مہاجر کی موت، ہنگری کی پولیس شامل تفتیش
22 جون 2016خبر رساں ادارے روئٹرز نے ہنگری میں اسٹیٹ پراسیکیوٹرز کے حوالے سے بتایا ہے کہ یہ جاننے کے لیے تحقیقاتی عمل شروع کر دیا گیا ہے کہ آیا اس مہاجر کی ہلاکت کے لیے ملکی پولیس کو بھی ذمہ دار قرار دیا جا سکتا ہے۔
دوسری طرف محکمہ پولیس کی طرف سے کہا گیا ہے کہ بائیس سالہ فرحان الحوائش نامی اس مہاجر کی موت دریا میں ڈوبنے سے ہوئی نہ کہ کسی نے اسے کسی طرح کے تشدد کا نشانہ بنایا تھا۔
فرحان یکم جون کو اس وقت دریائے تیسا میں ڈوب گیا تھا، جب وہ انسانوں کے اسمگلروں کی مدد سے متعدد دیگر مہاجرین کے ساتھ سربیا سے ہنگری میں داخل ہونے کی کوشش میں تھا۔
پولیس کو اس کی لاش دو دن بعد ملی تھی۔ اسی کوشش کے دوران فرحان کا بھائی ہنگری پہنچنے میں کامیاب ہو گیا تھا۔
فرحان کے بھائی عبداللہ کا کہنا ہے کہ جب وہ دریائے تیسا کے کنارے پر پہنچے تو سرحدی نگرانی پر تعینات ہنگری کے پولیس اہلکاروں نے دریا میں تیرتے اس کے بھائی پر مختلف اشیاء پھینکیں، گیس کا سپرے کیا اور حملہ آور کتوں تک کو بھی چھوڑ دیا گیا تھا تاکہ وہ کنارے تک نہ پہنچ پائے۔
تاہم پولیس کا کہنا ہے کہ اس کے اہلکاورں کی طرف سے کوئی غلط رویہ نہیں اپنایا گیا تھا۔ روئٹرز کو ارسال کردہ ایک بیان میں ہنگری کی پولیس نے کہا کہ یہ الزامات بے بنیاد ہیں۔ اس ای میل میں یہ بھی کہا گیا ہے کہ پانچ افراد پر مشتمل ایک عراقی کنبے کو اسی دریا سے بحفاظت نکالا گیا تھا۔ مزید یہ کہ غیر قانونی مہاجرین کے ساتھ اچھا سلوک کیا جاتا ہے اور ان کے انسانی وقار کا بھی پورا خیال رکھا جاتا ہے۔ بیان کے مطابق پولیس اپنی ذمہ داریاں انتہائی مناسب اور پیشہ ورانہ طریقے سے انجام دے رہی ہے۔
اس مہاجر کی لاش کی پوسٹ مارٹم رپورٹ کے مطابق فرحان کی ہلاکت ڈوبنے کی وجہ سے ہوئی جبکہ اس کے جسم پر تشدد کے کوئی نشان نہیں تھے۔
ہنگری میں ریاستی استغاثہ نے روئٹرز کے نام ایک ای میل بیان میں کہا ہے کہ ان امکانات کا جائزہ لیا جا رہا ہے کہ کہیں اس ہلاکت میں ملکی پولیس تو ملوث نہیں رہی۔ اس امر کے تعین کے لیے فرحان نامی عرب مہاجر کی موت سے متعلق تمام پہلوؤں کا جامع جائزہ لیا جائے گا۔
روئٹرز کے مطابق ہنگری میں یہ پہلا واقعہ ہے، جس میں کسی مہاجر کی موت کی تحقیقات میں پولیس کو بھی شک کی نگاہ سے دیکھا جا رہا ہے۔ یکم جون کو پیش آنے والے اس افسوسناک واقعے کی خبریں عام ہونے کے بعد اقوام متحدہ کے ہائی کمشنر برائے مہاجریں نے بھی مطالبہ کیا تھا کہ اس واقعے کی جامع اور غیر جانبدارانہ چھان بین کی جانا چاہیے۔