1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

میانمار:باغی گروپ اراکان آرمی کا سرحدی قصبے پر قبضے کا دعویٰ

16 جنوری 2024

مغربی رکھائن صوبے میں سرگرم نسلی مسلح گروپ اراکان آرمی نے بھارت اور بنگلہ دیش کی سرحد سے ملحق ایک قصبے پر کنٹرول کرلینے کا دعویٰ کیا ہے۔ ملک کے مختلف حصوں میں باغیوں کے خلاف لڑائی میں فوجی حکومت کی یہ ایک بڑی شکست ہے۔

برادرہڈ الائنس ملیشیا کے جوان فوج سے قبضے میں لیے گئے ایک علاقے میں گشت کرتے ہوئے
برادرہڈ الائنس ملیشیا کے جوان فوج سے قبضے میں لیے گئے ایک علاقے میں گشت کرتے ہوئےتصویر: Handout/Kokang Information Network/AFP

میانمار میں سن 2021 میں فوجی بغاوت کے ذریعہ ایک منتخب حکومت کو اقتدار سے معزول کر دینے کے بعد سے فوجی جنتا کو ملک میں مختلف محاذوں پر مخالفین کا سامنا ہے۔ کئی سیاسی جماعتوں نے فوجی جنتا کے خلاف ایک متوازی اتحادی حکومت قائم کرلی ہے اور انہوں نے ملک کے مختلف قصبوں پر فوجی چوکیوں پر کنٹرول کرلیا ہے۔

روہنگیا مسلمانوں کی ’نسل کُشی‘ کے پانچ برس

اراکان آرمی کے ایک ترجمان نے گزشتہ روز بتایا کہ اس نے بھارت اور بنگلہ دیش کی سرحد سے ملحق پالیٹوا قصبے کو فتح کرلیا۔ کلادان ندی کے کنارے واقع یہ قصبہ پڑوسی ملکوں کے ساتھ تجارت کا ایک اہم راستہ ہے۔

اراکان آرمی کا دعویٰ ہے کہ اس کے پاس تقریباً تیس ہزار مسلح جوان ہیں اور یہ حکومت مخالف سہ جماعتی اتحاد 'برادر ہڈ الائنس' کا حصہ ہے۔ اس اتحاد میں میانمار ڈیموکریٹک الائنس آرمی اور تآنگ نیشنل لبریشن آرمی بھی شامل ہے۔ انہوں نے اکتوبر کے اواخر سے فوج کے خلاف بڑے پیمانے پر کارروائیاں شروع کر رکھی ہیں۔ ان کا دعویٰ ہے کہ انہوں نے ملک بھر میں اب تک 42 قصبات کو فوجی قبضے سے چھین لیا ہے۔

فوج کی پرتشدد کارروائیوں میں اب تک کم از کم 4363 شہری ہلاک ہوچکے ہیں جب کہ تقریباً بیس ہزار لوگوں کو حکومت نے جیلوں میں ڈال دیا ہےتصویر: Artur Widak/NurPhoto/IMAGO

اراکان آرمی کا پڑوسی ملکوں کے ساتھ بہتر تعاون کا اعلان

اراکان آرمی نے ایک بیان میں کہا، "پورے پالیٹواعلاقے میں اب فوجی کونسل کا ایک بھی کیمپ باقی نہیں بچا ہے۔ " اراکان آرمی کے ترجمان نے کہا کہ پورے پالیٹوا علاقے پر رکھائن آرمی نے کامیابی سے کنٹرول حاصل کر لیا ہے اور گروپ جلد ہی علاقے میں انتظامیہ اور قانون کے نفاذ کو بھی اپنے ہاتھوں میں لے لے گی۔

قتل عام فوج نے نہیں کیا، میانمار کی کٹھ پتلی حکومت

گروپ نے اپنے میڈیا پیج پر بیان کے ساتھ تصویریں بھی پوسٹ کی ہیں جن میں اراکان آرمی کے فوجیوں کو گروپ کے جھنڈے کے ساتھ اہم انتظامی عمارتوں کے سامنے اپنے ہتھیاروں نیزفوجیوں سے ضبط کیے گئے ہتھیار، گولہ بارود اور فوجی سازو سامان کے ساتھ پوز دیتے ہوئے دکھایا گیا ہے۔

