جرمنی کی سب سے گنجان آباد رياست ميں دائيں بازو کے انتہا پسندانہ آن لائن چيٹ گروپوں ميں شموليت کی وجہ سے چند پوليس اہلکاروں کی معطلی کے بعد ملک گير سطح پر پوليس کی تحقيقات کے مطالبات سامنے آ رہے ہيں۔
جرمنی کی سب سے زيادہ گنجان آباد رياست نارتھ رائن ويسٹ فيليا ميں اسی ہفتے سامنے آنے والے ايک کيس نے داخلی سطح پر کئی سوالات کھڑے کر ديے ہيں۔ تيس پوليس اہلکاروں کو انتہائی دائيں بازو کا انتہا پسندانہ مواد برآمد ہونے پر سروس سے معطل کر ديا گيا۔ مذکورہ پوليس اہلکار ميسيجنگ ايپ واٹس ايپ کے مختلف گروپوں کا حصہ تھے، جن ميں متنازعہ مواد شيئر کيا جاتا رہا۔ پانچ مختلف گروپوں ميں سابق جرمن آمر اڈولف ہٹلر کی تصاوير شيئر کی گئيں اور ايسی فرضی تصاوير بھی، جن ميں ايک مہاجر کو گيس چيمبر ميں دکھايا گيا۔ واضح رہے کہ دوسری عالمی جنگ کے دوران نازيوں نے لاکھوں يہوديوں کو گيس چيمبرز ميں جلا ديا تھا۔ يہی وجہ ہے کہ جرمنی ميں يہ معاملہ انتہائی حساس ہے۔
دنيا بھر ميں کہاں کہاں مہاجرين کے بحران جاری ہيں؟
اس وقت دنيا بھر ميں بے گھر اور ہجرت پر مجبور افراد کی تعداد تاريخ ميں اپنی اونچی ترين سطح پر ہے۔ اس تصويری گيلری ميں آپ جان سکتے ہيں کہ اس وقت کن کن ممالک کو مہاجرين کے بحرانوں کا سامنا ہے۔
رواں سال مئی کے اواخر ميں افريقی ملک برونڈی کے پناہ گزينوں کی تعداد 424,470 تھی۔ ان مہاجرين ميں سے تقريباً ستاون فيصد نے تنزانيہ ميں جبکہ بقيہ نے يوگينڈا، کانگو اور روانڈا ميں پناہ لے رکھی ہے۔ برونڈی ميں اقتصادی بد حالی، کھانے پينے کی اشياء کی قلت و بيمارياں وسيع پيمانے پر فرار کا سبب بن رہی ہيں۔ يو اين ايچ سی آر نے برونڈی کے مہاجرين کے ليے اس سال 391 ملين امريکی ڈالر کی امداد کی اپيل کر رکھی ہے۔
تصویر: Getty Images/AFP/I. Kasamani
کانگو
مئی کے اختتام پر افريقہ ميں صحارا ريگستان کے نيچے واقع ممالک ميں پناہ ليے ہوئے کانگو کے مہاجرين کی مجموعی تعداد 735,000 تھی۔ کانگو کے مختلف علاقوں ميں مسلح تنازعات جاری ہيں اور اس ملک کو درپيش مہاجرين کے بحران کو انتہائی پيچيدہ تصور کيا جاتا ہے۔ سن 2017 سے اب تک اس ملک کے ملين افراد بے گھر ہو چکے ہيں اور اس کے علاوہ پڑوسی ملکوں کے بھی لگ بھگ پانچ لاکھ مہاجرين نے کانگو ميں پناہ لے رکھی ہے۔
تصویر: Reuters/J. Akena
عراق
عراق ميں جاری مسلح تنازعے کے سبب سن 2014 سے اب تک اس ملک کے تين ملين شہری بے گھر ہو چکے ہيں۔ تازہ ترين اعداد و شمار کے مطابق 2.1 ملين عراقی شہری اس وقت بے گھر ہيں اور اپنے ملک کے اندر ہی پناہ گاہوں ميں گزر بسر کر رہے ہيں۔ 260,000 عراقی تارکين وطن پناہ کے ليے ديگر ممالک ہجرت بھی کر چکے ہيں۔
تصویر: Reuters/K. Al-Mousily
روہنگيا مہاجرين
