1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

میانمار: اقلیتوں کے خلاف امتیازی قوانین اور حکومتی پشت پناہی

Zubair Bashir11 جون 2013

اس ملک کی شمالی مغربی ریاست راکھین میں روہنگیا مسلمانوں پر دو بچوں کی پابندی کے متنازعہ قانون کو ریاست کے سینئر وزیر کی پشت پناہی حاصل ہے۔

تصویر: Reuters

روہنگیا مسلمانوں پر دو بچوں کی پابندی کا قانون سابقہ فوجی حکومت نے نافذ کیا تھا اور ریاست راکھین کے مقامی حکام نے حال ہی میں مئی کے مہینے میں اس کی توثیق کی ہے۔ میانمار کے امیگریشن اور آبادی کے وزیر ’خِن یی‘ جو کے موجودہ حکومت کے سینئر وزراء میں شمار ہوتے ہیں۔ وہ اس قانون کی سرعام حمایت کررہے ہیں۔ میانمار کی اپوزیشن لیڈر آنگ سان سوچی اور اقوام متحدہ نے اس قانون کو امیتازی اور انسانی حقوق کی کھلی خلاف ورزی قرار دیا ہے۔

راکھین کے کچھ بودھوں کو ڈر ہے کہ مسلمان گھرانوں میں بچوں بلند شرح پیدائش جلد ہی اُنہیں اقلیت میں بدل دے گی۔ گزشتہ برس، ریاست راکھین میں والے پُرتشدد واقعات میں 200 افراد ہلاک اور ایک لاکھ چالیس ہزار سے زائد بے گھر ہوگئے تھے۔ انسانی حقوق کی تنظیموں کا کہنا ہے کہ مسلمانوں کے لیے دو بچوں کی حد روہنگیا نسل کے خلاف جاری انسانی حقوق کی متعدد خلاف ورزیوں میں سے ایک ہے۔

روہنگیا مسلمانوں پر عرصہ حیات تنگ کیا جا ہا ہےتصویر: AP

اس امتیازی اور متنازعہ قانون کی سر عام حمایت کرنے والے وزیر خِن یی نے خبر رساں ادارے روئٹرز سے بات کرتے ہوئے کہا،’’ یہ قانون ’بنگالی‘ عورتوں کے لیے سود مند ثابت ہوگا‘‘۔ ینگون حکومت نے اپنے ملک میں آباد اس بے وطن اقلیت کو ’بنگالی‘ قرار دیا ہے جبکہ روہنگیا مسلمانوں کا یہ دعویٰ ہے کہ ریاست راکھین صدیوں سے ان کے آباء کا مسکن رہا ہے۔

خِن یی جو کہ ایک اعلیٰ حکومتی عہدیدار ہیں ان کے اس طرح کے تبصرے نے عالمی ادروں کی تشویش کو مزید بڑھا دیا ہے۔ انسانی حقوق کی تنظیمیں اور عالمی برادری اس بیان کو نہایت سنجیدگی سے لے رہی ہے۔ ان کا موقف ہے کہ ایک ایسا ملک جہاں پہلے ہی سینکڑوں مسلمان نسلی تعصب کی بناء پر قتل اور ہزاروں بے گھر ہوچکے ہیں۔ وہاں ایک اعلیٰ حکومتی وزیر کا ایسا تبصرہ یقیناﹰ باعث تشویش ہے۔

ایک لاکھ چالیس ہزار سے زائد افراد بے گھر ہیںتصویر: AP

ریاست راکھین کی حکومت کی اس پالیسی کی عالمی برادری کی جانب سے شدید مذمت کی گئی ہے اور کہا گیا ہے کہ یہ پالیسی واضح طور پر بنیادی انسانی حقوق سے متصادم ہے۔ مقامی طبی ذرائع کے مطابق اس قانون کے نفاذ کی وجہ سے بہت سی روہنگیا خواتین جرمانے اور گرفتاری سے بچنے کے لیے اسقاط حمل کرا رہی ہیں۔

میانمار میں جاری انسانی حقوق کی سنگین خلاف ورزیاں سن 2011 سے لے کر اب تک موجود حکومت کے لیے سب سے بڑا چیلنج بنی ہوئی ہیں اور نیپیداو حکومت بدھوں کی جانب سے مسلمانوں کے خلاف جاری امتیازی سلوک اور مظالم رکوانے میں ناکامی ہے۔

zb/ai(Reuters)

ڈی ڈبلیو کی اہم ترین رپورٹ سیکشن پر جائیں

ڈی ڈبلیو کی اہم ترین رپورٹ

ڈی ڈبلیو کی مزید رپورٹیں سیکشن پر جائیں