متحدہ کی طرف سے شدید مذمت اور تحفظات کے باوجود پاپوا نیو گنی نے اس کیمپ کو بند کرنے کا فیصلہ کیا ہے۔ اس تناظر میں ملکی سپریم کورٹ بھی اس فیصلے کی حمایت کر چکی ہے۔
اکتیس اکتوبر کو مقامی حکومت نے مانوس میں واقع اس کیمپ کی بجلی اور پانی کا نظام منقطع کر دیے تھے۔ آسٹریلوی حکومت کا کہنا ہے کہ اس کیمپ میں موجود قریب چھ سو مہاجرین کے لیے نئے شیلٹر ہاؤس بنائے گئے ہیں تاہم یہ مہاجرین اس خوف میں مبتلا ہیں کہ اگر انہوں نے مانوس جزیرے پر واقع یہ کیمپ چھوڑا تو انہیں ملک بدر کیا جا سکتا ہے۔
ان مہاجرین کو یہ خدشات بھی لاحق ہیں کہ دیگر مہاجر کیمپوں میں منتقل ہونے پر سکیورٹی کی عدم موجودگی کے باعث مقامی آبادی انہیں تشدد کا نشانہ بھی بنا سکتی ہے۔
مانوس کے اس مہاجر شیلٹر ہاؤس میں موجود کچھ مہاجرین کا تعلق پاکستان سے بھی ہے۔ اس کے علاوہ افغانستان، ایران، میانمار، سری لنکا اور شام سے تعلق رکھنے والے باشندے بھی اس کیمپ میں موجود ہیں۔
ان میں سے کئی ایسے افراد بھی ہیں، جو کئی برسوں سے یہاں مقیم ہیں۔ ابتدائی طور پر ان کی کوشش تھی کہ وہ سمندری راستے کے ذریعے آسٹریلیا پہنچ جائیں۔ تاہم آسٹریلوی حکومت کی طرف سے سخت نگرانی کے باعث ایسا ممکن نہ ہو سکا اور ان مہاجرین کو پکڑ کر مانوس کے جزیرے پر قائم اس حراستی مرکز میں منتقل کر دیا گیا تھا۔
مانوس کے جزیرے پر مشکل حالات میں سکونت پذیر ان مہاجرین کی خاطر آسٹریلیا میں مظاہرے بھی کیے جا رہے ہیں۔ جمعے کے دن سڈنی کے نواح میں سابق وزیر اعظم ٹونی ایبٹ کے ایک فنڈ ریزنگ ایونٹ کے دوران مظاہرین نے نعرے لگائے کہ ‘مانوس کیمپ کو بند کرو اور مہاجرین کو آسٹریلیا لاؤ‘ اور ’تشدد بند کرو‘۔ اسی طرح ملبورن میں ایک احتجاجی مظاہرے کا اہتمام کیا گیا، جس کے نتیجے میں روزمرہ زندگی مفلوج ہو کر رہ گئی۔
پریشانی و آلام کے شکار معصوم فرشتے
اس برس عالمی یوم اطفال سے قبل شائد ہی اتنے بڑی تعداد میں بچوں نے جنگوں اور غربت سے فرار ہونے کی کوشش کی ہو۔
تصویر: Reuters/A. Sotunde
غیر یقینی مستقبل
عراق میں فعال انتہا پسند گروپ ’اسلامک اسٹیٹ‘ کی دہشت گردی سے بچنے کے لیے ہزاروں ایزدی بچے بھی رواں برس بے گھر ہو گئے۔ کوئی نہیں جانتا کہ یہ بچے کب واپس گھروں کو لوٹ سکیں گے۔ عراق سے متصل ترک سرحد پر واقع ایک کیمپ میں ایک ایزدی بچے کی آنکھوں میں بھی غیر یقینی کی جھلک نمایاں ہے۔
تصویر: picture-alliance/dpa
کھیلنے کے بجائے کام کاج
جرمنی میں مہاجرین کی اچانک آمد کے بعد اِن مہاجرین کو ہنگامی شیلٹر سینٹرز میں رکھا گیا ہے۔ جرمن صوبے باویریا کے ایک قصبے میں ایک بچہ رات کے لیے بستر بچھانے کی کوشش میں ہے۔ ان تنازعات نے بچوں سے ان کا پچپن بھی چھین لیا ہے۔
تصویر: picture-alliance/dpa/D. Ebener
بہتر مستقبل کے لیے پرامید
اگرچہ یہ بچی یونان اور مقدونیہ کے سرحدی علاقے میں پھنسی ہوئی ہے لیکن پھر بھی اس معصوم بچی کا عزم دیکھا جا سکتا ہے۔ گزشتہ کچھ ہفتوں کے دوران ہزاروں افراد اسی علاقے سے ہوتے ہوئے سربیا داخل ہونے میں کامیاب ہوئے، جن کی اگلی منزل ہنگری تھی۔
