مہاجر کیمپ تک عدم رسائی، عالمی مبصرین ہنگری چھوڑ گئے
16 نومبر 2018
اقوام متحدہ کی انسانی حقوق سے متعلق ایک ٹیم نے بوڈاپیسٹ حکام کی جانب سے مہاجر کیمپوں تک رسائی نہ دینے پر اپنا دورہ ہنگری مختصر کر دیا ہے۔
اشتہار
عالمی ماہرین کی اس ٹیم کا کہنا ہے کہ ہنگری کی حکومت نے ’غیرقانونی‘ طور پر ان کی حرکت کو محدود بنانے کی کوشش کی۔ اس ٹیم کے مطابق ہنگری کی جنوبی سرحد پر واقع ان مہاجر بستیوں میں درجنوں مہاجرین قید ہیں۔
مبصرین کے یوں ہنگری سے چلے جانے کو بوڈاپیسٹ حکومت اور اقوام متحدہ کے درمیان کشیدگی کی ایک اور لہر سے تعبیر کیا جا رہا ہے۔ ہنگری کی حکومت کا کہنا ہے کہ اقوام متحدہ مہاجرین کے حوالے سے جانب داری کا مظاہرہ کر رہی ہے اور ’جھوٹ پھیلا‘ رہی ہے۔
اقوام متحدہ کی جانب سے جمعرات کو جاری کردہ بیان میں کہا گیا ہے، ’’اقوام متحدہ کے انسانی حقوق سے متعلق ماہرین نے غیرمعمولی قدم اٹھاتے ہوئے ہنگری کے دورے کو معطل کر دیا ہے کیوں کہ ماہرین کو روزسکے اور ٹومپا کے ’ٹرانزٹ مراکز‘ تک رسائی کی اجازت نہیں دی گئی۔‘‘
ہنگری کی حکومت کی جانب سے فی الحال اس معاملے پر کوئی تبصرہ نہیں کیا گیا ہے۔
یہ بات اہم ہے کہ یورپی یونین کے جنوب مشرقی کنارے پر واقع ملک ہنگری نے ایک طویل عرصے سے مہاجرین سے متعلق سخت ترین موقف اپنا رکھا ہے۔ وزیراعظم وکٹور اوربان کی جانب سے مہاجرین اور مسلمانوں سے متعلق متعدد مواقع پر متنازعہ بیانات بھی سامنے آتے رہے ہیں۔ سن 2015ء میں مہاجرین کے بحران کے عروج کے دور میں ہنگری ہی وہ پہلا یورپی ملک تھا، جس نے غیرقانونی تارکین وطن کے لیے اپنی ملکی سرحدیں بند کی تھیں۔
’مہاجرین کے روپ میں مسلمان حملہ آور یورپ آ رہے ہیں‘
تیسری مرتبہ ہنگری کے وزیراعظم منتخب ہونے والے وکٹور اوربان یورپی ممالک میں مہاجرین کی آمد کے خلاف اٹھنے والی نمائندہ آواز رہے ہیں۔ تارکین وطن کو ’زہر‘ اور مہاجرت کو ’حملہ‘ قرار دینے والے اوربان تنقید سے کبھی نہیں ڈرے۔
تصویر: picture-alliance/dpa
’مہاجرین کے روپ میں مسلم حملہ آور‘
اوربان نے جرمن روزنامے ’دی بلڈ‘ کو دیے ایک انٹرویو میں کہا تھا،’’میں ان لوگوں کو مسلم تارکین وطن نہیں بلکہ مسلمان حملہ آور سمجھتا ہوں۔ مجھے یقین ہے کہ بڑی تعداد میں یورپ آئے یہ مسلمان مہاجر ہمیں متوازی معاشروں کی طرف لے کر جائیں گے کیوں کہ مسیحی اور مسلم سماج کبھی یکجا نہیں ہو سکتے۔‘‘ اوربان کا کہنا تھا کہ متنوع ثقافت محض ایک واہمہ ہے۔
تصویر: Reuters/F. Lenoir
’مہاجرین آپ کو چاہیے تھے، ہمیں نہیں‘
