یونان کے جزیرے لیسبوس میں ایک مہاجر کیمپ میں آتشزدگی کے نتیجے میں ہزاروں مہاجرین کو محفوظ مقامات پر منتقل کر دیا گیا ہے۔ پولیس کے مطابق یہ آتشزدگی بظاہر ایک ’دانستہ کارروائی‘ معلوم ہوتی ہے۔
اشتہار
خبر رساں ادارے اے ایف پی نے حکام کے حوالے سے بیس ستمبر بروز منگل بتایا ہے کہ لیسبوس میں موریا مہاجر کیمپ میں لگنے والی آگ کی وجہ سے اگرچہ کسی کے ہلاک ہونے کی اطلاع نہیں ہے لیکن پیر کے دن رونما ہونے والے اس حادثے کی وجہ سے یہ کیمپ ’تقریباً مکمل طور پر تباہ‘ ہو گیا ہے۔
امدادی کارکنوں کے مطابق موریا کیمپ میں نصب اضافی کنٹینرز کو بھی بری طرح نقصان پہنچا ہے۔ یہ کنٹینرز وہاں اضافی مہاجرین کو رہائش، صحت اور رجسٹریشن کی سہولیات فراہم کرنے کے لیے رکھے گئے تھے۔ پولیس نے بتایا ہے کہ جب گزشتہ رات فائر فائٹرز آگ بجھانے کی کوشش میں تھے تو اس کیمپ میں رہائش پذیر مہاجرین کے متحارب گروہوں کے مابین جھڑپیں بھی ہوئیں۔
اے ایف پی نے پولیس کے حوالے سے مزید بتایا ہے کہ اس کیمپ میں موجود تین تا چار ہزار مہاجرین کو فوری طور پر لیسبوس کے ایک میدانی علاقے میں منتقل کر دیا گیا۔ اگرچہ تیز ہواؤں کی وجہ سے آگ پر قابو پانے میں شدید مشکلات پیش آئیں تاہم فائر فائٹرز بالآخر آگ پر قابو پانے میں کامیاب ہو گئے۔
میڈیا نے پولیس کے حوالے سے بتایا ہے کہ پیر کے دن موریا کیمپ کے نواح میں واقع ایسے دو مقامات پر آگ بھڑکی تھی، جہاں زیتون کے درخت ہیں لیکن اس آگ کو فوری طور پر بجھا دیا گیا تھا تاہم کیمپ کے اندر لگنے والی آگ تباہ کن ثابت ہوئی۔
ابتدائی تفتیش کے بعد پولیس نے بتایا ہے کہ ’بے شک‘ یہ آگ کیمپ میں موجود افراد کی طرف سے دانستہ طور پر لگائی گئی تھی۔ ایک پولیس اہلکار نے بتایا کہ اس کیمپ میں تقریبا ڈیڑھ سو بچے بھی تھے، جنہیں فوری طور پر لیسبوس میں واقع ایک ’چلڈرن ولیج‘ میں منتقل کر دیا گیا ہے۔
مقامی نیوز ایجنسی اے این اے کے مطابق پیر کے دن موریا نامی اس مہاجر کیمپ میں ایسی افواہیں گردش کر رہی تھیں کہ اس کیمپ میں موجود مہاجرین کو واپس ترکی روانہ کرنے کی تیاری کی جا رہی ہے، جس کے بعد وہاں تناؤ کی ایک کیفیت نمایاں ہو گئی تھی۔ تاہم وہاں تعینات سکیورٹی فورسز کی ایک معقول تعداد نے موریا کیمپ میں کشیدگی کی اس فضا کو ختم کر دیا تھا۔
موریا، دنیا کا ’بدترین مہاجر کیمپ‘
موریا بھی انہی رجسٹریشن مراکز میں سے ایک ہے۔ لمبی قطاروں، ابتر حالات اور بنیادی اشیا کی عدم موجودگی کے باعث موریا کو دنیا کا بدترین مہاجر کیمپ قرار جاتا ہے۔
تصویر: DW/D. Cupolo
حقیقی مہاجر کون ہے؟
