1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

مہنگائی سے متاثرہ پاکستان میں عام شہری خیراتی کاموں میں آگے

9 دسمبر 2023

پاکستان کے لیے گزشتہ چند برس زیادہ خوشگوار نہیں رہے۔ سیاسی تفریق، معاشی پریشانیاں، سیلاب، بےروزگاری اور مہنگائی، ان سب نے عوام کی مشکلات بڑھا دیں۔ لیکن زندگی رواں ہے، سماجی اور اقتصادی سرگرمیاں جاری ہیں۔ مگر کیسے؟

کورونا وائرس کی وبا کے دوران راولپنڈی میں مفت کھانا حاصل کرنے کے لیے قطار میں کھڑے ضرورت مند مقامی افراد
کورونا وائرس کی وبا کے دوران راولپنڈی میں مفت کھانا حاصل کرنے کے لیے قطار میں کھڑے ضرورت مند مقامی افرادتصویر: Getty Images/AFP/A. Qureshi

اگر آپ نے کبھی سوچا ہے کہ طرح طرح کے اقتصادی اور سماجی مسائل کے باوجود پاکستانی معاشرہ کس بنیاد پر آگے بڑھ رہا ہے، تو اس کا جواب بہت سے سماجی دانشوروں کے مطابق یہ ہے کہ اس طرز عمل کی بنیاد 'عام آدمی کا عام آدمی سے ہمدردانہ رویہ‘ ہے۔

’معاشرہ ہمدردی کی بنیاد پر کھڑا ہے‘

سماجی دانشور اور مصنف احمد اعجاز کا ڈی ڈبلیو اردو سے گفتگو کرتے ہوئے کہنا تھا، ''پاکستان میں بظاہر کچھ بھی ٹھیک نہیں چل رہا۔ اس کے باوجود کچھ بھی تعطل کا شکار نہیں۔ لوگوں کی شادیاں، کاروبار اور روزمرہ کے معمولات جاری ہیں، جس کی وجہ عام لوگوں کا ایک دوسرے سے ہمدردانہ رویہ ہے۔ ہمارا معاشرہ ہمدردی کی بنیاد پر کھڑا ہے۔"

پاکستان میں غرباء کے لیے سحری: کھانے میں شتر مرغ کا گوشت

سماجی کارکن ڈاکٹر فرزانہ باری نے ڈی ڈبلیو کو بتایا، ''پاکستان کی آبادی تقریباً تیئیس کروڑ ہے۔ بے انتہا غربت ہے۔ اس کے باوجود لوگ فاقوں سے نہیں مر رہے، کسی نہ کسی طرح بنیادی ضروریات پوری ہو ہی رہی ہیں۔ اس میں کلیدی کردار چیریٹی کا ہے۔ اسے دیکھنے کا دوسرا زاویہ یہ ہے کہ سوچیے اگر لوگ خیراتی کاموں میں اتنے فیاض نہ ہوں، تو معاشرے کا کیا حال ہو جائے گا؟"

ایسا کہنا محض جذباتیت نہیں بلکہ اس کی تصدیق کئی طرح کے تحقیقی اعداد و شمار بھی کرتے ہیں۔

ملک کے دیگر بہت سے شہروں کی طرح کراچی میں بھی ضرورت مند شہریوں کے لیے بہت سی فلاحی اور امدادی تنظیمیں مفت کھانے کا اہتمام کرتی ہیںتصویر: DW

چیریٹی سے متعلق اعداد و شمار

معروف جریدے سٹینفورڈ سوشل انوویشن ریویو کے مطابق، ''پاکستانی باشندے ہر سال اپنے ملک کی مجموعی اقتصادی پیداوار کا ایک فیصد سے زیادہ حصہ خیراتی کاموں پر خرچ کرتے ہیں، جو ہمسایہ ملک بھارت کے مقابلے میں دو گنا زیادہ ہے۔"

یہ سالانہ اوسط کینیڈا (جی ڈی پی کا 1.2 فیصد) اور برطانیہ (جی ڈی پی کا 1.3 فیصد) جیسے امیر ممالک سے تھوڑی سی کم ہے۔

