مہاجر بچوں کے لیے جرمن اقدار اور زبان کے نئے اسباق کا منصوبہ
7 مئی 2018
جرمنی کی سیاسی جماعتیں کرسچن ڈیموکریٹک یونین اور کرسچن سوشل یونین کا منصوبہ ہے کہ مہاجرین کے بچوں کو جرمن اقدار اور جرمن زبان سکھانے کے لیے نئے اسباق شروع کیے جائیں۔ اس مقصد کے لیے ایک ڈرافٹ بھی تیار کر لیا گیا ہے۔
اشتہار
جرمن اخبار ’رائنشے پوسٹ‘ نے اپنی پیر سات مئی کی اشاعت میں رپورٹ کیا ہے کہ حکمران جماعتوں سی ڈی یو اور سی ایس یو نے مہاجر بچوں کو جرمن معاشرتی اقدار اسکولوں میں پڑھانے کے لیے ایک دستاویز تیار کی ہے۔ ان نئے اسباق میں بچوں کو ملک میں قانون کی حکمرانی، صنفی مساوات اور طاقت کے استعمال پر ریاستی اجارہ داری جیسے موضوعات پر آگاہی دی جائے گی۔
جرمن روز نامے’ رائنشے پوسٹ‘ نے ڈرافٹ کا حوالہ دیتے ہوئے لکھا ہے، ’’جرمنی میں قیام کی اجازت ملنے والے تارکین وطن کے لیے سماجی انضمام کے مسئلے کو ترجیحی بنیادوں پر حل کیے جانے کی ضرورت ہے۔ یہ جرمن معاشرے میں امن برقرار رکھنے کے لیے از حد ضروری ہے۔ ان نئے اسباق کا مقصد یہ ہو گا کہ تارکین وطن کو جرمن اقدار اور قانون کی بالادستی کے بارے میں بتایا جائے اور ساتھ ہی ساتھ جرمنی میں قانونی نظام کی حدود اور فرائض کے حوالے سے بھی آگاہ کیا جائے۔‘‘
اس دستاویز کو آج بروز پیر جرمن شہر فرینکفرٹ میں سی ایس یو اور سی ڈی یو کے پارلیمانی گروپوں کے سربراہان اور وفاقی قانون سازوں کی میٹنگ میں پیش کیا جائے گا۔
جرمن اقدار پر اسباق کا آئیڈیا گزشتہ ماہ سی ایس یو کی جانب سے باویریا کے سربراہ مارکوس زؤڈر اور جرمن ریاست ہیسے سے اُن کے ہم منصب وولکر بوفیئر نے پیش کیا تھا۔
جرمن جریدے اشپیگل سے بات کرتے ہوئے بوفیئر نے کہا تھا کہ سماجی انضمام کا اسی طرح کا ایک منصوبہ گزشتہ دو برس سے مہاجرین مراکز میں بھی جاری ہے۔ بوفیئر نے اپنی بات کی وضاحت کرتے ہوئے کہاکہ چونکہ یہ منصوبہ بہت کامیاب رہا ہے لہذا اس تجربے سے فائدہ اٹھاتے ہوئے وہ اس کا دائرہ وسیع کرنا چاہتے ہیں۔ باویریا اور ہیسے دونوں جرمن صوبوں میں ریاستی انتخابات رواں برس اکتوبر میں ہونا طے پائے ہیں۔
ص ح/ رائنشے پوسٹ
ترکی میں شامی مہاجرین کے لیے انضمام کے مسائل
شام میں جاری خانہ جنگی کے باعث اپنے آبائی وطن کو ترک کر کے تُرکی آنے والے شامی مہاجرین کے لیے یہاں ایک طویل عرصہ گزارنے کے باوجود ترک زبان میں مہارت اور مناسب ملازمتیں حاصل کرنا بڑے مسائل ہیں۔
تصویر: DW/D. Cupolo
اسکول سے باہر جھانکتا شامی بچہ
ایک بچہ جنوبی ترکی میں قائم نزپ 2 نامی مہاجر کیمپ میں ایک اسکول سے باہر جھانک رہا ہے۔ یہ کیمپ رہائش کے بین الاقوامی معیار کا حامل ہے تاہم کچھ شامی مہاجرین اب بھی سماج سے کٹ کر ہی رہنا چاہتے ہیں۔
تصویر: DW/D. Cupolo
توقع سے زیادہ بہتر
سن 2012 میں دریائے فرات کے کنارے تعمیر کیے گئے نزپ2 کیمپ میں صحت اور مفت تعلیم کی سہولیات فراہم کی گئی ہیں۔ علاوہ ازیں یہاں رہنے والوں کے لیے سپر مارکیٹیں بھی بنائی گئی ہیں۔ نزپ2 میں فی الحال 4.500 شامی مہاجرین قیام پذیر ہیں۔
