مہاجر کيمپ مہاجرين ہی کے ہاتھوں نذر آتش
18 مئی 2016پناہ گزينوں کے ايک گروپ کی جانب سے مہاجر کيمپ کو نذر آتش کيے جانے کا يہ واقعہ منگل اور بدھ کی درميانی شب پيش آيا۔ آگ بجھانے والے محکمے کے ايک اہلکار نے بتايا کہ اس واقعے ميں کوئی جانی نقصان نہيں ہوا اور نہ ہی کوئی زخمی ہوا ہے۔ اس اہلکار کے مطابق واقعے ميں چند بستروں وغيرہ ميں آگ لگی تھی تاہم ابھی تک يہ واضح نہيں کہ مجموعی طور پر کتنا نقصان ہوا ہے؟
لامپيڈوسا کے ميئر گيوسی نکولينی کے بقول ايک عمارت کو نذر آتش کيا گيا تھا اور اس کارروائی ميں ملوث چار مشتبہ افراد کی شناخت کر لی گئی ہے۔ اس سے قبل سن 2009 اور سن 2011 ميں بھی اسی مہاجر کيمپ ميں آگ لگنے کے واقعات رونما ہو چکے ہيں۔ يورپ ميں ايک نئی زندگی کی خواہش رکھنے والے ہزارہا افراد کے ليے يہ کيمپ يورپ کی پہلی منزل کی حيثيت رکھتا ہے۔
يہ امر اہم ہے کہ پچھلے قريب دو سالوں ميں کشتيوں پر سوار ہو کر تقريباً 320,000 تارکين وطن اطالوی ساحلوں پر پہنچے اور پھر يورپی قوانين کا احترام کيے بغير شمالی يورپ کی جانب آگے بڑھ گئے۔ سال رواں کے دوران اب تک اکتيس ہزار مہاجرين اٹلی پہنچ چکے ہيں۔ اس ملک ميں موجود مہاجر کيمپوں ميں پہلے ہی گنجائش سے کہيں زيادہ تارکين وطن قيام پذير ہيں۔ يہی وجہ ہے کہ مہاجرين کی ايسی رہائش گاہوں ميں کشيدگی کا عنصر بڑھ رہا ہے اور وہاں مقيم لوگوں ميں عدم برداشت بھی۔
لامپيڈوسا کے مہاجر کيمپوں اور سياسی پناہ کے يورپی قوانين کی مخالفت ميں حاليہ چند ماہ ميں احتجاجی مظاہرے بھی ہو چکے ہيں۔ يہ جزيرہ دراصل ’ہاٹ اسپاٹ‘ کے طور پر بھی کام کر رہا ہے جہاں يورپی اور اطالوی اہلکار مل کر کام کرتے ہوئے پناہ گزينوں کی انگليوں کے نشانات ليتے ہيں، ان کی شناخت کرتے ہيں اور ان کا باقاعدہ اندراج کيا جاتا ہے۔ اس کے بعد ہی ان تارکين وطن کو ملک ميں داخلے کی اجازت ہوتی ہے۔ يورپی قوانين کے مطابق مہاجرين کو اسی رکن ملک ميں رہنا پڑتا ہے، جہاں وہ سب پہلے پہنچے ہوں۔ اس بات کا تعين اس سے بھی کيا جاتا ہے کہ مہاجرين کی انگليوں کے نشانات کہاں ليے گئے۔ لامپيڈوسا پر احتجاج کی ايک اور وجہ وہاں موجود ايسے تارکين وطن ہيں، جو اٹلی ميں مستقل قيام کے خواہاں نہيں۔