لیسبوس پہنچتے ہی مہاجرین کو قومیت کے حوالے سے الگ الگ کر دیا جاتا ہے۔ شامی باشندوں کو ’تارا کیپی کیمپ‘ منتقل کیا جاتا ہے، جہاں زیادہ تر مہاجرین شلیٹر ہاؤسز میں رکھے جاتے ہیں۔ دیگر کو موریا کیمپ رکھا جاتا ہے۔ یہ سابقہ حراستی مرکز یونان کا پہلا ہاٹ سپاٹ رجسڑیشن کیمپ ہے، جہاں اقتصادی مقاصد کی خاطر نقل مکانی کرنے والوں کی رجسٹریشن کی جاتی ہے۔ یہاں زیادہ تر افراد کیمپوں یا درختوں کے نیچے ہی سوتے ہیں۔
تصویر: DW/D. Cupolo
بہت زیادہ رش، اہم اشیا کی قلت
اس مقام پر گنجائش سے زیادہ مہاجرین موجود ہیں۔ اس لیے یہاں تنازعات بھی جنم لیتے رہتے ہیں، جیسا کہ خوارک حاصل کرنے کی قطاروں کو توڑنے پر لڑائی۔ اقوام متحدہ کے مطابق اس کیمپ میں چار سو دس افراد کی گنجائش ہے جبکہ حقیقت میں وہاں دو تا چار ہزار افراد موجود ہوتے ہیں۔ اس کیمپ میں بنیادی اشیا کی قلت بھی ہے۔
تصویر: DW/D. Cupolo
خوراک کی کمی
ہالینڈ کے ایک امدادی ادارے کی بانی رومنا برونگرز کے بقول ان کا ادارہ اس کیمپ میں روزانہ ڈیڑھ ہزار افراد کے لیے کھانا پکاتا ہے، لیکن یہ کبھی بھی پورا نہیں ہوتا۔ وہ بتاتی ہیں کہ روز ہی کئی افراد بھوکے رہ جاتے ہیں۔ اس خاتون امدادی کارکن کا یہ بھی کہنا ہے کہ ان کا ادارہ ہرممکن کوشش کر رہا ہے لیکن مسائل زیادہ بڑے اور گھمبیر ہیں۔
تصویر: DW/D. Cupolo
کوڑے کرکٹ میں زندگی
رومنا برونگرز کا کہنا ہے کہ چھتیس رضاکاروں پر مشتمل ان کا گروہ اس کیمپ میں کوڑا کرکٹ کی صفائی اور بہتر نکاسی آب کی ذمہ داریاں نبھانے کی کوشش میں بھی ہے۔ وہ کہتی ہیں کہ اس کیمپ میں لوگ کوڑے کرکٹ میں ہی سو جاتے ہیں، ’’اس مقام کو صاف ستھرا رکھنا ناممکن ہے۔‘‘ وہ کہتی ہیں کہ حفظان صحت کی ناقص صورتحال کی وجہ سے وبائیں بھی پھوٹ سکتی ہیں۔
تصویر: DW/D. Cupolo
تحریک کا نہ ہونا
لیسبوس میں رضاکاروں کی رابطہ کمیٹی کے سربراہ فریڈ مورلٹ اس ابتر صورتحال کے لیے انتظامیہ کو ذمہ دار قرار دیتے ہیں۔ ان کے بقول پولیس اہلکار اس کیمپ کے انتظام کی ذمہ دار ہیں لیکن ان میں کچھ کرنے کے تحریک ہی نہیں اور کبھی کبھار تو وہ کام پر آتے ہی نہیں۔ مورلٹ بقول یوں یہاں پہلے سے موجود لوگوں کی رجسٹریشن نہیں ہو پاتی جبکہ مزید لوگ پہنچ جاتے ہیں۔
تصویر: DW/D. Cupolo
پاکستان سے ترکی تک ننگے پاؤں سفر
فیص اللہ (تصویر میں پنک شرٹ میں ملبوس) کے بقول انہوں نے پاکستان سے ترکی تک کا سفر بغیر جوتوں کے ننگے پاؤں ہی طے کیا۔ فیض اللہ کے دوست اسرار احمد (انتہائی دائیں) کے مطابق وہ اس کیمپ میں یونہی سوتے ہیں، بغیر کسی کمبل کے، ’’ہم ایسا اس لیے کر رہے ہیں تاکہ ہمارے بچے ہماری طرح زندگی بسر کرنے پر مجبور نہ ہوں۔‘‘
تصویر: DW/D. Cupolo
تعاون نہ ہونے کے برابر
