میانمار:باغیوں کے حملے، سکیورٹی فورسز کے متعدد اہلکار ہلاک
24 مئی 2021
میانمار میں فوجی جنتا مخالف جنگجووں نے مشرقی قصبے موبائی میں ایک درجن سے زائد سکیورٹی فورسز کو ہلا ک کر دیا۔ مقامی میڈیا کے مطابق جنگجو چار سکیورٹی اہلکاروں کو یرغمال بنا کر لے جانے میں بھی کامیاب ہو گئے۔
تصویر: STR/AFP/Getty Images
اشتہار
میانمار کی مقامی میڈیا کے مطابق فوجی جنتا کی مخالفت کرنے والے جنگجووں نے اتوار کے روز موبائی قصبے میں ایک تھانے پر قبضہ کرلیا۔ اس حملے کے دوران انہوں نے سکیورٹی فورسز کے ایک درجن سے زیادہ جوانوں کو ہلاک کر دیا۔ جنگجووں نے اپنی کارروائی کے دوران چار فوجیوں کو پکڑ لینے کا بھی دعوی کیا ہے۔
فوجی جنتا کے خلاف محاذ آرا پیپلز ڈیفینس فورسز کے ایک رکن تھیٹ وائی(اصل نام نہیں) نے بتایا کہ اتوار کے روز شان ریاست کے موبائی قصبے میں ایک تھانے پر ہونے والے حملے میں کم از کم 20 پولیس افسر مارے گئے۔”ہم نے تھانے پر قبضہ کرلیا ہے اور چار پولیس اہلکاروں کو پکڑ لیا ہے۔"
اتوار کے روز ہی ڈیموسو میں ایک اور جھڑپ کے دوران کم از کم تیرہ فوجی مارے گئے جبکہ چار جنگجو زخمی ہو گئے۔ تھیٹ وائی کا کہناتھا”ہم وہاں تھانے پر قبضہ کرنا چاہتے تھے لیکن فوج نے فضائی حملے شروع کر دیے اور ہمیں اپنے جنگجووں کو واپس بلانا پڑا۔"
فوجی جنتا کے خلاف جنگجووں کی یہ کارروائی یکم فروری کو فوجی بغاوت کرکے منتخب رہنما آنگ سا ن سوچی کو معزول کر دینے کے بعد سے ملک بھر میں پھیل جانے والے پرتشدد مظاہروں کا حصہ ہے۔
تصویر: AP Photo/picture alliance
پرتشدد واقعات
اتوار کے روز ہی چینی سرحد سے ملحق علاقے میں فائرنگ کا واقعہ بھی پیش آیا۔ فوجی جنتا مخالف ایک مسلح نسلی گروپ نے ہفتے کے روز بھارتی سرحد کے قریب واقع قیمتی پتھروں کی کان کے لیے مشہور ایک قصبے پر حملہ کر دیا تھا۔
موبائی سے موصول ہونے والی ویڈیو میں سکیورٹی فورسز کی لاشوں کو زمین پر پڑے ہوئے دیکھا جا سکتا ہے۔ ایک دیگر ویڈیو میں چار لوگوں کو آنکھوں پر پٹیاں اور پیٹھ پیچھے ہاتھوں میں رسیاں بندھے دیکھا جا سکتا ہے۔ ان کے بارے میں بتایا گیا ہے کہ یہ پولیس اہلکار ہیں۔
موبائی سے موصولہ ایک دیگر تصویر میں پولیس کی ایک گاڑی کو جلتے ہوئے دیکھا جا سکتا ہے۔
تصویر: STR/AFP/Getty Images
باغی گروپ
موبائی میانمار کے دارالحکومت نیپی ڈاو سے تقریباً 100کلومیٹر مشرق میں واقع ہے۔ اس علاقے میں کئی نسلی مسلح گروپ موجود ہیں جو گزشتہ کئی عشروں سے زیادہ خود مختاری کے لیے جنگ کر رہے ہیں۔
مقامی میڈیا کے مطابق فوجی جنتا کے خلا ف چار نسلی گروپوں کے ایک اتحاد اور فوج کے درمیان چین جانے والے ایک اہم سرحدی راستے پر اتوار کے روز جھڑپیں ہوئیں۔
تقریباً چار ماہ سے جب فوج نے اقتدار پر قبضہ کیا تھا، مقامی باغی گروپوں کے طور پر مشہور پیپلز ڈیفینس فورسز نے فوجی جنتا کے خلاف کارروائیاں تیز کر دی ہیں۔ وہ بالعموم شاٹ گن اور دیسی ساخت کے ہتھیاروں سے فوج کا مقابلہ کر رہے ہیں۔