پچيس اگست سن 2017 سے لے کر رواں سال مئی کے اواخر تک پناہ کے ليے بنگلہ ديش ہجرت کرنے والے روہنگيا مسلمانوں کی تعداد 713,000 ہے۔ روہنگيا مسلمان، ميانمار ميں ايک اقليتی گروپ ہيں جن کے پاس کسی ملک کی شہريت نہيں۔ اقوام متحدہ اپنی متعدد رپورٹوں ميں ميانمار کی فوج کے روہنگيا کے خلاف اقدامات کو ’نسل کشی‘ سے تعبير کر چکا ہے۔
تصویر: DW/ P. Vishwanathan
شام
خانہ جنگی کے شکار ملک شام ميں اس وقت 13.1 ملين افراد کو ہنگامی بنيادوں پر مدد درکار ہے۔ اس ملک ميں بے گھر افراد کی تعداد 6.6 ملين ہے جبکہ سن 2011 ميں خانہ جنگی کے آغاز سے اب تک ساڑھے پانچ ملين شامی باشندے پناہ کے ليے ديگر ممالک ہجرت کر چکے ہيں۔
تصویر: Getty Images/M. Bicanski
وسطی افريقی جمہوريہ
وسطی افريقی جمہوريہ دنيا کے غريب ترين ممالک ميں سے ايک ہے۔ اس وقت ديگر ملکوں ميں پناہ کے ليے موجود اس ملک کے پناہ گزينوں کی تعداد 582,000 ہے جبکہ اپنے ہی ملک ميں بے گھر افراد کی تعداد 687,398 ہے۔ وہاں غربت کے علاوہ متصادم مسلح گروہوں اور امن و امان کی ابتر صورتحال کے سبب مقامی لوگ ہجرت پر مجبور ہو رہے ہيں۔
تصویر: Imago/alimdi
يورپ
يورپ ميں سمندری راستوں سے اس سال اب تک 32,601 مہاجرين پہنچ چکے ہيں جبکہ بحيرہ روم کے راستے پناہ کے سفر ميں 649 ہلاک يا لاپتہ ہو چکے ہيں۔ يو اين ايچ سی آر کے مطابق 2017ء ميں172,301 مہاجرين، 2016ء ميں 362,753، سن 2015 ميں 1,015,078 اور سن 2014 ميں 216,054 مہاجرين يورپ پہنچے۔ ان مہاجرين کا تعلق مشرق وسطی، افريقہ، مشرقی يورپ اور ايشيا سے ہے۔
تصویر: imago/Anan Sesa
يمن
يمن ميں حوثی باغيوں کے خلاف سعودی قيادت ميں عسکری اتحاد کی کارروائی کے سبب اب تک 192,352 افراد پڑوسی ملکوں ميں پناہ لے چکے ہيں۔ مشرق وسطی کے غريب ملکوں ميں سے ايک يمن ميں غربت اور عدم استحکام کے علاوہ مسلح تنازعہ لوگوں کے فرار کا سبب بنا۔ اس وقت اس ملک ميں موجود بائيس ملين سے زائد افراد کو انسانی بنيادوں پر امداد کی ضرورت ہے۔
تصویر: DW/A. Stahl
نائجيريا
اس افريقی ملک ميں دہشت گرد تنظيم بوکو حرام کی کارروائيوں کے نتيجے ميں دو لاکھ سے زائد شہری ہجرت کر چکے ہيں جبکہ ملک ميں ہی بے گھر ہو جانے والے افراد کی تعداد اس وقت 1.7 ملين بنتی ہے۔ نائجر، چاڈ اور کيمرون ميں بھی بوکو حرام کی وجہ سے لگ بھگ پانچ لاکھ افراد بے گھر ہو چکے ہيں۔
تصویر: imago/epd/A. Staeritz
جنوبی سوڈان
جنوبی سوڈان ميں سن 2013 سے جاری خونريز مسلح تنازعے کے سبب اس ملک کے 2.4 ملين شہری پناہ کے ليے ديگر ممالک ہجرت کر چکے ہيں۔ علاوہ ازيں ملک کے اندر بے گھر ہو جانے والے افراد کی تعداد بھی لاکھوں ميں ہے۔
تصویر: picture-alliance/dpa/S. Forrest
پاکستان