تصویر: DW/D. Cupolo
چالیس فیصد شامی مہاجر بچے تعلیم سے محروم
ترکی کی نیشنل ایجوکیشن کی وزارت کے مطابق اسکول جانے کی عمر کے قریب 40 فیصد بچے تعلیم سے محروم ہیں۔ نزپ2 جیسے مہاجر کیمپوں میں ہر عمر کے طالبعلم بچوں کو عربی، انگریزی اور ترک زبانوں میں مفت تعلیم دی جاتی ہے۔
تصویر: DW/D. Cupolo
برادری کے ساتھ زیادہ محفوظ
نزپ2 میں انگریزی کے استاد مصطفی عمر نے ڈی ڈبلیو کو بتایا کہ شامی بچوں کے لیے کیمپ سے باہر نکلنا اچھا ہے کیونکہ اُن کی ترکی زبان سیکھنے کی رفتار بہت آہستہ ہے۔ تاہم وہ کیمپ میں اپنی برادری کے ساتھ خود کو محفوظ تصور کرتے ہیں اور یہ ہمارے لیے اہم ہے۔
تصویر: DW/D. Cupolo
ترکی اور شامی مہاجر بچوں کی دوستی
اقتصادی اور سماجی پناہ گزین انضمام کے ماہر عمر کادکوے کا کہنا ہے کہ شامی اور ترک بچوں کے درمیان بات چیت سماجی تناؤ کو دور کرنے میں معاون ثابت ہو سکتی ہے۔
تصویر: DW/D. Cupolo
’ترک زبان سیکھنا اتنا بھی مشکل نہیں‘
ترک معاشرے میں شامی مہاجرین کے لیے زبان کی مشکلات اپنی جگہ، لیکن اس کے باجود اس مقصد میں کامیاب ہونے والوں کی کہانیاں بھی ہیں۔ سترہ سالہ ماہر اسماعیل کا کہنا ہے کہ وہ ایک ایک سال سے ترکی سیکھ رہا ہے اور یہ اتنا مشکل بھی نہیں۔ اسماعیل ستر فیصد ترکی سمجھ سکتا ہے۔
تصویر: DW/D. Cupolo
مناسب روز گار کی تلاش
ترکی میں رہنے والے شامی مہاجرین عمومی طور پر بے روز گار ہیں۔ زیادہ تر کو سخت محنت والے شعبوں میں کم درجے کی ملازمتیں مل جاتی ہیں باقی ماندہ اپنی ذاتی کاروباری کمپنیاں کھول لیتے ہیں۔
تصویر: DW/D. Cupolo
12 گھنٹے روزانہ کی شفٹ
چوبیس سالہ قہر من مارش ہفتے میں سات دن روزانہ 12 گھنٹے کی شفٹ پر ایک کباب شاپ پر ملازمت کرتا ہے، جہاں سے اسے مہینے میں ایک ہزار لیرا ملتے ہیں۔ مارش کا کہنا ہے کہ وہ اسکول جانا چاہتا ہے لیکن اُس کے پاس وقت نہیں ہے کیونکہ اُس کے والدین اُس کی کمائی پر انحصار کرتے ہیں۔
تصویر: DW/D. Cupolo
گھر جانے کو بیتاب
نزپ2 مہاجر کیمپ کے باسیوں کے ذہن میں ایک خیال ہر وقت رہتا ہے کہ گھر کب جائیں گے۔
سترہ سالہ محمد حاجی(بائیں) جو 35 لیرا یومیہ پر پھل اور سبزیاں چنتا ہے، کا کہنا ہے کہ اسکول جانے کا تو سوال ہی نہیں کیونکہ وہ اپنے گھر شام جانا چاہتا ہے۔ ستاون سالہ زکریا ارید( دائیں) شام میں اپنے شہر رقہ کے جہادی گروپ ’اسلامک اسٹیٹ‘ سے آزاد ہونے کا انتظار کر رہا ہے۔
تصویر: DW/D. Cupolo
شہریت کا سوال
شامی مہاجر خاتون آیوش احمد جو تصویر میں نظر نہیں آرہی ہیں، نے اپنی دو پوتیوں میں سے ایک کو گود میں لیا ہوا ہے۔ آیوش احمد کیمپ میں قریب 5 برس سے مقیم ہیں۔ اُن کی دونوں پوتیاں اسی کیمپ میں رہائش کے دوران پیدا ہوئی ہیں۔ آیوش احمد کا کہنا ہے،’’ اگر ہم ترکی میں رہے تو میری پوتیوں کی شہریت ترک ہو جائے گی اور اگر شام چلے گئے تو وہ شامی شہریت کی حامل ہوں گی۔