'مہاجر بچوں کے تعلیمی انضمام کے لیے زیادہ کوششیں کی جائیں‘
20 نومبر 2018
اقوام متحدہ کا کہنا ہے کہ تارکین وطن کو پناہ دینے والے ممالک مہاجر بچوں کو اپنے سرکاری تعلیمی نظام میں ضم کرنے کے لیے خاطر خواہ اقدامات نہیں اٹھا رہے۔ ادارے کے مطابق اس ضمن میں جرمنی کو بھی ہزاروں نئے اساتذہ کی ضرورت ہے۔
اشتہار
اقوام متحدہ کے ثقافتی ادارے یونیسکو کی جانب سے جرمن دارالحکومت برلن میں جاری کردہ ایک رپورٹ میں انتباہ کیا گیا ہے کہ ابھی تک بے شمار مہاجر بچے مناسب تعلیم سے محروم ہیں۔
'مائیگریشن، منتقلی اور تعلیم‘ کے عنوان سے عالمی سطح پر تعلیم سے متعلق سن 2019 کی مانیٹرنگ رپورٹ سے پتہ چلتا ہے کہ جرمنی میں مہاجرین کے بچوں کے تعلیمی اور سماجی انضمام کے لیے تربیت یافتہ ٹیچرز اور رقوم کی کمی ہے۔
رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ ترک وطن کرنے والے افراد کی نصف تعداد اٹھارہ سال سے کم عمر کی حامل ہے۔ اس کی وجہ غالباﹰ یہ ہے کہ عموماﹰ یہ بچے اس ملک کے تعلیمی نظام تک رسائی حاصل نہیں کر پاتے جہاں یہ پناہ لیے ہوتے ہیں۔ عام طور پر اوسطاﹰ کم یا درمیانی آمدن والے شہریوں کی اکثریت کے حامل ممالک مہاجرین کی میزبانی کرتے ہیں لیکن ان کے پاس اکثر ان بچوں کے مناسب تعلیمی بندوبست کے لیے سرمایے کی کمی ہوتی ہے۔
اقوام متحدہ کی مانیٹرنگ رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ تعلیم کے حصول میں تدریسی عملے کی کمی بھی رکاوٹیں پیدا کرتی ہے۔ اقتصادی طور پر مضبوط ملک جرمنی کو بھی اپنے ہاں موجود مہاجر بچوں کو مناسب طور سے تعلیم دینے کے لیے قریب بیالیس ہزار اساتذہ کی ضرورت ہے۔
شامی مہاجر بچے زندگی کس طرح گزار رہے ہيں؟
شامی خانہ جنگی کے سبب اپنا گھر بار چھوڑنے والے قريب 4.8 ملين افراد ميں نصف سے زائد تعداد بچوں کی ہے۔ يورپ اور مشرق وسطیٰ کے مختلف ممالک میں قائم مہاجر کيمپوں ميں پرورش پانے والے ان بچوں کو متعدد مسائل کا سامنا ہے۔
بے بسی اور معصوميت کا ملاپ
شمالی يونانی شہر اڈومينی کے قريب مقدونيہ اور يونان کی سرحد پر ايک بچہ ريلوے ٹريک پر کھيل رہا ہے۔ بلقان روٹ کی بندش کے بعد اڈومينی کے مہاجر کيمپ ميں ہزاروں مہاجرين پھنس گئے ہيں۔ اقوام متحدہ اور کئی امدادی تنظيموں کی جانب سے بارہا خبردار کيا جا رہا ہے کہ علاقے ميں مسلسل بارشوں اور سرد موسم کے سبب حالات انتہائی خراب ہيں اور بچوں ميں کئی اقسام کی بيمارياں پيدا ہونے کے امکانات کافی زيادہ ہيں۔
تصویر: Getty Images/AFP/L. Gouliamaki
پيٹ کی خاطر
يونان اور مقدونيہ کی سرحد پر ايک شامی بچہ روٹی ليے بھاگ رہا ہے۔ ايتھنز حکومت بارہا تنبيہ کر چکی ہے کہ بلقان روٹ کی بندش کے سبب يونان ميں اڈومينی کے مقام پر پھنسے ہوئے پناہ گزينوں کی تعداد ايک لاکھ تک پہنچ سکتی ہے۔ ايسے ميں کھانے پيشے کی اشياء کی خاطر لڑائی جھگڑے عام ہيں۔
تصویر: Getty Images/AFP/D. Dilkoff
بے بسی اور بد حالی کی تصوير
لبنان کے دارالحکومت بيروت کے نواح ميں ايک مہاجر خاتون سڑک کے کنارے بيٹھ کر اپنے بچوں کے ساتھ کھيل رہی ہے۔ لبنان ميں تقريباً ايک اعشاريہ دو ملين سے زائد پناہ گزين مقيم ہيں، جن ميں بچوں کی شرح 53 فيصد ہے۔ سيو دا چلڈرن نامی ادارے کے مطابق لبنان ميں 313,000 بچوں کو انسانی بنيادوں پر فوری مدد درکار ہے۔