یکم فروری کو فوجی بغاوت کے بعد سے ہی میانمار میں تقریباً روزانہ فوج کے خلاف احتجاجی مظاہرے ہو رہے ہیں جبکہ ملک گیر ہڑتالوں کی وجہ سے ہسپتالوں، اسکولوں اور تجارت پر اثر پڑ رہا ہے۔
فوج مظاہرین کو کچلنے کے لیے سخت کارروائی کر رہی ہے۔ اسسٹنس ایسوسی ایشن فار پالیٹکل پریزنرز نامی ایک گروپ کے مطابق فوج کی کاررائیوں میں اب تک کم از کم 815 افراد ہلاک ہو چکے ہیں جب کہ 5300 سے زائد کو جیلوں میں ڈال دیا گیا ہے۔
آنگ سان سوچی کی سیاست اور میانمار کی فوج کا کردار
میانمار میں فوجی بغاوت اور سیاسی رہنما آنگ سان سوچی کی حراست پر عالمی برادری سخت الفاظ میں مذمت کر رہی ہے۔ تاہم ماضی میں سوچی پر ملکی فوج کی جانب سے روہنگیا مسلمانوں کے قتل عام کے دوران خاموشی کا الزام بھی رہا ہے۔
تصویر: Sakchai Lalit/AP/picture alliance
فوجی بغاوت کے بعد سوچی زیر حراست
پیر یکم فروری 2021ء کے روز میانمار میں فوج نے اقتدار پر قبضہ کر لیا اور آنگ سان سوچی سمیت کئی سیاسی رہنماؤں کو حراست میں لے لیا۔ یہ اقدام جمہوری حکومت اور فوج میں کشیدگی کے بڑھنے کے بعد سامنے آئے۔ میانمارکی فوج نے گزشتہ نومبر کے عام انتخابات میں بڑے پیمانے پر دھاندلی کا الزام عائد کرتے ہوئے ایک برس کے لیے ایمرجنسی کا اعلان کر دیا اور سابق فوجی جنرل کو صدر کے لیے نامزد کر دیا۔
تصویر: Franck Robichon/REUTERS
نومبر 2020ء میں متنازعہ عام انتخابات
آنگ سان سوچی کی حکمران جماعت این ایل ڈی نے گزشتہ برس آٹھ نومبر کو ہونے والے عام انتخابات میں کامیابی حاصل کی۔ تاہم میانمار کی فوج کی حمایت یافتہ جماعت یونین سولیڈیرٹی اور ڈولپمنٹ پارٹی نے دھاندلی کے الزامات لگاتے ہوئے فوج کی نگرانی میں نئے انتخابات کا مطالبہ کیا۔ اس کے ساتھ ممکنہ بغاوت کی چہ مگوئیاں شروع ہوگئی۔
تصویر: Shwe Paw Mya Tin/REUTERS
روہنگیا کے خلاف فوجی آپریشن اور سوچی کی خاموشی
روہنگیا مسلمانوں کی نسل کا تعلق اُس گروہ سے ہے جن کی شہریت کو سن انیس سو بیاسی کی بدھ مت اکثریت رکھنے والی حکومت نے کالعدم قرار دے دیا تھا۔ طویل عرصے سے زیر عتاب رہنے والے ان مسلمانوں کی حالت اس وقت مزید دگرگوں ہو گئی جب دو ہزار سولہ میں میانمار کی فوج کی جانب سے ’غیر قانونی مہاجرین سے نجات‘ کی مہم شروع ہوئی جسے بین الاقوامی برادری کی جانب سے نسل کشی قرار دیا گیا۔
تصویر: picture alliance/AP Photo/K. Huda
اعزازات واپس لیے جانے کا سلسلہ
سوچی کی جانب سے جانبدارانہ بیانات اور انسانی حقوق کی خلاف ورزی کے واقعات پر خاموشی نے اُنہیں کئی بین الاقوامی اعزازات سے محروم کر دیا۔ یہاں تک کہ ان سے امن کا نوبل انعام واپس لیے جانے کا تقاضہ بھی زور پکڑ گیا۔ تاہم نوبل کمیٹی کی جانب سے کہا گیا کہ وہ اعزاز واپس نہیں لے سکتے۔ تاہم دیگر کئی بین الاقوامی اعزازات سوچی سے واپس لے لیے گئے۔
تصویر: picture-alliance/dpa
رو بہ زوال
