مہاجر لڑکیاں جسم فروشی پر مجبور کی جا سکتی ہیں، آئی او ایم
عاطف بلوچ، روئٹرز
22 جولائی 2017
بین الاقوامی ادارہ برائے مہاجرت نے خدشہ ظاہر کیا ہے کہ اٹلی لائی جانے والی نائجیریا کی ہزاروں مہاجر لڑکیوں کو یورپی ممالک میں جسم فروشی پر مجبور کیا جا سکتا ہے۔ بتایا گیا ہے کہ ان لڑکیوں میں متعدد کم سن ہیں۔
اشتہار
خبر رساں ادارے روئٹرز نے بین الاقوامی ادارہ برائے مہاجرت (آئی او ایم) کے حوالے سے بتایا ہے کہ انسانوں کے اسمگلر بحیرہ روم کے ذریعے نائجیریا سے اٹلی لانے والی لڑکیوں کو جسم فروشی کرنے والے نیٹ ورک کے حوالے کر سکتے ہیں۔ اس ادارے کے مطابق گزشتہ تین برسوں کے دوران خطرناک سمندری راستوں سے اٹلی لائے جانے والی ان لڑکیوں کی تعداد میں واضح اضافہ ہوا ہے۔
سن 2014 میں ایسی لڑکیوں کی تعداد 1054 تھی جبکہ گزشتہ برس یہ تعداد گیارہ ہزار کے قریب نوٹ کی گئی۔ تازہ اعدادوشمار کے مطابق رواں برس جولائی تک نائجیریا سے اٹلی اسمگل کی جانے والی ان بچیوں کی تعداد تقریبا چار ہزار تک پہنچ چکی ہے۔
جرمنی ميں جسم فروشی پر مجبور مرد پناہ گزين
01:59
اقوام متحدہ کے ذیلی ادارے آئی او ایم کے ایک محتاط اندازے کے مطابق نائجیریا سے اٹلی لائے جانے والی لڑکیوں میں سے 80 فیصد سیکس ورکر بنائے جانے کے خدشے کا شکار ہیں۔
اٹلی پہنچنے کے بعد ان لڑکیوں سے انٹرویو کیا گیا تو متعدد کا کہنا تھا کہ انہیں مفت میں ہی یورپ پہنچایا گیا ہے۔
روم میں موجود آئی او ایم کے ترجمان فلاویو ڈی جاکومو نے جمعے کی شام ٹیلی فون پر ہونے والی ایک پریس بریفنگ میں جنیوا میں موجود سفارتکاروں کو بتایا، ’’یہ لڑکیاں، جن میں سے زیادہ تر کم سن ہیں، جسم فروشی کی خاطر یورپ لائی جاتی ہیں۔‘‘
انہوں نے مزید کہا کہ انسانوں کے اسمگلر انہیں ایک اچھی زندگی کا جھانسہ دے کر اٹلی لاتے ہیں اور پھر انہیں روم کی سڑکوں پر جسم فروشی پر مجبور کیا جاتا ہے۔
فلاویو ڈی جاکومو کے مطابق کبھی کبھار ان لڑکیوں کا جنسی استحصال کرنے کی خاطر انہیں دیگر یورپی ممالک بھی بھیج دیا جاتا ہے، جن میں اسپین، جرمنی، فرانس اور آسٹریا بھی شامل ہیں۔ ان کا کہنا تھا کہ اسمگل کی جانے والی ان کم سن بچیوں کو یہ بھی معلوم نہیں ہوتا کہ جسم فروشی یا سیکس کیا چیز ہوتی ہے۔ ان نو عمر بچیوں کا خیال ہوتا ہے کہ غالبا یورپ پہنچ کر انہیں بہتر زندگی بسر کرنے کا موقع مل جائے گا۔
فلاویو ڈی جاکومو کا کہنا تھا کہ ان کی ٹیم اٹلی اسمگل کی جانے والی ان لڑکیوں کو ایسے خطرات اور ان کے حقوق سے باخبر کر ری ہے تاکہ وہ کسی مشکل سے بچنے کی خاطر پہلے سے ہی منصوبہ بندی کر سکیں۔ گزشتہ برس جسم فروشی کروانے والے ایسے نیٹ ورکس سے فرار ہونے والی 425 لڑکیوں نے پولیس سے رابطہ کیا تھا۔
یورپ میں مہاجرین کا بحران کیسے شروع ہوا؟
مشرق وسطیٰ اور افریقہ کے کئی ممالک میں بڑھتی ہوئی شورش مہاجرت کے عالمی بحران کا سبب بنی ہے۔ اس تناظر میں یورپ بھی متاثر ہوا ہے۔ آئیے تصویری شکل میں دیکھتے ہیں کہ اس بحران سے نمٹنے کی خاطر یورپ نے کیا پالیسی اختیار کی۔
تصویر: picture-alliance/PIXSELL
جنگ اور غربت سے فرار
سن دو ہزار چودہ میں شامی بحران کے چوتھے سال میں داخل ہوتے ہی جہاں اس عرب ملک میں تباہی عروج پر پہنچی وہاں دوسری طرف انتہا پسند گروہ داعش نے ملک کے شمالی علاقوں پر اپنا قبضہ جما لیا۔ یوں شام سے مہاجرت کا سلسلہ تیز تر ہو گیا۔ اس کے ساتھ ہی دیگر کئی ممالک اور خطوں میں بھی تنازعات اور غربت نے لوگوں کو ہجرت پر مجبور کر دیا۔ ان ممالک میں عراق، افغانستان، ارتریا، صومالیہ، نائجر اور کوسووو نمایاں رہے۔