تصویر: Getty Images/AFP/K. Mazraawi
بے يار و مددگار
استنبول کے قريب موٹر وے پر حکام کی جانب سے روکے جانے پر ايک غير قانونی تارک وطن کے ہاتھوں ميں بچہ بے ساختہ رو پڑا۔ گزشتہ برس ستمبر کے بعد مہاجرين کے بحران کے عروج پر ہزاروں تارکين وطن استنبول سے اڈيرن شہر کی جانب پيش قدمی کيا کرتے تھے۔ یورپ میں تارکین وطن کا بحران شروع ہونے کے بعد پہلی مرتبہ ایسا ہوا ہے کہ یونان سے مقدونیہ آنے والے پناہ گزینوں میں عورتوں اور بچوں کی تعداد مردوں سے زیادہ ہو گئی ہے۔
تصویر: Reuters/O. Orsal
ايک خواب جو پورا نہ ہو سکا
ترک شہر استنبول ميں شامی بچوں کے ليے ايک اسکول۔ اگرچہ ترکی ميں ہزارہا شامی بچے اسکول جا رہے ہيں تاہم اب بھی لاکھوں کو يہ بنيادی سہولت ميسر نہيں۔ اقوام متحدہ کی بچوں سے متعلق ايجنسی نے اسی ہفتے جاری کردہ اپنی ايک رپورٹ ميں انکشاف کيا ہے کہ اس وقت تقريباً تين ملين شامی بچے تعلیم کی سہولت سے محروم ہيں۔
تصویر: DW/K. Akyol
ہر حال ميں گزارا
اس تصوير ميں ايک شامی تارک وطن خاتون اپنے بچوں کے ہمراہ بيٹھے کھانا پکا رہی ہے۔ لبنان ميں جبل الشوف کے پہاڑی سلسلے کے قريب واقع کترمایا نامی گاؤں ميں شامی پناہ گزينوں کا ايک کيمپ قائم ہے۔ پس منظر ميں برفباری ديکھی جا سکتی ہے۔
تصویر: picture-alliance/AP Photo/Mohammed Zaatari
ہر دن ايک نئی صبح
شامی شہر کوبانی سے تعلق رکھنے والے کرد مہاجرين کے بچے عارضی خيمے لگا رہے ہيں۔ آئی او ایم کے مطابق جنوری کے مہینے میں بحیرہ ایجیئن میں ڈوبنے والے ہر پانچ تارکین وطن میں سے ایک شیر خوار بچہ تھا۔ جنوری کے مہینے ميں ترکی سے یونان جانے کی کوششوں کے دوران 272 مہاجرین ڈوب کر ہلاک ہو گئے تھے جن میں 60 بچے بھی شامل ہیں۔
تصویر: Getty Images/K. Cucel
مہاجرين کی صفوں ميں شامل تنہا بچے
جرمن دارالحکومت برلن کے ايک اسکول کے اسپورٹس ہال ميں قائم مہاجر کيمپ کا ايک منظر، جہاں ايک بچہ بستروں کے سامنے کھڑا ہوا ہے۔ گزشتہ برس جرمنی پہنچنے والے تارکين وطن ميں ستر ہزار کے لگ بھگ تنہا بچے بھی شامل تھے۔
تصویر: picture alliance/dpa/S. Kahnert
مہاجرين ميں کتنے بچے شامل
پچھلے چند مہينوں کے دوران يورپ پہنچنے والے تارکين وطن ميں مردوں، عورتوں اور بچوں کی تعداد کیا تھی۔
9 تصاویر1 | 9
رپورٹ کے متن میں کہا گیا ہے کہ جہاں تارکین وطن بچوں کے تعلیمی انضمام کی بات ہو تو کم آمدنی اور کم وسائل کے حامل والے ممالک چاڈ، ایتھوپیا اور یوگنڈا اس حوالے سے بہترین کام کر رہے ہیں۔ اس کے علاوہ مہاجر نابالغ افراد کے لیے خصوصی تعلیمی پالیسیاں وضع کرنے کے لیے کینیڈا اور آئر لینڈ کی کوششوں کو بھی سراہا گیا ہے۔ اس رپورٹ میں عطیہ دینے والے ممالک کو مہاجر بچوں کی تعلیم کے لیے رقوم تین گنا کرنے پر بھی مائل کیا گیا ہے۔
یونیسکو کے ڈائریکٹر جنرل آڈرے اسولے نے ایک بیان میں کہا،’’ تعلیم کسی بھی ملک کے سماجی نظام میں داخل اور ہم آہنگ ہونے کی کلید ہے۔ اس سے نہ صرف کمرہ جماعت میں تنوع بڑھتا ہے بلکہ استادوں کے لیے بھی مختلف قومیتوں اور پس منظروں کے بچوں کو پڑھانا ایک چیلنج کی طرح ہوتا ہے۔‘‘
جرمنی میں ترقیاتی اُمور کے وزیر گرڈ مولر نے فنکے نیوز پیپر گروپ کے اخبارات سے بات کرتے ہوئے کہا ہے کہ جرمنی مہاجر بچوں کی تعلیم کے لیے فنڈز میں سولہ ملین یورو سے اکتیس ملین یورو تک کا اضافہ کرے گا۔
