مہاجرین کے معاملے پر یورپی انتخابات فیصلہ کن، اوربان
24 اکتوبر 2018
ہنگری کے وزیراعظم وکٹور اوربان نے کہا ہے کہ مہاجرین کا معاملہ یورپی انتخابات میں فیصلہ کن عوامی رائے کے اظہار کا موقع ہو گا۔
اشتہار
انہوں نے کہا کہ یورپی یونین کے رہنماؤں نے دانستہ طور پر بہت بڑی تعداد میں تارکین وطن کو یورپی یونین میں داخل ہونے سے روکنے میں کوتاہی برتی اور ان کا مقصد ایک ’یورپی سلطنت‘ کا قیام ہے، تاکہ اس بلاک میں شامل ریاست کو دبایا جا سکے۔ انہوں نے یورپی ووٹروں سے کہا کہ وہ ’عالم گیریت‘ کو مسترد کر دیں اور ’حب الوطنی‘ کا ساتھ دیں۔
1956 کے مختصر سوویت مخالف انقلاب کی یادگاری تقریب سے خطاب کرتے ہوئے اوربان نے کہا، ’’مئی میں یورپی پارلیمان کے انتخابات یہ طے کریں گے کہ یورپ کی گاڑی کس سمت میں سفر کرے گی۔ ہمیں عالم گیریت کے نظریے کو مسترد کر کے اس کی جگہ حب الوطنی کی ثقافت کو فروغ دینا چاہیے۔‘‘
انہوں نے اس تقریب سے خطاب میں یہ دعویٰ بھی کیا کہ تارکین وطن اب بھی یورپ کا رخ کر رہے ہیں اور ’یورپی شہری اپنے ہی خطے میں اقلیت‘ بن جائیں گے۔ انہوں نے کہا، ’’بڑے شہروں میں دہشت عام افراد کی زندگیوں کو حصہ بن جائے گی۔‘‘
انہوں نے یورپی رہنماؤں پر تنقید کرتے ہوئے کہا، ’’وہ جو یورپی یونین کے آڑ میں یورپی سلطنت قائم کرنا چاہتے ہیں، وہ بلاتخصیص تمام کے تمام تارکین وطن کے حامی ہیں۔‘‘
انہوں نے مزید کہا، ’’ان رہنماؤں نے جان بوجھ کر فوج یا پولیس کی قوت کا استعمال نہیں کیا، جس سے یورپ کو تارکین وطن کی اس بہت بڑی تعداد سے بچایا جا سکتا۔‘‘
انتہائی دائیں بازو کے یورپی رہنما اور سیاسی جماعتیں
سست اقتصادی سرگرمیاں، یورپی یونین کی پالیسیوں پر عدم اطمینان اور مہاجرین کے بحران نے کئی یورپی ملکوں کے انتخابات میں انتہائی دائیں بازو کی سیاسی جماعتوں کو کامیابی دی ہے۔
تصویر: picture-alliance/dpa
جرمن: فراؤکے پیٹری، الٹرنیٹو فار ڈوئچ لینڈ
جرمنی کی انتہائی دائیں بازو کی سیاسی جماعت الٹرنیٹو فار ڈوئچ لینڈ کی لیڈر فراؤکے پیٹری نے تجویز کیا تھا کہ جرمن سرحد کو غیرقانونی طریقے سے عبور کرنے والوں کے خلاف ہتھیار استعمال کیے جائیں۔ یہ جماعت جرمنی میں یورپی اتحاد پر شکوک کی بنیاد پر قائم ہوئی اور پھر یہ یورپی انتظامی قوتوں کے خلاف ہوتی چلی گئی۔ کئی جرمن ریاستوں کے انتخابات میں یہ پارٹی پچیس فیصد ووٹ حاصل کرنے میں کامیاب رہی۔
تصویر: Reuters/W. Rattay
فرانس: مارین لے پین، نیشنل فرنٹ
کئی حلقوں نے اس خدشے کا اظہار کیا کہ برطانیہ میں بریگزٹ اور امریکا میں ڈونلڈ ٹرمپ کی کامیابی سے انتہائی دائیں بازو کی فرانسیسی سیاسی جماعت کو مزید قوت حاصل ہو گی۔ سن 1972 میں قائم ہونے والے نیشنل فرنٹ کی قیادت ژاں ماری لے پین سے اُن کی بیٹی مارین لے پین کو منتقل ہو چکی ہے۔ یہ جماعت یورپی یونین اور مہاجرین کی مخالف ہے۔
تصویر: Reuters
ہالینڈ: گیئرٹ ویلڈرز، ڈچ پارٹی فار فریڈم
ہالینڈ کی سیاسی جماعت ڈچ پارٹی فار فریڈم کے لیڈر گیئرٹ ویلڈرز ہیں۔ ویلڈرز کو یورپی منظر پر سب سے نمایاں انتہائی دائیں بازو کا رہنما خیال کیا جاتا ہے۔ مراکشی باشندوں کے خلاف نفرت انگیز تقریر پر سن 2014 میں ویلڈرز پر ایک مقدمہ بھی درج کیا گیا تھا۔ اُن کی سیاسی جماعت یورپی یونین اور اسلام مخالف ہے۔ اگلے برس کے پارلیمانی الیکشن میں یہ کامیابی حاصل کر سکتی ہے۔
