بچوں کے حقوق کے لیے سرگرم اداروں نے یورپی کمیشن کے اس منصوبے کو سراہا ہے، جس میں کہا گیا ہے کہ ایسے مہاجر بچوں کو خصوصی توجہ دی جانا چاہیے، جو اکیلے ہی یورپ پہنچنے ہیں یا اس سفر کے دوران وہ اپنے عزیزوں سے بچھڑ چکے ہیں۔
اشتہار
یورپی کمیشن نے رکن ریاستوں پر زور دیا ہے کہ وہ مہاجر بچوں کے تحفظ کو یقینی بنانے کے لیے زیادہ اقدامات اٹھائیں۔ بالخصوص ایسے بچوں کے لیے جو اکیلے ہی مہاجرت کا سفر کرتے ہوئے یورپ پہنچ رہے ہیں۔
بارہ اپریل کو یورپی کمیشن نے ایک منصوبہ پیش کیا، جس میں یورپی یونین کی رکن ریاستوں سے مطالبہ کیا گیا ہے کہ مہاجرت کے بحران میں کم سن اور نو عمر تارکین وطن کو تنہا نہیں چھوڑنا چاہیے۔
خبر رساں ادارے ڈی پی اے نے نے بتایا ہے کہ یورپی کمیشن نے رکن ریاستوں میں پہنچنے والے مہاجر بچوں کو زیادہ تحفظ فراہم کرنے کی ضرورت پر زور دیا ہے تاکہ ایسے بچے غلط ہاتھوں میں نہ چلے جائیں۔
معلوم اعدادوشمار کے مطابق اس وقت مہاجرت کا سفر اختیار کر کے یورپ پہنچنے والے ہر تین پناہ کے متلاشی افراد میں سے ایک بچہ ہے۔
یورپی کمیشن کا کہنا ہے کہ بڑی تعداد میں یورپ کی طرف ہجرت کرنے والے نو عمر اور بچوں کے استحصال کے امکانات زیادہ ہیں۔ اقوام متحدہ اور انسانی حقوق کے متعدد ادارے بھی خبردار کر چکے ہیں کہ ان مہاجر بچوں کے ساتھ زیادتی کے علاوہ ان کے لاپتہ ہو جانے یا انہیں شدت پسندی کی طرف مائل کیے جانے کے امکانات زیادہ ہیں۔ اسی لیے یورپی ممالک کی کوشش ہے کہ مسلح و سیاسی تنازعات سے فرار ہونے والے بچوں کو خصوصی توجہ دی جائے۔
اسی تناظر میں یورپی کمیشن نے کئی اقدامات تجویز کیے ہیں۔ ان میں بچوں کے لیے مناسب استقبالیہ مراکز کے علاوہ یہ تجویز بھی شامل ہے کہ انہیں حراستی مراکز میں نہ رکھا جائے۔
شامی مہاجر بچے زندگی کس طرح گزار رہے ہيں؟
شامی خانہ جنگی کے سبب اپنا گھر بار چھوڑنے والے قريب 4.8 ملين افراد ميں نصف سے زائد تعداد بچوں کی ہے۔ يورپ اور مشرق وسطیٰ کے مختلف ممالک میں قائم مہاجر کيمپوں ميں پرورش پانے والے ان بچوں کو متعدد مسائل کا سامنا ہے۔
بے بسی اور معصوميت کا ملاپ
شمالی يونانی شہر اڈومينی کے قريب مقدونيہ اور يونان کی سرحد پر ايک بچہ ريلوے ٹريک پر کھيل رہا ہے۔ بلقان روٹ کی بندش کے بعد اڈومينی کے مہاجر کيمپ ميں ہزاروں مہاجرين پھنس گئے ہيں۔ اقوام متحدہ اور کئی امدادی تنظيموں کی جانب سے بارہا خبردار کيا جا رہا ہے کہ علاقے ميں مسلسل بارشوں اور سرد موسم کے سبب حالات انتہائی خراب ہيں اور بچوں ميں کئی اقسام کی بيمارياں پيدا ہونے کے امکانات کافی زيادہ ہيں۔
تصویر: Getty Images/AFP/L. Gouliamaki
پيٹ کی خاطر
يونان اور مقدونيہ کی سرحد پر ايک شامی بچہ روٹی ليے بھاگ رہا ہے۔ ايتھنز حکومت بارہا تنبيہ کر چکی ہے کہ بلقان روٹ کی بندش کے سبب يونان ميں اڈومينی کے مقام پر پھنسے ہوئے پناہ گزينوں کی تعداد ايک لاکھ تک پہنچ سکتی ہے۔ ايسے ميں کھانے پيشے کی اشياء کی خاطر لڑائی جھگڑے عام ہيں۔
تصویر: Getty Images/AFP/D. Dilkoff
بے بسی اور بد حالی کی تصوير
