'مہاجر بچوں کی فیملی ری یونین کا عمل تیز کیا جائے‘
صائمہ حیدر انفو میگرانٹ
10 نومبر 2017
تنہا جرمنی آنے والے نابالغ مہاجرین کے لیے جرمن وفاقی ادارے اور یونیسف جرمنی کے اشتراک سے تیار کردہ اہم نوعیت کی ایک رپورٹ میں فیملی ری یونین کے راستے میں حائل ضرورت سے زیادہ سیاسی اور دفتری رکاوٹوں پر تنقید کی گئی ہے۔
اشتہار
مہاجرین کی خبروں کی یورپی ویب سائٹ انفو میگرانٹ کے مطابق بغیر سرپرست کے تارکین وطن بچوں کے لیے کام کرنے والے جرمن ادارے ’بمف‘ اور جرمنی میں بچوں کی بہبود کے عالمی ادارے یونیسف نے اپنی اس رپورٹ میں کہا ہے کہ نا بالغ مہاجرین کا اپنے خاندانوں کے ساتھ ملنا بہت اہمیت کا حامل ہے۔
'چلڈرن نِیڈ دِیئر فیملیز‘ کے عنوان سے شائع ہونے والی اس دستاویز میں اقوام متحدہ کے کنونشن برائے حقوق ِاطفال کا حوالہ دیتے ہوئے واضح طور پر کہا گیا ہے کہ بچوں کی مناسب دیکھ بھال صرف اُن کے خاندان کے ساتھ رہنے سے ہی ممکن ہے۔
رپورٹ میں بغیر کسی سرپرست کے جرمنی آنے والے ہزاروں مہاجر بچوں کے لیے اُن کے خاندانوں سے ملاپ ہی اُن کی فلاح و بہبود کا واحد راستہ قرار دیا گیا ہے۔ ریسرچ اور حقائق پر مبنی اس رپورٹ میں مہاجرین کے حوالے سے سخت قوانین کو تنقید کا نشانہ بھی بنایا گیا ہے جو پناہ گزین بچوں پر بھی لاگو کیے جاتے ہیں۔
سترہ صفحات پر مشتمل اس رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ بغیر والدین یا کسی سرپرست کے جرمنی پہنچنے والے مہاجر بچوں میں سے اکثریت ایسے بچوں کی ہے جو چلے تو اپنے والدین کے ساتھ تھے لیکن راستے میں کہیں بچھڑ گئے یا پھر تمام سفر کے دوران کسی وجہ سے ایک ساتھ نہیں رہے۔
ان دستاویز میں ایک تحقیقی جائزے کا حوالہ بھی دیا گیا ہے جس کے مطابق مہاجر بچے اپنے خاندانوں کی خیریت اور اُن کا پتہ نہ ملنے سے اپنی زندگیوں میں ذہنی اور جذباتی استحکام حاصل نہیں کر پا رہے۔ بمف کے ایڈم نابر کے مطابق ،’’ اپنے خاندانوں سے دور رہنے والے یہ پناہ گزین بچے ناامیدی اور بے چینی کے احساسات سے نبرد آزما رہتے ہیں۔‘‘
رپورٹ میں اس بات پر زور دیا گیا ہے کہ اقوام متحدہ کے بچوں کے حقوق کے کنونشن کے مطابق جرمنی، یورپ اور بین الاقوامی قوانین میں نابالغوں کی بہبود کی خاطر خاندانی اکائی کو خاص تحفظ دیا جانا چاہیے۔
شامی مہاجر بچے زندگی کس طرح گزار رہے ہيں؟
شامی خانہ جنگی کے سبب اپنا گھر بار چھوڑنے والے قريب 4.8 ملين افراد ميں نصف سے زائد تعداد بچوں کی ہے۔ يورپ اور مشرق وسطیٰ کے مختلف ممالک میں قائم مہاجر کيمپوں ميں پرورش پانے والے ان بچوں کو متعدد مسائل کا سامنا ہے۔
بے بسی اور معصوميت کا ملاپ
شمالی يونانی شہر اڈومينی کے قريب مقدونيہ اور يونان کی سرحد پر ايک بچہ ريلوے ٹريک پر کھيل رہا ہے۔ بلقان روٹ کی بندش کے بعد اڈومينی کے مہاجر کيمپ ميں ہزاروں مہاجرين پھنس گئے ہيں۔ اقوام متحدہ اور کئی امدادی تنظيموں کی جانب سے بارہا خبردار کيا جا رہا ہے کہ علاقے ميں مسلسل بارشوں اور سرد موسم کے سبب حالات انتہائی خراب ہيں اور بچوں ميں کئی اقسام کی بيمارياں پيدا ہونے کے امکانات کافی زيادہ ہيں۔