جرمن عوام نے گزشتہ برس ساڑھے پانچ ارب یورو سے زائد عطیہ کیے

پاکستان سینٹر فار فلنتھراپی نے 2015ء میں گھر گھر جا کر ایک سروے کیا تھا، جس میں 15 ہزار گھرانوں سے معلومات حاصل کی گئی تھیں۔ یوں حاصل ہونے والے ڈیٹا کے تجزیے سے پتہ چلا تھا کہ عام پاکستانی ''سالانہ 240 بلین روپے خیراتی کاموں کے لیے دے دیتے ہیں۔‘‘

اسی رپورٹ کے مطابق، ''پاکستان میں تقریباً 98 فیصد لوگ کسی نہ کسی شکل میں خیراتی کاموں کے لیے رقوم خرچ کرتے ہیں۔"

ورلڈ گیِونگ انڈیکس میں 144 ممالک میں پاکستان کا نمبر 91 بنتا ہے۔

پاکستان کے ایک بڑے شہر کے ریلوے سٹیشن پر بہت سے قلی رمضان میں افطار کے لیے دی گئی امدادی خوراک کے ساتھتصویر: Akhtar Soomro/REUTERS

پاکستانی اتنے فیاض کیوں؟

رحمت اللعالمین اتھارٹی کے چیئرمین اور دانشور خورشید ندیم کے بقول اس فیاضی کی ایک بڑی وجہ پاکستانی معاشرے کا مذہبی پہلو ہے۔ انہوں نے ڈی ڈبلیو سے بات چیت کرتے ہوئے کہا، ''اسلام میں دوسروں کی مدد اور ضرورت مندوں پر خرچ کرنے کی بڑی تلقین کی گئی ہے۔ چنانچہ ایک مسلم اکثریتی معاشرے کے طور پر یہ پاکستان کی شناخت کا حصہ ہے۔ ایسا کرنا بطور انسان بھی اچھا لگتا ہے۔ لہٰذا یہ ہمدردانہ رویہ فطری ہے، جو چیریٹی کے کاموں لیے دل بڑا کر دیتا ہے۔"

کیا ایدھی سرکاری اعزاز کے ساتھ تدفین چاہتے تھے؟

احمد اعجاز کے مطابق اس کی ایک وجہ پاکستانی معاشرے کا روایتی بنیادوں پر استوار ہونا بھی ہے۔ وہ کہتے ہیں، ”کسی بھی روایتی معاشرے کی طرح ہم اپنی مدد آپ کے تحت زندگی گزارنے کے عادی ہیں۔ جدید معاشروں میں عوامی فلاح و بہبود اور معاشرتی ترقی کا ڈھانچہ ریاستوں نے فراہم کیا۔ ہمارے ہاں ایسے بنیادی ڈھانچے نہیں۔ لوگ زندگی میں آگے بڑھتے ہیں، اس لیے کہ انہیں چند ہمدرد انسان میسر آ جاتے ہیں۔"

’پاکستان میں عام آدمی اشرافیہ سے زیادہ خیرات کرتا ہے‘

روال راج کے مصنف سجاد اظہر اپنے تحقیقی مضمون 'پاکستانی ارب پتی فلاحی کاموں میں پیچھے کیوں ہیں؟‘ میں اس نتیجے پر پہنچتے ہیں کہ عام شہری خیراتی کاموں میں زیادہ حصہ ڈالتے ہیں جبکہ اکثر ارب پتی سرمایہ کاروں کے لیے خیراتی کام کرنا ٹیکسوں سے بچنے کے لیے حربہ ہوتا ہے۔

اسی سال اپریل میں صوبہ بلوچستان میں کوئٹہ یونیورسٹی کے عملے کے ارکان مہنگائی کی وجہ سے عام لوگوں کی مدد کی خاطر چندہ جمع کرتے ہوئےتصویر: Abdul Ghani Kakar

وہ لکھتے ہیں، ”امیر افراد اپنی آمدن کا ایک بڑا حصہ ٹرسٹ بنا کر اس میں خرچ ظاہر کرتے ہیں لیکن عملاً اس رقم کا بہت کم حصہ خرچ کیا جاتا ہے اور صرف کاغذوں کا پیٹ بھر کر حکومت سے ٹیکسوں میں چھوٹ لے لی جاتی ہے۔"