تصویر: picture-alliance/dpa/S. Koning
یونان: نکوس مِشالاولیاکوس، گولڈن ڈان
یونان کی فاشسٹ خیالات کی حامل سیاسی جماعت گولڈن ڈان کے لیڈر نکوس مِشالاولیاکوس ہیں۔ مِشالاولیاکوس اور اُن کی سیاسی جماعت کے درجنوں اہم اہلکاروں پر سن 2013 میں جرائم پیشہ تنظیم قائم کرنے کا مقدمہ بھی درج کیا گیا تھا اور وہ سن 2015 میں حراست میں بھی لیے گئے تھے۔ سن 2016 کے پارلیمانی الیکشن میں ان کی جماعت کو 16 نشستیں حاصل ہوئیں۔ گولڈن ڈان مہاجرین مخالف اور روس کے ساتھ دفاعی معاہدے کی حامی ہے۔
تصویر: Angelos Tzortzinis/AFP/Getty Images
ہنگری: گَبور وونا، ژابِک
ہنگری کی انتہائی دائیں بازو کی سیاسی جماعت ژابِک کے بارے میں خیال کیا جاتا ہے کہ وہ سن 2018 کے انتخابات جیت سکتی ہے۔ اس وقت یہ ملک کی تیسری بڑی سیاسی جماعت ہے۔ سن 2014 کے پارلیمانی الیکشن میں اسے بیس فیصد ووٹ ملے تھے۔ یہ سیاسی جماعت جنسی تنوع کی مخالف اور ہم جنس پرستوں کو ٹارگٹ کرتی ہے۔ اس کے سربراہ گَبور وونا ہیں۔
تصویر: picture alliance/dpa
سویڈن: ژیمی آکسن، سویڈش ڈیموکریٹس
ڈونلڈ ٹرمپ کے الیکشن کے بعد سویڈش ڈیموکریٹس کے لیڈر ژیمی آکسن نے ایک انٹرویو میں کہا تھا کہ یورپ اور امریکا میں ایسی تحریک موجود ہے جو انتظامیہ کے لیے چیلنج کی حیثیت رکھتی ہے۔ سویڈش ڈیموکریٹس بھی مہاجرین کی آمد کو محدود کرنے کے علاوہ ترکی کی یورپی یونین میں شمولیت کی مخالف ہے۔ یہ پارٹی یورپی یونین کی رکنیت پر بھی عوامی ریفرنڈم کا مطالبہ رکھتی ہے۔
تصویر: AP
آسٹریا: نوربیرٹ، فریڈم پارٹی
نوربیرٹ ہوفر آسٹریا کی قوم پرست فریڈم پارٹی کے رہنما ہیں اور وہ گزشتہ برس کے صدارتی الیکشن میں تیس ہزار ووٹوں سے شکست کھا گئے تھے۔ انہیں گرین پارٹی کے سابق لیڈر الیگزانڈر فان ڈیئر بیلن نے صدارتی انتخابات میں شکست دی تھی۔ ہوفر مہاجرین کے لیے مالی امداد کو محدود اور سرحدوں کی سخت نگرانی کے حامی ہیں۔
سلوواکیہ کی انتہائی قدامت پسند سیاسی جماعت پیپلز پارٹی، ہمارا سلوواکیہ ہے۔ اس کے لیڈر ماریان کوتلیبا ہیں۔ کوتلیبا مہاجرین مخالف ہیں اور اُن کے مطابق ایک مہاجر بھی بہت زیادہ ہوتا ہے۔ انہوں نے مغربی دفاعی اتحاد نیٹو کو ایک مرتبہ جرائم پیشہ تنظیم بھی قرار دیا تھا۔ یہ یورپی یونین کی مخالف ہے۔ گزشتہ برس کے انتخابات میں اسے آٹھ فیصد ووٹ ملے تھے۔ پارلیمان میں چودہ نشستیں رکھتی ہے۔
تصویر: picture-alliance/dpa
8 تصاویر1 | 8
واضح رہے کہ سن 2015 سے وکٹور اوربان مہاجرین کے خلاف سخت اور متنازعہ بیانات دیتے آئے ہیں اور یہ معاملہ ان کے ہاں ایک بنیادی سیاسی موقف بن چکا ہے۔ اسی تناظر میں رواں برس اپریل میں ہونے والے انتخابات میں ان کی جماعت نے پارلیمان میں دو تہائی اکثریت بھی حاصل کی تھی۔
یہ بات اہم ہے کہ ہنگری ان چند یورپی ممالک میں شامل ہے، جو یورپی کمیشن کے اس منصوبے کو یک سر مسترد کرتا ہے، جس کے تحت مہاجرین سے زیادہ متاثرہ ممالک یونان اور اٹلی کا بوجھ بانٹنے کے لیے مہاجرین کی دیگر یورپی ریاستوں میں آباد کاری کا کہا گیا تھا۔