افغانستان اور روس اور امريکا کی جنگ کے دور سے پاکستان ميں لاکھوں افغان پناہ گزين پناہ ليے ہوئے ہيں۔ يو اين ايچ سی آر کے اعداد و شمار کے مطابق اس وقت پاکستان ميں رجسٹرڈ افغان مہاجرين کی تعداد قريب 1.4 ملين ہے۔ ان مہاجرين کی ديکھ بھال کے علاوہ انہيں اتنی طويل مدت تک کے ليے بنيادی سہوليات کی فراہمی محدود وسائل والے ملک پاکستان کے ليے ايک چيلنج ثابت ہوا ہے۔
تصویر: DW/A. Saleem
11 تصاویر1 | 11
پوليس کی ملک گير سطح پر تفتيش کا مطالبہ
نارتھ رائن ويسٹ فيليا کے واقعے کے بعد کئی جرمن رياستيں يہ مطالبہ کر رہی ہيں کہ يا تو وزير داخلہ ہورسٹ زيہوفر ملک گير سطح پر پوليس ميں نسل پرستی کی تحقيقات کرائيں يا پھر رياستيں اپنے اپنے اختیارات کے تحت خود اس معاملے کی تفتيش کرائيں گی۔ سوشل ڈيموکريٹس کی جماعت ايس پی ڈی کے کئی ليڈران نے جمعے کو ذرائع ابلاغ کو يہ بات بتائی کہ اگر پوليس ميں دائيں بازو کی انتہا پسندی کے معاملے کی تفتيش کے ليے وفاقی حکومت نے قدم نہ اٹھايا، تو رياستيں اپنی اپنی سطح پر تحقيقات کے ليے تيار ہيں۔
جرمن رياست تھورنگيا کے وزير داخلہ اور تمام جرمن رياستوں کے وزرائے داخلہ کی کانفرنس کے سربراہ گے اورگ مائر نے ايک مقامی نشرياتی ادارے سے بات چيت ميں عنديہ ديا کہ اس مسئلے کی جانچ کے مقصد سے کسی تفصيلی مطالعے کے ليے تمام وزرئے داخلہ متحد ہيں۔ انہوں نے مزيد کہا، ''يہ بات ناقابل قبول ہے کہ اس قسم کے نيٹ ورکس موجود ہيں۔‘‘ انہوں نے کہا کہ اس مسئلے کے انسداد کے ليے تمام تر قانونی راستے بروئے کار لاتے ہوئے نتيجہ خيز اور بلا امتياز اقدامات درکار ہيں۔
دوسری جانب وزير داخلہ ہورسٹ زيہوفر نے ملک گير سطح پر پوليس ميں نسل پرستی کی تحقيقات کرانے سے انکار کيا ہے۔ انہوں نے جرمن اخبار 'زوڈ ڈوئچے زائيٹنگ‘ سے بات چيت کرتے ہوئے کہا ہے کہ نارتھ رائن ويسٹ فيليا کی پوليس ميں نسل پرستی کا واقعہ تکليف دہ ضرور ہے ليکن جرمنی ميں پوليس کی بھاری اکثريت ايسے رجحانات کو سرے سے مسترد کرتی ہے اور آزاد جمہوی اقدار کے حق ميں کھڑی ہے۔
پچھلے دس سالوں کے دوران دنيا بھر ميں مسلم، يہودی اور سياہ فام افراد کی برادرياں انتہائی دائيں بازو کے سياسی نظريات کے حامل افراد کے کئی پر تشدد حملوں کا نشانہ بنی ہيں۔ ايسے چند بڑے حملوں کی تفصیلات اس پکچر گيلری میں۔
تصویر: CARLOS OSORIO/REUTERS
پاکستانی نژاد کینیڈین مسلم خاندان کے ارکان پر ٹرک حملہ
کینیڈا کے صوبے اونٹاریو میں ایک شخص نے اپنا پک اپ ٹرک پیدل چلنے والے ایک مقامی مسلم خاندان کے افراد پر چڑھا دیا، جس کے نتیجے میں چار افراد ہلاک ہو گئے۔ لندن میں پیش آنے والے اس واقعے کا بیس سالہ مشتبہ ملزم حملے کے بعد موقع سے فرار ہو گیا تھا تاہم کچھ دیر بعد اسے گرفتار کر لیا گیا۔ پولیس سپرنٹنڈنٹ پال وائٹ کے مطابق اس جرم کا ارتکاب مسلمانوں سے نفرت کی بنا پر کیا گیا۔
