1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

میانمار: آخری رسومات کے دوران فوج کی فائرنگ

29 مارچ 2021

سیکورٹی فورسز نے ہفتے کے روز بد ترین خونریزی میں ہلاک ہونے والے ایک طالب علم کی آخری رسومات میں شرکت کے لیے اتوار کو یانگون کے قریب باگو میں جمع ہونے والوں پر فائرنگ کردی۔

Myanmar Proteste gegen Militärputsch | Verletzter
تصویر: AP/picture alliance

میانمار میں اتوار کے روز بھی مختلف مقامات پر سکیورٹی فورسز نے مظاہرین پر فائرنگ کی جس میں مزید بارہ افراد ہلاک ہوگئے۔ ادھر ہفتے کے روز فوج کی جانب سے یکم فروری کے بعد سے شدید ترین کارروائی میں 114 افراد کی ہلاکت کے واقعے کی دنیا کے ایک درجن سے زائد ملکوں نے مذمت کی ہے۔ ہلاک ہونے والوں میں 10 سے 16 سال کی عمر کے کم از کم چھ بچے شامل تھے۔

عینی شاہدین نے خبر رساں ایجنسی روئٹرز سے بات کرتے ہوئے بتایا کہ لوگ ہفتے کے روز فوجی کارروائی کے دوران ہلاک ہونے والے ایک بیس سالہ طالب علم تھئی مونگ مونگ کی آخری رسومات ادا کرنے کے لیے اقتصادی دارالحکومت ینگون کے بوگا قصبے میں جمع ہوئے تھے۔  آئی نامی ایک خاتون کا کہنا تھا”ہم تھئی مانگ کے لیے انقلابی نغمے گا رہے تھے کہ سیکورٹی فورسز وہاں پہنچ گئیں اور ہم پر فائرنگ شروع کردی۔ ہم لوگ وہاں سے کسی طرح جان بچا کر بھاگے۔“

میانمار فوجی جنتا کےسربراہ من آنگ ہیلنگتصویر: Aung Shine Oo/AP Images/picture alliance

ہلاکتوں کی تعداد ساڑھے چارسو سے تجاوز

میانمار میں عوامی مظاہروں کے دوران ہلاکتوں کی مانیٹرنگ کرنے والی ایک غیر سرکاری تنظیم اسسٹنس ایسوسی ایشن فار پولیٹیکل پریزنرز (اے اے پی پی) نے بتایا کہ اتوار کے روز ملک کے مختلف مقامات پر سکیورٹی فورسز کی فائرنگ میں بارہ افراد ہلاک ہوگئے جس کے ساتھ ہی یکم فروری سے اب تک مظاہروں کے دوران ہلاک ہونے والوں کی تعداد 459 ہوگئی ہے۔

عینی شاہدین اور مقامی میڈیا کا کہنا ہے کہ فوجی بغاوت کے بعد سے فوج نے نسلی ملیشیا پر فضائی حملے شروع کردیے ہیں جس کے بعد سرحدی علاقو ں میں رہنے والے ہزاروں افراد جان بچانے کے لیے تھائی لینڈ بھاگ گئے ہیں۔

گوکہ ینگون یا منڈالے میں، جہاں ہفتے کے روز فوج کی کارروائی میں سب سے زیادہ ہلاکتیں ہوئی تھیں، اتوار کے روز بڑے مظاہروں کی اطلاعات نہیں ہیں تاہم منڈالے میں دیر شام لوگوں نے ایک تھانے کو گھیر لیا۔ مظاہرین سکیورٹی فورسز پر پانچ مکانات میں آگ لگانے اور اسے لوٹ لینے کے الزامات لگا رہے تھے۔ اس واقعے کی تصدیق کے لیے پولیس سے رابطہ نہیں ہوسکا۔

 ’افسوس ناک اور وحشیانہ کارروائی‘

ہفتے کے روز کی خونریزی کی مغربی دنیا نے بھی شدید مذمت کی اور میانمار کے لیے اقوام متحدہ کے نمائندہ خصوصی نے کہا کہ فوج 'اجتماعی قتل عام' کر رہی ہے اور عالمی طاقتوں سے مطالبہ کیا کہ وہ فوجی جنتا کو اقتدار سے الگ تھلگ اور اسلحے تک رسائی روکنے کے لیے اقدامات کریں۔

امریکی صدر جو بائیڈن نے نامہ نگاروں سے بات چیت کرتے ہوئے میانمار میں فوجی کارروائی کی سخت مذمت کی۔ انہوں نے کہا”یہ  افسوس ناک اور انتہائی وحشیانہ کارروائی ہے۔ مجھے جو اطلاعات ملی ہیں اس کے مطابق بہت سارے لوگوں کو بلا وجہ قتل کر دیا گیا۔“

ایک سوال کے جواب میں امریکی صدر نے کہا کہ وہ میانمار پر ”پابندی عائد کرنے کے سلسلے میں غور کر رہے ہیں۔“

اقوام متحدہ کے نمائندہ خصوصی ٹام اینڈریوز نے کہا کہ اب وقت آگیا ہے کہ دنیا کارروائی کرے، اگر اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کے توسط سے نہیں تو بین الاقوامی ہنگامی اجلاس کے ذریعے یہ کارروائی عمل میں لائی جائے اورفوجی جنتا کو تیل اور گیس کی آمدن جیسی مالی اعانت سمیت اسلحہ تک رسائی کو روک دیا جانا چاہیے۔

میانمار میں فوجی بغاوت کے خلاف نوجوان شہریوں کا احتجاج

03:55

This browser does not support the video element.

انہوں نے ایک بیان میں کہا کہ مذمت یا اظہار تشویش جیسے الفاظ میانمار کے عوام کے لیے کھوکھلے دعوے معلوم ہوتے ہیں کیونکہ فوج نے وہاں بڑے پیمانے پر قتل کا ارتکاب کیا ہے۔

قبل ازیں دنیا کے بارہ اہم ممالک کے فوجی سربراہان نے بھی اپنے ایک مشترکہ بیان میں میانمار میں اقتدار پر قابض فوج کی طرف سے طاقت کے پرتشدد استعمال اور سینکڑوں شہری ہلاکتوں کی مذمت کی۔  ان عسکری رہنماؤں نے مطالبہ کیا کہ میانمار کی فوج کو پیشہ وارانہ فوج کے بین الاقوامی معیارات کا احترام کرنا چاہیے۔

اس بارے میں جاری کیے گئے ایک اعلامیے پر امریکی فوج کے چیف آف سٹاف مارک مِلی اور کئی دیگر ممالک کی مسلح افواج کے سربراہان نے دستخط کیے۔ ان ممالک میں آسٹریلیا، کینیڈا، جرمنی، یونان، اٹلی، جاپان، ڈنمارک، نیدرلینڈز، نیوزی لینڈ، جنوبی کوریا اور برطانیہ شامل ہیں۔

ج ا/ص ز (ڈی پی اے، اے پی، اے ایف پی، روئٹرز)

اس موضوع سے متعلق مزید سیکشن پر جائیں

اس موضوع سے متعلق مزید

مزید آرٹیکل دیکھائیں
ڈی ڈبلیو کی اہم ترین رپورٹ سیکشن پر جائیں

ڈی ڈبلیو کی اہم ترین رپورٹ

ڈی ڈبلیو کی مزید رپورٹیں سیکشن پر جائیں