برطانوی شہری نے ’چیریٹی میراتھن‘ کا ہدف پورا کر لیا

صوبہ سندھ کے دارالحکومت کراچی میں قائم خیراتی ادارے عالمگیر ویلفیئر ٹرسٹ کے چیئرمین چوہدری نثار احمد کی گفتگو سے بھی اس بات کی تائید ہوتی ہے کہ پاکستان میں عام شہری چیریٹی کاموں میں زیادہ آگے ہیں۔

وہ کہتے ہیں کہ انہوں نے گزشتہ سال ''فلاحی کاموں پر ایک ارب 70 کروڑ روپے خرچ کیے، جن میں سے تقریباً 60 فیصد عطیات عام آدمی نے دیے تھے۔ باقی 40 فیصد رقوم امیر شہریوں یا اداروں نے عطیہ کی تھیں۔‘‘

گمنام بچوں کے لیے ماں کی گود کے بجائے فلاحی اداروں کے جھولے

پاکستان کے سب سے بڑے خیراتی اداروں میں سے ایک الخدمت فاؤنڈیشن پنجاب کے صدر ڈاکٹر اشرف علی نے اس صورت حال پر تبصرہ کرتے ہوئے ڈی ڈبلیو کو بتایا، ''اس میں کوئی شک نہیں کہ خیراتی کاموں میں پاکستان کے عام شہریوں کو ارب پتی سرمایہ کاروں پر سبقت حاصل ہے۔ بیشتر سرمایہ کار اس عمل کو ٹیکس بچانے کے لیے استعمال کرتے ہیں۔‘‘

ڈاکٹر اشرف علی کہتے ہیں، ”دنیا میں بڑے سرمایہ کار ٹرسٹ قائم کر کے اسے اپنا بغل بچہ نہیں بنا لیتے۔ کسی بھی ٹرسٹ کو فری، شفاف اور ایک کھلی کتاب کی طرح ہونا چاہیے۔ اس کا غیر جانبدار اداروں کی طرف سے آڈٹ بھی ہونا چاہیے، جس کے نتائج عام شہری بھی دیکھ سکیں۔"

 لوگ خیراتی اداروں کے بجائے براہ راست مدد کرنا پسند کرتے ہیں

پاکستان سینٹر فار فلنتھراپی کی رپورٹ کے مطابق، ”پاکستانی باشندے براہ راست مستحق افراد کی مدد کرنے کو ترجیح دیتے ہیں، جس کی وجہ ان میں بہت سے اداروں پر اعتماد کی کمی ہے۔"

جنوبی افریقہ میں صابری چشتی ایمبولینس سروس کا کردار

اس پہلو پر تبصرہ کرتے ہوئے ڈاکٹر اشرف علی کہتے ہیں، ”مستحقین کی براہ راست مدد نسبتاً آسان ہوتی ہے۔ آپ خود دیکھتے ہیں کہ کسی کی کیا ضرورت ہے اور پھر اس پر حسب استطاعت خرچ کر دیتے ہیں۔ لیکن جن اداروں کی شہرت بہت اچھی ہو، لوگ ان پر اعتماد بھی کرتے ہیں، جیسے الخدمت فاؤنڈیشن اور ایدھی فاؤنڈیشن جیسے ادارے۔‘‘

الخدمت فاؤنڈیشن پنجاب کے صدر کے بقول، ''ارب پتی سرمایہ کاروں کو اپنے قائم کردہ خیراتی اداروں کا نظام شفاف بنانے اور چیریٹی میں اپنا اور زیادہ حصہ ڈالنے کی ضرورت ہے۔ ایسے ادارے دیرپا منصوبے اپنا کر زیادہ بہتر خیراتی کام کر سکتے ہیں۔ اس لیے ایسے اداروں پر عمومی اعتماد کی مکمل بحالی بھی ضروری ہے۔ تاہم اگر یہی کام انفرادی سطح پر بھی کیا جا رہا ہے، تو بھی یہ قابل تحسین ہے۔"

’روزگار نہیں ہوگا تو بھوکے مر جائیں گے‘

01:35

This browser does not support the video element.

ڈی ڈبلیو کی اہم ترین رپورٹ سیکشن پر جائیں

ڈی ڈبلیو کی اہم ترین رپورٹ

ڈی ڈبلیو کی مزید رپورٹیں سیکشن پر جائیں