لبنان کے دارالحکومت بيروت کے نواح ميں ايک مہاجر خاتون سڑک کے کنارے بيٹھ کر اپنے بچوں کے ساتھ کھيل رہی ہے۔ لبنان ميں تقريباً ايک اعشاريہ دو ملين سے زائد پناہ گزين مقيم ہيں، جن ميں بچوں کی شرح 53 فيصد ہے۔ سيو دا چلڈرن نامی ادارے کے مطابق لبنان ميں 313,000 بچوں کو انسانی بنيادوں پر فوری مدد درکار ہے۔
تصویر: Getty Images/AFP/K. Mazraawi
بے يار و مددگار
استنبول کے قريب موٹر وے پر حکام کی جانب سے روکے جانے پر ايک غير قانونی تارک وطن کے ہاتھوں ميں بچہ بے ساختہ رو پڑا۔ گزشتہ برس ستمبر کے بعد مہاجرين کے بحران کے عروج پر ہزاروں تارکين وطن استنبول سے اڈيرن شہر کی جانب پيش قدمی کيا کرتے تھے۔ یورپ میں تارکین وطن کا بحران شروع ہونے کے بعد پہلی مرتبہ ایسا ہوا ہے کہ یونان سے مقدونیہ آنے والے پناہ گزینوں میں عورتوں اور بچوں کی تعداد مردوں سے زیادہ ہو گئی ہے۔
تصویر: Reuters/O. Orsal
ايک خواب جو پورا نہ ہو سکا
ترک شہر استنبول ميں شامی بچوں کے ليے ايک اسکول۔ اگرچہ ترکی ميں ہزارہا شامی بچے اسکول جا رہے ہيں تاہم اب بھی لاکھوں کو يہ بنيادی سہولت ميسر نہيں۔ اقوام متحدہ کی بچوں سے متعلق ايجنسی نے اسی ہفتے جاری کردہ اپنی ايک رپورٹ ميں انکشاف کيا ہے کہ اس وقت تقريباً تين ملين شامی بچے تعلیم کی سہولت سے محروم ہيں۔
تصویر: DW/K. Akyol
ہر حال ميں گزارا
اس تصوير ميں ايک شامی تارک وطن خاتون اپنے بچوں کے ہمراہ بيٹھے کھانا پکا رہی ہے۔ لبنان ميں جبل الشوف کے پہاڑی سلسلے کے قريب واقع کترمایا نامی گاؤں ميں شامی پناہ گزينوں کا ايک کيمپ قائم ہے۔ پس منظر ميں برفباری ديکھی جا سکتی ہے۔
تصویر: picture-alliance/AP Photo/Mohammed Zaatari
ہر دن ايک نئی صبح
شامی شہر کوبانی سے تعلق رکھنے والے کرد مہاجرين کے بچے عارضی خيمے لگا رہے ہيں۔ آئی او ایم کے مطابق جنوری کے مہینے میں بحیرہ ایجیئن میں ڈوبنے والے ہر پانچ تارکین وطن میں سے ایک شیر خوار بچہ تھا۔ جنوری کے مہینے ميں ترکی سے یونان جانے کی کوششوں کے دوران 272 مہاجرین ڈوب کر ہلاک ہو گئے تھے جن میں 60 بچے بھی شامل ہیں۔
تصویر: Getty Images/K. Cucel
مہاجرين کی صفوں ميں شامل تنہا بچے
جرمن دارالحکومت برلن کے ايک اسکول کے اسپورٹس ہال ميں قائم مہاجر کيمپ کا ايک منظر، جہاں ايک بچہ بستروں کے سامنے کھڑا ہوا ہے۔ گزشتہ برس جرمنی پہنچنے والے تارکين وطن ميں ستر ہزار کے لگ بھگ تنہا بچے بھی شامل تھے۔
تصویر: picture alliance/dpa/S. Kahnert
مہاجرين ميں کتنے بچے شامل
پچھلے چند مہينوں کے دوران يورپ پہنچنے والے تارکين وطن ميں مردوں، عورتوں اور بچوں کی تعداد کیا تھی۔
9 تصاویر1 | 9
یورپی کمیشنر برائے انصاف، صارفین اور صنفی برابری ویرا ژُوروفا کے مطابق ایسے مہاجر بچے جو تنہا ہیں، انہیں فوری طور پر یورپی ممالک میں مقیم ان کے گھر والوں یا قریبی رشتہ داروں کے حوالے کر دینا چاہیے۔
بچوں کے حقوق کے لیے سرگرم متعدد اداروں نے یورپی کمیشن کے اس منصوبے کو سراہا ہے۔ ان اداروں کا کہنا ہے کہ مہاجرت کے بحران میں بالخصوص بچوں کے حوالے سے ایسے اقدامات پہلے ہی کر لینا چاہیے تھے۔