جرمن اخبار ’دی بلڈ‘ کے اس سوال پر کہ کیا یہ نا انصافی نہیں کہ جرمنی تو لاکھوں کی تعداد میں مہاجرین کو قبول کرے لیکن ہنگری چند کو بھی نہیں، اوربان نے کچھ یوں رد عمل ظاہر کیا،’’ مہاجرین آپ کو چاہیے تھے، ہمیں نہیں۔ مہاجرت سے ہنگری کی خود مختاری اور ثقافتی اقدار کو خطرہ ہے۔‘‘
تصویر: Reuters/L. Balogh
’مہاجرت زہر ہے‘
یہ پہلی بار نہیں جب ہنگری کے اس رہنما نے مہاجرت پر تنقید کی ہے۔ سن دو ہزار سولہ میں بھی اپنے ایک بیان میں اوربان نے کہا تھا کہ ہنگری کو اپنے مستقبل یا معیشت یا ملکی آبادی کو برقرار رکھنے کے لیے کسی ایک بھی مہاجر کی ضرورت نہیں ہے۔ انہوں نے مزید کہا تھا،’’ہمارے لیے مہاجرت حل نہیں بلکہ مسئلہ ہے، دوا نہیں بلکہ زہر ہے۔ ہمیں تارکین وطن کی ضرورت نہیں۔‘‘
تصویر: picture alliance/dpa/AP Photo/P. Gorondi
’دہشت گردی اور ہم جنس پرستی کی درآمد‘
وکٹور اوربان نے سن 2016 کے اوائل میں بلڈ اخبار کو بتایا تھا،’’اگر آپ مشرق وسطیٰ سے لاکھوں کی تعداد میں غیر رجسٹرڈ شدہ تارکین وطن کو قبول کرتے ہیں تو اس کا مطلب یہ ہو گا کہ آپ اپنے ملک میں دہشت گردی، سامیت دشمنی، جرائم اور ہم جنس پرستی کو در آمد کر رہے ہیں۔‘‘
تصویر: Reuters/L. Balogh
’تمام دہشت گرد بنیادی طور پر مہاجرین ہیں‘
اوربان نے یورپی یونین کے رکن ریاستوں میں مہاجرین کی تقسیم کے کوٹے کے منصوبے پر بھی متعدد بار تنقید کی ہے۔ سن 2015 میں یورپی یونین سے متعلق خبریں اور تجزیے شائع کرنے والی نیوز ویب سائٹ ’پولیٹیکو‘ کو دیے گئے ایک انٹرویو میں ہنگری کے وزیر اعظم نے کہا تھا کہ اہم بات یہ ہے کہ ’تمام دہشت گرد بنیادی طور پر مہاجرین ہیں‘۔
تصویر: Getty Images/AFP/S. Bozon
متوازی معاشرے
پولینڈ اور آسٹریا جیسی ریاستیں بھی مہاجرین کے حوالے سے ہنگری جیسے ہی تحفظات رکھتی ہیں اور یوں اوربان کے اتحادیوں میں شامل ہیں۔ سن 2015 میں اسپین کے ایک ٹی وی چینل کے ساتھ ایک انٹرویو میں اوربان کا کہنا تھا،’’ہم کس قسم کا یورپ چاہتے ہیں۔ متوازی معاشرے؟ کیا ہم چاہتے ہیں مسلمان اور مسیحی افراد ساتھ ساتھ رہیں؟‘‘
تصویر: Reuters/K. Pempel
6 تصاویر1 | 6
ہنگری نے مہاجرین کے بحران کے تناظر میں ملک کی جنوبی سرحد پر خاردار تاریں بھی نصب کی ہیں، جب کہ کئی مقامات پر اونچی آہنی دیواریں بھی موجود ہیں۔
واضح رہے کہ سن 2015ء میں ترکی سے لاکھوں افراد بحیرہء ایجیئن کے ذریعے یونان اور پھر بلقان خطے سے ہنگری کے راستے مغربی یورپ پہنچے تھے۔ بوڈاپیسٹ حکومت کی جانب سے نہ صرف سیربیا کے ساتھ لگنے والی اپنی قومی سرحد بند کی جا چکا ہے بلکہ سیاسی پناہ کے متلاشی افراد کو بھی شدید قسم کے حالات کا سامنا ہے۔ اقوام متحدہ اور یورپی یونین متعدد مرتبہ ہنگری کی مہاجرین سے متعلق پالیسیوں کو تنقید کا نشانہ بنا چکے ہیں۔