تصویر: CARLOS OSORIO/REUTERS
نيوزی لينڈ، سن 2019: دو مساجد پر دہشت گردانہ حملے
کرائسٹ چرچ ميں جمعہ پندرہ مارچ کے روز کیے گئے دہشت گردانہ حملوں ميں انتہائی دائيں بازو کے ایک دہشت گرد نے، جو ایک آسٹریلوی شہری ہے، دو مساجد میں جمعے کی نماز پڑھنے والے مسلمانوں پر اندھا دھند فائرنگ کر کے پچاس افراد کو ہلاک کر ديا۔ يہ نيوزی لينڈ کی تاريخ میں دہشت گردی کے بد ترين اور سب سے ہلاکت خیز جڑواں واقعات تھے۔
تصویر: picture-alliance/empics/PA Wire/D. Lawson
جرمنی، سن 2019: نئے سال کی آمد پر حملہ
جرمنی کے مغربی شہروں بوٹروپ اور اَيسن ميں اکتيس دسمبر کی رات نئے سال کی آمد کی تقريبات کے دوران ايک پچاس سالہ حملہ آور نے تارکين وطن پر حملے شروع کر ديے۔ اپنی گاڑی کی مدد سے اس حملہ آور نے آٹھ افراد کو زخمی کيا۔ مجرم نے شامی اور افغان خاندانوں کو نشانہ بنايا تھا۔ پوليس نے بعد ازاں تصديق کی کہ حملہ آور غير ملکیوں کو قتل کرنا چاہتا تھا۔
تصویر: picture-alliance/dpa/M. Kusch
امريکا، سن 2018: يہوديوں کی عبادت گاہ پر فائرنگ
ستائیس اکتوبر سن 2018 کے روز ايک چھياليس سالہ حملہ آور نے امريکا کے شہر پٹسبرگ ميں يہوديوں کی ايک عبادت گاہ پر حملہ کر کے گيارہ افراد کو قتل اور سات ديگر کو زخمی کر ديا تھا۔ مجرم نے اپنی کارروائی سے قبل ساميت دشمن جذبات کا مظاہرہ بھی کيا تھا اور انٹرنيٹ پر اس ضمن ميں مواد بھی جاری کيا تھا۔ يہ امريکا ميں يہوديوں پر کیا گیا سب سے ہلاکت خیز حملہ تھا۔
تصویر: picture-alliance/AP/M. Rourke
کينيڈا، سن 2017: کيوبک کی مسجد پر حملہ
کينيڈا کے شہر کيوبک کے اسلامی ثقافتی مرکز پر جنوری 2017 کے اواخر ميں ايک مسلح حملہ آور نے فائرنگ کر کے چھ افراد کو ہلاک اور ايک درجن سے زائد کو زخمی کر ديا تھا۔ مجرم نے مغرب کی نماز کے دوران نمازيوں پر فائرنگ کی تھی۔ بعد ازاں کينيڈا کے وزير اعظم جسٹن ٹروڈو نے اسے مسلمانوں پر ايک ’دہشت گردانہ‘ حملہ قرار ديا تھا۔
تصویر: Reuters/M. Belanger
برطانيہ، سن 2017: فنسبری پارک مسجد
برطانوی دارالحکومت لندن کے شمالی حصے ميں ايک سينتاليس سالہ حملہ آور نے فنسبری پارک کے قريب واقع مسجد کے قريب کھڑے افراد کو اپنی گاڑی تلے روند ڈالا تھا۔ اس حملے ميں ايک شخص ہلاک اور دس ديگر زخمی ہوئے تھے۔ تمام متاثرين مسلم تھے، جو ماہ رمضان ميں فجر کی نماز کے بعد مسجد سے لوٹ رہے تھے۔ حملہ آور نے بعد ازاں تسليم کيا تھا کہ اس نے يہ کارروائی ’اسلام دشمنی‘ کی وجہ سے کی۔
تصویر: picture-alliance/AP Photo/F. Augstein
جرمنی، سن 2016: ميونخ ميں فائرنگ کا واقعہ