امدادی ادارے ’ایکشن ایڈ‘ سے وابستہ قنسطنطینہ سِٹریکوا کی کوشش ہے کہ موسم سرما سے قبل اس کیمپ میں خواتین کے لیے شیلٹر ہاؤسز کا انتظام ہو جائے لیکن پولیس کی مداخلت کی وجہ سے یہ ممکن نہیں ہو پا رہا۔ انہوں نے بتایا کہ اس کیمپ کے باہر ایک کنٹینر پڑا ہے، جو رہائش کے لیے استعمال کیا جا سکتا ہے تاہم پولیس اسے اس کمیپ میں لانے کی اجازت نہیں دے رہی۔
تصویر: DW/D. Cupolo
فیصلہ کون کرے گا؟
بیس سالہ افغان شہری ارشد رحیمی کہتا ہے کہ طالبان کے ایک حملے میں اس کے باپ اور بہن کے کے قتل کے بعد اس کی ماں نے اسے افغانستان سے فرار ہونے پر مجبور کر دیا تھا۔ وہ کہتا ہے، ’’مجھے طالبان سے خطرہ لاحق ہے لیکن یہاں لوگ کہتے ہیں کہ میں اقتصادی مقاصد کے لیے نقل مکانی کر رہا ہوں۔‘‘ وہ اس الجھن میں سوال کرتا ہے کہ کون فیصلہ کرے گا کہ وہ مہاجر ہے یا نہیں؟
تصویر: DW/D. Cupolo
گوانتانامو بے جیسی صورتحال
لیسبوس میں رضاکاروں کی رابطہ کمیٹی کے سربراہ فریڈ مورلٹ اس مقام کو ایک حراستی کیمپ کے مترادف قرار دیتے ہیں، ’’باڑوں اور خار دار تاروں کے ساتھ یہ گوانتانامو کے حراستی کیمپ جیسا معلوم ہوتا ہے۔‘‘ انہوں نے مزید کہا کہ صرف موسم سرما کی وجہ سے ہی لوگ ہجرت کے عمل کو ترک نہیں کریں گے کیونکہ سردیوں میں سمندر قدرے پرسکون رہتے ہیں۔
تصویر: DW/D. Cupolo
’اللہ کے رحم و کرم پر اکیلا‘
افغان شہری یزمان یوسفی کے بقول ، ’’جب میں کشتی پر سوار ہو کر یہاں آ رہا تھا تو سمندر بیچ میں نے محسوس کیا کہ میں اللہ کے رحم وکرم پر ہوں۔‘‘ ایران میں بطور پناہ گزین زندگی بسر کر چکنے والے یوسفی نے مزید کہا کہ وہ اب بھی خود کو خدا کے ساتھ تنہا ہی محسوس کرتا ہے، ’’جیسے میں نے اس کشتی میں محسوس کیا تھا کہ اگر اللہ نے چاہا تو میں بچ جاؤں گا۔ اس کیمپ میں بھی زندگی بسر کرتے ہوئے بھی میری یہی سوچ ہے۔‘‘
تصویر: DW/D. Cupolo
10 تصاویر1 | 10
یونان میں اس وقت تقریباً ساٹھ ہزار سے زائد مہاجرین اور تارکین وطن موجود ہیں، جن میں سے زیادہ تر جرمنی یا یورپی یونین کے دیگر امیر ترین ممالک کا رخ کرنا چاہتے ہیں۔ تاہم متعدد یورپی ممالک کی طرف سے قومی سرحدوں کی سخت نگرانی اور بلقان ریاستوں پر خار دار رکاوٹوں کی وجہ سے وہ اپنے ایسے منصوبوں کو عملی جامہ پہنانے کے قابل نہیں رہے ہیں۔
یہ امر اہم ہے کہ انسانی حقوق کے سرکردہ گروہ یونان میں قائم مہاجر کیمپوں کے ابتر حالات کو شدید تنقید کا نشانہ بناتے رہتے ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ ان کیمپوں میں نہ صرف ضرورت سے زیادہ انسانوں کو رکھا جاتا ہے بلکہ وہاں بنیادی سہولیات بھی دستیاب نہیں ہیں۔ پیر کے دن حادثے کا شکار ہونے والے موریا کیمپ کو یونان کے انتظامی لحاظ سے بد ترین کیمپوں میں سے ایک قرار دیا جاتا ہے۔