ص ح / ع ت / نیوز ایجنسیز
عالمی یوم اطفال، وعدے جو ایفا نہ ہوئے
رواں برس عالمی یوم اطفال کا نعرہ ہے ’بچوں کو آزادی چاہیے‘۔ ترقی یافتہ ممالک میں تو آج یہ دن پورے جوش سے منایا جا رہا ہے، مگر دنیا کے کئی خطے ایسے ہیں، جہاں بچے شدید نوعیت کے مسائل کا شکار ہیں۔
تصویر: Mustafiz Mamun
بچوں کی جبری مشقت
بنگلہ دیش میں ساڑھے چار ملین سے زائد بچے ملازمت کرنے پر مجبور ہیں۔ جن میں سے بعض کام انتہائی خطرناک ہیں جب کہ تنخواہ بہت کم۔ مشقت کرتے یہ بچے اس ملک میں کئی مقامات پر دکھائی دیتے ہیں۔
تصویر: Mustafiz Mamun
کھیلنے کی بجائے وزن کھینچتے بچے
جس عمر میں بچوں کو اسکول جانا چاہیے اور پرسکون زندگی گزارنا چاہیے، ایسے میں بنگلہ دیش کی اس بچی جیسے لاکھوں بچے، تعلیم کا فقط خواب ہی دیکھ سکتے ہیں۔ یہ لڑکی صحت اور نشوونما پر پڑھنے والے منفی اثرات سمجھے بنا کھیلنے کودنے کی عمر میں روزانہ پتھر ڈھوتی ہے۔
تصویر: Mustafiz Mamun
کام، جشن یا جدوجہد؟
عالمی یوم اطفال کا اصل مقصد بچوں کے حقوق اور تحفظ سے متعلق شعور و آگہی دینا ہے۔ بعض ممالک میں یوم اطفال یکم جون کو منایا جاتا ہے، مگر جرمنی میں یہ دن 20 ستمبر کو منایا جاتا ہے۔ اقوام متحدہ یوم اطفال 20 نومبر کو مناتی ہے۔ اس دن سن 1989 میں عام معاہدہ برائے حقوقِ اطفال طے پایا تھا۔
تصویر: Mustafiz Mamun
مشین کے پرزوں کے لیے کھیل کا وقت کہاں
عالمی یوم اطفال کے دن بھی یہ گیارہ سالہ بچہ اس فیکٹری میں مچھروں سے بچنے والی جالی کی تیاری میں مصروف ہے۔ جنوبی بھارت میں ایسی بہت سی فیکٹریاں اور کارخانے ہیں، جہاں حفاظتی اقدامات کی حالت مخدوش ہے۔ یہاں زندگی یا جسمانی اعضاء کھو دینے کا احتمال ہمیشہ رہتا ہے۔
تصویر: picture-alliance/imageBROKER
دل چیرتا دکھ
بھارت میں انیل نامی ایک خاکروب ہلاک ہو گیا، تو اس کے بیٹے کو کم عمری میں یتیمی دیکھنا پڑی۔ شیو سنی گیارہ برس کا ہے اور یہ تصویر شائع ہو جانے کے بعد بہت سے افراد کی آنکھیں بھیگ گئیں اور اس کے لیے ساڑھے 37 ہزار یورو کے برابر امدادی رقم جمع ہوئی۔
تصویر: Twitter/Shiv Sunny
بچے اب بھی فوج میں بھرتی
بچوں کو فوج میں بھرتی کیا جانا، بچوں کے استحصال کی بدترین قسم قرار دیا جاتا ہے، تاہم یہ نوجوان جنگجو صومالیہ کی الشباب تنظیم کا رکن ہے اور اپنا زخمی ہاتھ دکھا رہا ہے۔ بہت سے بچوں کو جنسی استحصال یا غلامی یا منشیات کی فروخت کے لیے بھی استعمال کیا جاتا ہے۔
تصویر: Getty Images/AFP/M. Dahir
دیواریں اور سرحدیں
بچوں کی جبری مشقت ہی نہیں بلکہ سرحدوں اور دیواروں نے بھی بچوں کی زندگیوں کو متاثر کیا ہے۔ امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی ہدایات پر میکسیکو سے امریکا میں داخل ہونے والے بچوں کو ان کے والدین سے الگ کر دیا گیا۔ بین الاقوامی تنقید کے بعد آخرکار انہوں نے یہ انتظامی حکم نامہ واپس لیا۔
تصویر: Reuters/J. Luis Gonzalez
محدود آزادی
تین پاکستانی بچیاں گدھا گاڑی چلا رہی ہیں۔ یہ وہ تجربہ ہے، جو کسی امیر ملک میں کوئی بچہ شاید موج مستی کے لیے کرتا، مگر پاکستان کے پدارنہ معاشرے میں ان تین بچیوں کی یہ ’آزادی‘ زیادہ طویل نہیں۔