سن دو ہزار سولہ میں اسٹیٹ کونسلر منتخب ہونے کے بعد سوچی نے ایک کمیشن تشکیل دیا جس کا مقصد راکھین میں روہنگیا کے خلاف ہونے والے مظالم کے دعووں کی تحقیقات کرنا تھا۔ سوچی نے روہنگیا اقلیت پر الزام عائد کیا کہ وہ گمراہ کن اطلاعات پھیلا رہے ہیں اور وہ انتہا پسندوں کی جانب سے لاحق خطرات پر فکر مند ہیں۔ ان کے اس نقطہ نظر پر بڑے پیمانے پر دنیا کے مسلم اکثریتی ممالک میں احتجاج کیا گیا۔
تصویر: picture-alliance/Zumapress/J. Laghari
فوجی حکومت کے زیر اثر
اپنے ملک واپسی کے بعد سن1989 سے سن 2010 کے درمیان یعنی اکیس میں سے پندرہ برس وہ اپنے ہی گھر میں نظر بند رہیں۔ سن انیس سو پچانوے کے بعد ان کو اپنے بیٹوں اور شوہر سے ملاقات پر پابندی کا سامنا بھی کرنا پڑا۔
تصویر: picture-alliance/AP Photo/D. Longstreath
بطور قانون ساز حلف برداری
آخر کار کئی دہائیوں تک جاری جدوجہد میں سوچی کو کامیابی ہوئی اور انہیں سن 2012 کے آزاد انتخابات میں حصہ لینے کی اجازت مل گئی۔ اس وقت میانمار کی فوجی حکومت سے جمہوریت کی جانب اقتدار کی منتقلی کے عمل کی ابتدا ہوئی تھی اور اسی دوران سوچی کو پارلیمان میں نشست حاصل ہوئی۔ دو ہزار پندرہ کے عام انتخابات کے بعد سے انہیں ملک کی اصل عوامی رہنما کی حیثیت ملی جبکہ سرکاری طور پر وہ وزیر خارجہ منتخب ہوئیں۔
تصویر: AP
آنگ سان سوچی، ایک فریڈم فائٹر
اپنے ملک میں جمہوریت اور انسانی حقوق کو کسی بھی حال میں ایک بار پھر بحال کرنے کے عزم پر انہیں دنیا بھر میں سراہا گیا۔ ان کی شہرت اس حد تک تھی کہ سوچی کی زندگی پر سن دو ہزار گیارہ میں نامور فرانسیسی فلمساز نے فلم بھی تیار کی۔ سوچی کو اکثر دنیا کی سب سے مشہور سیاسی قیدی پکارا جاتا تھا۔
تصویر: picture alliance/dpa/Seven Media/Doha Film Institute
جمہوریت کی ہردلعزیز شخصیت
میانمار کے مقتول بانی کی بیٹی،سوچی، انگلستان سے تعلیم مکمل کر کے سن 1980 میں اپنے وطن واپس لوٹیں۔ سن 1988 میں ملک میں فوجی ڈکٹیٹرشپ کے خلاف ہونے والی بغاوت میں انہیں کلیدی حیثیت حاصل رہی۔ سن 1990 کےانتخابات میں ان کی سیاسی جماعت، نیشنل لیگ فار ڈیموکریسی فاتح رہی تاہم اس وقت کی حکومت نے انہیں ملنے والے مینڈیٹ کو رد کر دیا۔
تصویر: dapd
9 تصاویر1 | 9
آنگ سان سوچی کی عدالت میں پیشی
میانمار کی معزول رہنما آنگ سان سوچی پیر 24 مئی کو عدالت میں پیش ہوں گی۔ ان پر 'بغاوت کے لیے لوگوں کو بھڑکانے‘ کا الزام ہے۔
یوں تو فوج نے سوچی پر کئی دیگر الزامات بھی عائد کیے ہیں جن میں نو آبادیاتی دور کے قانون آفیشیل سیکریٹس ایکٹ، کورونا وائرس کے قوانین کو توڑنے وغیرہ کے الزامات شامل ہیں تاہم سب سے سنگین الزام بغاوت کا ہے۔
سوچی فروری کے اوائل سے ہی اپنے گھر میں نظر بند ہیں۔ 75 سالہ رہنما کے وکیلوں کو بھی اب تک ان سے ملاقات کی اجازت نہیں دی گئی ہے۔ امید ہے کہ آج جب وہ عدالت میں پیش ہوں گی تو وکلاء ان سے ملاقات کر سکیں گے۔
سماعت کے لیے دارالحکومت میں ایک خصوصی عدالتی کمرہ بنایا گیا ہے۔ جو ان کے گھر کے قریب ہی واقع ہے۔
ج ا/ (اے پی، روئٹرز، ڈی پی اے)
میانمار میں فوجی بغاوت کے خلاف نوجوان شہریوں کا احتجاج