تصویر: picture-alliance/dpa
پناہ کی تلاش
شامی باشندوں کی ایک بڑی تعداد سن دو ہزار گیارہ سے ہی جنگ و جدل سے چھٹکارہ پانے کی خاطر ہمسائے ممالک ترکی، لبنان اور اردن کا رخ کرنے لگی تھی۔ لیکن سن دو ہزار پندرہ میں یہ بحران زیادہ شدید ہو گیا۔ ان ممالک میں شامی مہاجرین اپنے لیے روزگار اور بچوں کے لیے تعلیم کے کم مواقع کی وجہ سے آگے دیگر ممالک کی طرف ہجرت کرنے لگے۔ تب مہاجرین نے یورپ کا رخ کرنا بھی شروع کر دیا۔
تصویر: picture-alliance/dpa
طویل مسافت لیکن پیدل ہی
سن دو ہزار پندرہ میں 1.5 ملین شامی مہاجرین نے بلقان کے مختلف رستوں سے پیدل ہی یونان سے مغربی یورپ کی طرف سفر کیا۔ مہاجرین کی کوشش تھی کہ وہ یورپ کے مالدار ممالک پہنچ جائیں۔ بڑے پیمانے پر مہاجرین کی آمد کے سبب یورپی یونین میں بغیر ویزے کے سفر کرنے والا شینگن معاہدہ بھی وجہ بحث بن گیا۔ کئی ممالک نے اپنی قومی سرحدوں کی نگرانی بھی شروع کر دی تاکہ غیر قانونی مہاجرین کو ملک میں داخل ہونے سے روکا جا سکے۔
تصویر: Getty Images/M. Cardy
سمندرعبور کرنے کی کوشش
افریقی ممالک سے یورپ پہنچنے کے خواہمشند پناہ کے متلاشی نے بحیرہ روم کو عبور کرکے اٹلی پہنچنے کی کوشش بھی جاری رکھی۔ اس دوران گنجائش سے زیادہ افراد کو لیے کئی کشتیاں حادثات کا شکار بھی ہوئیں۔ اپریل سن 2015 میں کشتی کے ایک خونریز ترین حادثے میں آٹھ سو افراد ہلاک گئے۔ یہ کشتی لیبیا سے اٹلی کے لیے روانہ ہوئی تھی۔ رواں برس اس سمندری راستے کو عبور کرنے کی کوشش میں تقریبا چار ہزار مہاجرین غرق سمندر ہوئے۔
تصویر: Reuters/D. Zammit Lupi
یورپی ممالک پر دباؤ
مہاجرین کی آمد کے سلسلے کو روکنے کی خاطر یورپی یونین رکن ممالک کے ہمسایہ ممالک پر دباؤ بڑھتا گیا۔ اس مقصد کے لیے ہنگری، سلووینیہ، مقدونیہ اور آسٹریا نے اپنی قومی سرحدوں پر باڑیں نصب کر دیں۔ پناہ کے حصول کے قوانین میں سختی پیدا کر دی گئی جبکہ شینگن زون کے رکن ممالک نے قومی بارڈرز پر عارضی طور پر چیکنگ کا نظام متعارف کرا دیا۔
تصویر: picture-alliance/epa/B. Mohai
کھلا دروازہ بند ہوتا ہوا
جرمن چانسلر انگیلا میرکل نے مہاجرین کی یورپ آمد کے لیے فراخدلانہ پالیسی اپنائی۔ تاہم ان کے سیاسی مخالفین کا دعویٰ ہے کہ میرکل کی اسی پالیسی کے باعث مہاجرین کا بحران زیادہ شدید ہوا، کیونکہ یوں زیادہ سے زیادہ لوگوں کو تحریک ملی کہ وہ یورپ کا رخ کریں۔ ستمبر سن دو ہزار سولہ میں بالاخر جرمنی نے بھی آسٹریا کی سرحد پر عارضی طور پر سکیورٹی چیکنگ شروع کر دی۔
تصویر: Reuters/F. Bensch
ترکی کے ساتھ ڈیل
سن دو ہزار سولہ کے اوائل میں یورپی یونین اور ترکی کے مابین ایک ڈیل طے پائی، جس کا مقصد ترکی میں موجود شامی مہاجرین کی یورپ آمد کو روکنا تھا۔ اس ڈیل میں یہ بھی طے پایا کہ یونان پہنچنے والے مہاجرین کو واپس ترکی روانہ کیا جائے گا۔ تاہم انسانی حقوق کی تنظیموں نے اس ڈیل کو سخت تنقید کا نشانہ بنایا۔ کہا جاتا ہے کہ اس ڈیل کی وجہ سے یورپ آنے والے مہاجرین کی تعداد میں واضح کمی ہوئی ہے۔
تصویر: Getty Images/AFP/A. Altan
مہاجرین کا نہ ختم ہونے والا بحران
مہاجرین کے بحران کی وجہ سے یورپ میں مہاجرت مخالف جذبات میں اضافہ ہوا ہے۔ یورپی ممالک ابھی تک اس بحران کے حل کی خاطر کسی لائحہ عمل پر متفق نہیں ہو سکے ہیں۔ رکن ممالک میں مہاجرین کی منصفانہ تقسیم کا کوٹہ سسٹم بھی عملی طور پرغیرمؤثر ہو چکا ہے۔ مشرق وسطیٰ اور دیگر کئی ممالک میں بدامنی کا خاتمہ ابھی تک ختم ہوتا نظر نہیں آتا جبکہ مہاجرت کا سفر اختیار کرنے والے افراد کی اموات بھی بڑھتی جا رہی ہیں۔