تصویر: picture-alliance/AP Photo/D. Vojinovic
تھکن سے بے دھت
کچھا کھچ بھری ٹرین، جو بوڈاپسٹ سے میونخ کے لیے رواں تھی، اس میں مہاجر بچوں کو جہاں جگہ ملی، وہیں سو گئے۔ براستہ بلقان مغربی یورپ پہنچنے کی کوشش میں یہ بہت تھک چکے تھے۔
تصویر: Getty Images/AFP/V. Simicek
جنگوں سے فرار کی کوشش
عرب ممالک میں غریب ترین تصور کیا جانے والا ملک یمن اس وقت شدید بحران کا شکار ہے۔ ہزاروں افراد اپنے بچوں اور املاک کے ساتھ وہاں جاری جنگ سے فرار کی کوشش میں ہیں۔ اس تنازعے میں ہزاروں افراد مارے جا چکے ہیں، جن میں بچوں کی ایک بڑی تعداد بھی شامل ہے۔
تصویر: Reuters/K. Abdullah
خوارک کے لیے قطاریں
عالمی مدد کے بغیر شام میں بہت سے افراد زندگی سے شکست کھا سکتے ہیں۔ یہ بچے بے صبری سے منتظر ہیں کہ انہیں کھانے کو کچھ مل جائے۔ اِدلب میں قائم ایک کیمپ میں شامی بچوں کے لیے خصوصی انتظامات کیے گئے ہیں۔
تصویر: picture alliance/abaca
جنگ سے امن تک
تنازعات سے بچ کر یورپ پہنچنے والے بچے اور بالغ افراد وہاں کے نئے نظام سے بھی کچھ پریشان ہیں۔ ٹکٹ کیسی خریدی جائے اور سفر کیسے کیا جائے، یہ بھی ان کے لیے ایک مسئلہ ہے۔ اس تصویر میں زیریں سیکسنی کے ٹرانسپورٹ منسٹر تھوماس ویبل کچھ بچوں کو ٹکٹ مشین استعمال کرنے کا طریقہ بتا رہے ہیں۔
تصویر: picture-alliance/dpa/H. Schmidt
آگے بڑھنا ہے
عالمی ادارہ برائے مہاجرت کے مطابق رواں سال افریقہ سے بحیرہ روم کے راستے یورپی ملک اٹلی پہنچنے والے مہاجرین کی تعداد ایک لاکھ اکیس ہزار بنتی ہے۔ اس کوشش میں چھبیس سو افراد مارے بھی گئے۔ اٹلی پہنچنے والے مہاجرین آگے شمالی یورپی ممالک جانا چاہتے ہیں، اس لیے ان بچوں کے لیے لامپے ڈوسا کا جزیرہ صرف ایک عارضی مقام ہے۔
تصویر: Reuters/A. Bianchi
بچوں کی توجہ بٹانے کی کوشش
اسکولوں کی سرگرمیوں کی وجہ سے بچوں کا دھیان بٹانے میں مدد مل سکتی ہے۔ یہ میانمار میں مہاجرین کا ایک کیمپ ہے، جہاں بے گھر ہونے والے روہنگیا مسلمانوں کے بچوں کے لیے ایک اسکول بھی قائم کیا گیا ہے۔ وہاں بچوں کے ذہنوں سے تشدد کے اثرات مٹانے کی کوشش بھی کی جاتی ہے۔
تصویر: picture-alliance/dpa/N. Win
بچوں کا فوجی مقاصد کے لیے استعمال
براعظم افریقہ کے بہت سے تنازعات میں بچوں کو بھی لڑنے کی تربیت دی جاتی رہی ہے۔ مشکل ہے کہ وہاں بچے اور نو عمر لڑکے ملیشیا گروہوں کے چنگل میں آنے سے بچ نہیں سکتے۔ وسطی افریقی جمہوریہ کے تنازعے میں بھی بچوں کو فوجی مقاصد کے لیے استعمال کیا جا رہا ہے۔
تصویر: Reuters/E. Braun
بوکو حرام کی تباہ کاریاں
انتہا پسند گروپ بوکو حرام نے بالخصوص شمالی نائجیریا اور ہمسایہ ممالک میں ایک دہشت قائم کر رکھی ہے۔ اقوام متحدہ کے ادارے یونیسف کے مطابق ان شدت پسندوں کی وجہ سے چودہ لاکھ بچے بے گھر ہو چکے ہیں۔ نائجیریا کے ایک مہاجر کیمپ میں بھوکے بچے تنازعات سے ماوراء ہو کر اپنی بھوک مٹانے کی کوشش میں ہے۔