اراکان آرمی کے ترجمان نے مزید کہا کہ "جہاں تک سرحدی استحکام کا معاملہ ہے تو ہم اس سلسلے میں پڑوسی ملکوں کے ساتھ ممکنہ طور پر بہتر تعاون کریں گے۔"

فوجی جنتا نے پالیٹوا کی صورت حال پر فی الحال کوئی تبصرہ نہیں کیا ہے۔

فوجی جنتا مخالف اتحاد کا دعویٰ ہے کہ انہوں نے ملک بھر میں اب تک 42 قصبات کو فوجی قبضے سے چھین لیا ہےتصویر: Kokang online media via AP/picture alliance

فوجی جنتا کو مسلسل شکست

 قومی اتحاد نے پچھلے گیارہ ہفتوں کے دوران چینی سرحد سے ملحق علاقوں میں میانمار فوج کو ذلت آمیز شکست دی ہے۔ پلیٹوا پر قبضے سے چند دنوں قبل ہی سہ جماعتی اتحاد میں شامل میانمار ڈیموکریٹک الائنس آرمی نے چین کی سرحد پر واقع شمالی شان صوبے میں لوکائی قصبے پر قبضہ کرلیا تھا۔

قومی اتحادی حکومت میں بین الاقوامی تعاون کے وزیر ڈاکٹر ساسا نے پلیٹوا پر اراکان آرمی کے کنٹرول کا خیر مقدم کیا ہے۔ انہوں نے سوشل میڈیا پلیٹ فارم ایکس پر لکھا، "یہ ملک گیر انقلاب، میانمار میں بہارانقلاب، فوجی آمریت کے ذریعہ کی جانے والی نسل کشی سے میانمار کی پوری آبادی کو آزاد کرانے اور میانمار کو سب کے لیے ایک جامع وفاقی جمہوری یونین کے راستے پر لے جانے کے حوالے سے ایک اہم کامیابی ہے۔"

میانمار: سوچی کے خلاف بدعنوانی کا مقدمہ

رکھائن کے اہم قصبات ہاتھوں سے نکل جانا فوجی اتھارٹی کے لیے ایک تباہ کن دھچکہ ہے۔ اطلاعات کے مطابق فوجی جنتا کیاکتاو قصبے کی جانب اراکان آرمی کی پیش قدمی کو روکنے کے لیے فضائی حملے کر رہی ہے۔ یہ قصبہ رکھائن کے دارالحکومت ستوے کو میانمار کے بقیہ علاقوں سے جوڑتا ہے۔

میانمار فوجی حکومت نے فضائی حملے کی تصدیق کی، درجنوں ہلاکتیں

فوجی جنتا گزشتہ ہفتے اپوزیشن اتحاد کے ساتھ فائر بندی پر رضا مند ہوگئی تھی۔ یہ مذاکرات چینی اہلکاروں کی سہولت کاری سے چین کے شہر کنمنگ میں منعقد ہوئی تھی۔

تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ پلیٹوا کے ہاتھ سے چلے جانے کے بعد سب سے بڑا سوال یہ ہے کہ کیا فوجی جنتا اپنی صفوں میں حوصلہ بحال کرسکتی ہے اور اپنے فوجیوں کو اپوزیشن کے خلاف لڑتے رہنے پر آمادہ کرسکتی ہے۔

انسانی حقوق کی تنظیموں کا کہنا ہے کہ فوج کی پرتشدد کارروائیوں میں اب تک کم از کم 4363 شہری ہلاک ہوچکے ہیں جب کہ تقریباً بیس ہزار لوگوں کو حکومت نے جیلوں میں ڈال دیا ہے۔

میانمار میں فوجی بغاوت کے خلاف نوجوان شہریوں کا احتجاج

03:55

This browser does not support the video element.

ج ا/ ص ز (روئٹرز، اے ایف پی)

 

ڈی ڈبلیو کی اہم ترین رپورٹ سیکشن پر جائیں

ڈی ڈبلیو کی اہم ترین رپورٹ

ڈی ڈبلیو کی مزید رپورٹیں سیکشن پر جائیں