ايک اٹھارہ سالہ ايرانی نژاد جرمن شہری نے بائيس جولائی سن 2016 کے روز ميونخ کے ايک شاپنگ مال ميں فائرنگ کر کے نو افراد کو ہلاک اور چھتيس ديگر کو زخمی کر ديا تھا۔ بعد ازاں حملہ آور خود بھی مارا گيا تھا۔ پوليس کے مطابق مجرم اجانب دشمنی ميں مبتلا تھا اور نسل پرستانہ رجحانات کا حامل بھی تھا۔ وہ ذہنی دباؤ کا شکار تھا اور اسے اسکول ميں اس کے ساتھی اکثر تنگ کيا کرتے تھے۔
تصویر: Getty Images/J. Simon
امريکا، سن 2015: چارلسٹن کے چرچ ميں قتل عام
امريکا ميں سياہ فام افراد کے چرچ ’ايمانوئل افريقی ميتھوڈسٹ ايپسکوپل چرچ‘ پر سترہ جون سن 2015 کو ايک اکيس سالہ نوجوان نے حملہ کر کے متعدد افراد کو ہلاک کر ديا تھا۔ رياست جنوبی کيرولائنا کے شہر چارلسٹن ميں پیش آنے والے اس واقعے ميں نو افريقی نژاد امريکی شہری اور ايک پادری ہلاک ہو گئے تھے۔
تصویر: Getty Images/J. Raedle
امريکا، سن 2015: چيپل ہل شوٹنگ
دس فروری سن 2015 کے روز يونيورسٹی کے تین عرب مسلم طلبہ، جو ایک مرد، اس کی بیوی اور اس کی خواہر نسبتی پر مشتمل تھے، ان کے ايک سفيد فام پڑوسی نے قتل کر ديا تھا۔ چھياليس سالہ مجرم خود کو مذہب مخالف قرار دیتا تھا اور وہ ان تینوں مقتولين کو کئی مرتبہ ڈرا دھمکا بھی چکا تھا۔ اس واقعے کے بعد امريکا ميں #Muslimlivesmatter کا ہيش ٹيگ وائرل ہو گیا تھا۔
دائيں بازو کے انتہا پسند آندرس بريوک نے 22 جولائی 2011ء کو دوہرے حملے کرتے ہوئے 77 افراد کو قتل کر ديا تھا۔ پہلے اس نے اوسلو ميں ايک علاقے ميں بم دھماکا کيا جہاں کئی سرکاری دفاتر موجود تھے اور پھر ايک سمر کيمپ ميں طلبہ پر اندھا دھند فائرنگ کی۔ حملے سے قبل بريوک نے اپنا منشور بھی جاری کيا تھا، جس کے مطابق وہ يورپ کے کثير الثقافتی معاشروں اور اس براعظم ميں مسلمانوں کی بڑھتی ہوئی تعداد کے خلاف تھا۔
تصویر: picture-alliance/dpa/R. Berit
امريکا، سن 2017: شارلٹس وِل ميں کار سے حملہ
رياست ورجينيا کے شہر شارلٹس وِل ميں نيو نازيوں کی ايک ريلی کی مخالفت ميں احتجاج کرنے والوں پر ايک قوم پرست شخص نے گاڑی چڑھا دی تھی۔ اس حملے ميں ايک عورت ہلاک اور درجنوں ديگر زخمی ہو گئے تھے۔ يہ واقعہ بارہ اگست کے روز پيش آيا تھا۔
تصویر: Getty Images/AFP/P.J. Richards
جرمنی، سن 2009: ڈريسڈن کی عدالت ميں عورت کا قتل
مصر سے تعلق رکھنے والی مروا الشربينی کو ڈريسڈن کی ايک عدالت ميں يکم جولائی سن 2009 کو قتل کر ديا گيا تھا۔ ان کا قاتل ايک اٹھائيس سالہ روسی اور جرمن شہريتوں کا حامل ملزم تھا، جس کے خلاف الشربينی نے اپنے قتل سے چند لمحے قبل ہی گواہی دی تھی۔ مجرم نے قبل ازيں الشربينی کو ’دہشت گرد اور اسلام پسند‘ کہا تھا۔ مروا الشربينی کے قتل کو جرمنی ميں ’اسلاموفوبيا‘ کے نتيجے ميں ہونے والا پہلا قتل قرار ديا جاتا ہے۔