تصویر: Getty Images/AFP/L. Gouliamaki
پيٹ کی خاطر
يونان اور مقدونيہ کی سرحد پر ايک شامی بچہ روٹی ليے بھاگ رہا ہے۔ ايتھنز حکومت بارہا تنبيہ کر چکی ہے کہ بلقان روٹ کی بندش کے سبب يونان ميں اڈومينی کے مقام پر پھنسے ہوئے پناہ گزينوں کی تعداد ايک لاکھ تک پہنچ سکتی ہے۔ ايسے ميں کھانے پيشے کی اشياء کی خاطر لڑائی جھگڑے عام ہيں۔
تصویر: Getty Images/AFP/D. Dilkoff
بے بسی اور بد حالی کی تصوير
لبنان کے دارالحکومت بيروت کے نواح ميں ايک مہاجر خاتون سڑک کے کنارے بيٹھ کر اپنے بچوں کے ساتھ کھيل رہی ہے۔ لبنان ميں تقريباً ايک اعشاريہ دو ملين سے زائد پناہ گزين مقيم ہيں، جن ميں بچوں کی شرح 53 فيصد ہے۔ سيو دا چلڈرن نامی ادارے کے مطابق لبنان ميں 313,000 بچوں کو انسانی بنيادوں پر فوری مدد درکار ہے۔
تصویر: Getty Images/AFP/K. Mazraawi
بے يار و مددگار
استنبول کے قريب موٹر وے پر حکام کی جانب سے روکے جانے پر ايک غير قانونی تارک وطن کے ہاتھوں ميں بچہ بے ساختہ رو پڑا۔ گزشتہ برس ستمبر کے بعد مہاجرين کے بحران کے عروج پر ہزاروں تارکين وطن استنبول سے اڈيرن شہر کی جانب پيش قدمی کيا کرتے تھے۔ یورپ میں تارکین وطن کا بحران شروع ہونے کے بعد پہلی مرتبہ ایسا ہوا ہے کہ یونان سے مقدونیہ آنے والے پناہ گزینوں میں عورتوں اور بچوں کی تعداد مردوں سے زیادہ ہو گئی ہے۔
تصویر: Reuters/O. Orsal
ايک خواب جو پورا نہ ہو سکا
ترک شہر استنبول ميں شامی بچوں کے ليے ايک اسکول۔ اگرچہ ترکی ميں ہزارہا شامی بچے اسکول جا رہے ہيں تاہم اب بھی لاکھوں کو يہ بنيادی سہولت ميسر نہيں۔ اقوام متحدہ کی بچوں سے متعلق ايجنسی نے اسی ہفتے جاری کردہ اپنی ايک رپورٹ ميں انکشاف کيا ہے کہ اس وقت تقريباً تين ملين شامی بچے تعلیم کی سہولت سے محروم ہيں۔
تصویر: DW/K. Akyol
ہر حال ميں گزارا
اس تصوير ميں ايک شامی تارک وطن خاتون اپنے بچوں کے ہمراہ بيٹھے کھانا پکا رہی ہے۔ لبنان ميں جبل الشوف کے پہاڑی سلسلے کے قريب واقع کترمایا نامی گاؤں ميں شامی پناہ گزينوں کا ايک کيمپ قائم ہے۔ پس منظر ميں برفباری ديکھی جا سکتی ہے۔
تصویر: picture-alliance/AP Photo/Mohammed Zaatari
ہر دن ايک نئی صبح
شامی شہر کوبانی سے تعلق رکھنے والے کرد مہاجرين کے بچے عارضی خيمے لگا رہے ہيں۔ آئی او ایم کے مطابق جنوری کے مہینے میں بحیرہ ایجیئن میں ڈوبنے والے ہر پانچ تارکین وطن میں سے ایک شیر خوار بچہ تھا۔ جنوری کے مہینے ميں ترکی سے یونان جانے کی کوششوں کے دوران 272 مہاجرین ڈوب کر ہلاک ہو گئے تھے جن میں 60 بچے بھی شامل ہیں۔
تصویر: Getty Images/K. Cucel
مہاجرين کی صفوں ميں شامل تنہا بچے
جرمن دارالحکومت برلن کے ايک اسکول کے اسپورٹس ہال ميں قائم مہاجر کيمپ کا ايک منظر، جہاں ايک بچہ بستروں کے سامنے کھڑا ہوا ہے۔ گزشتہ برس جرمنی پہنچنے والے تارکين وطن ميں ستر ہزار کے لگ بھگ تنہا بچے بھی شامل تھے۔
تصویر: picture alliance/dpa/S. Kahnert
مہاجرين ميں کتنے بچے شامل
پچھلے چند مہينوں کے دوران يورپ پہنچنے والے تارکين وطن ميں مردوں، عورتوں اور بچوں کی تعداد کیا تھی۔