میانمار بحران، انسانی المیے کی صورتحال ابتر ہوتی ہوئی
عاطف بلوچ، روئٹرز
4 ستمبر 2017
میانمار میں اگست سے شروع ہونے والے تشدد کے نئے سلسلے کے باعث تقریبا نوّے ہزار روہنگیا مسلمان ملک چھوڑنے پر مجبور ہو چکے ہیں۔ امدادی اداروں نے اس صورتحال کے نتیجے میں ایک بڑی تباہی سے خبردار کیا ہے۔
اشتہار
خبر رساں ادارے روئٹرز نے امدادی اداروں کے حوالے سے بتایا ہے کہ اگست کے مہینے سے میانمار میں شروع ہونے والے تازہ تشدد کے باعث کم ازکم 90 ہزار روہنگیا مسلمان ملک بدر ہو چکے ہیں۔ اس صورتحال میں امدادی اداروں کو شدید مشکلات کا سامنا ہے۔
پچیس اگست کو میانمار میں روہنگیا جنگجوؤں نے پولیس تھانوں پر منظم حملے کیے تھے، جس کے بعد سکیورٹی فورسز نے جوابی کارروائی شروع کر دی تھی۔ جنگجوؤں اور سیکورٹی فورسز کے مابین شروع ہونے والی ان جھڑپوں کے باعث زیادہ تر نقصان روہنگیا باشندوں کو ہی اٹھانا پڑا ہے۔ اس تشدد کے نتیجے میں کم از کم چار سو افراد ہلاک ہو چکے ہیں، جن میں سے اکثریت روہنگیا کی ہے۔
میانمار کی حکومت نے الزام عائد کیا ہے کہ جنگجوؤں نے ہی روہنگیا مسلم کمیونٹی کی املاک کو تباہ کیا اور لوگوں کو جان سے مارا تاہم انسانی حقوق کے اداروں نے کہا ہے کہ میانمار کی سکیورٹی فورسز ایک سوچی سمجھی اسکیم کے تحت ان روہنگیا افراد کو ملک سے نکالنے کی کوشش میں ہیں۔ ایسے ہی الزامات ان روہنگیا مسلمانوں نے بھی عائد کیے ہیں، جو راکھین سے فرار ہو کر ہمسایہ ملک بنگلہ دیش پہنچ چکے ہیں۔
بے وطن روہنگیا مسلمان کہاں جائیں؟
01:56
میانمار میں جاری اس تشدد پر نوبل امن انعام یافتہ رہنما آنگ سان سوچی کو بھی شدید تنقید کا نشانہ بنایا جا رہا ہے۔
مغربی ممالک میں فعال انسانی حقوق کی تنظیموں کا کہنا ہے کہ اس صورتحال پر سوچی کی خاموشی سمجھ سے بالا تر ہے۔
یہ امر اہم ہے کہ میانمار کی حکومت ایسے الزامات مسترد کرتی ہے کہ روہنگیا مسلمانوں کے خلاف کریک ڈاؤن جاری ہے اور انہیں ہلاک یا ملک بدر کرنے کی کوشش کی جا رہی ہے۔
گزشتہ برس اکتوبر میں بھی میانمار کے صوبے راکھین میں آباد روہنگیا افراد کے خلاف ایک حکومتی کریک ڈاؤن شروع کیا گیا تھا، جس کی وجہ سے اس مسلم اقلیتی کمیونٹی کے ہزاروں افراد بنگلہ دیش فرار ہو گئے تھے۔ اقوام متحدہ کے تازہ اعداد وشمار کے مطابق اس وقت بنگلہ دیش میں پناہ کے متلاشی روہنگیا افراد کی مجموعی تعداد ڈیرھ لاکھ تک پہنچ چکی ہے۔
امدادی اداروں نے بتایا ہے کہ بنگلہ دیش اور میانمار کی سرحد پر محصور افراد کو فوری ریلف پہنچانے میں مشکلات کا سامنا ہے۔ علاوہ ازیں روہنگیا مہاجرین نے بھی میڈیا سے شکایت کی ہے کہ ان کی مدد کرنے والا کوئی نہیں ہے۔ میانمار سے پناہ کی تلاش میں بنگلہ دیش پہنچنے والے پچیس سالہ محمد حسین نے روئٹرز کو بتایا، ’’ہم یہاں رہائش کے لیے انتظامات کی کوشش میں ہیں لیکن مناسب گنجائش نہیں ہے۔‘‘
چار دن قبل ملک سے فرا ہونے والے حسین نے مزید کہا، ’’ہم سے کسی غیر سرکاری ادارے نے بھی کوئی رابطہ نہیں کیا ہے۔ ہمارے پاس کھانا نہیں ہے۔ کچھ خواتین نے سڑکوں پر ہی بچوں کو جنم دیا ہے۔ بیمار بچوں کے علاج معالجے کے لیے بھی کوئی نہیں ہے۔‘‘
ترک صدر رجب طیب ایردوآن نے گزشتہ ہفتے اپنے بنگلہ دیشی ہم منصب عبدالحمید سے ٹیلی فون پر رابطہ کیا اور کہا کہ بنگلہ دیش آنے والے روہنگیا مسلمانوں کو مدد پہنچانے کی خاطر مناسب اقدامات کیے جائیں۔ تاہم یہ واضح نہیں ہے کہ انقرہ حکومت نے اس تناظر میں ڈھاکا حکومت کو مالی امداد کی کوئی پیشکش بھی کی ہے۔
چار ستمبر بروز پیر انڈونیشی وزیر خارجہ آنگ سان سوچی سے ملاقات کر رہے ہیں، جس دوران وہ میانمار میں جاری تشدد کو روکنے کا مطالبہ کریں گے۔
روہنگیا مسلمان کون ہیں؟
میانمار (برما) کے مغربی صوبے راكھین میں روہنگیا مسلمانوں کی آبادی تقریباﹰ دس لاکھ ہے۔ لیکن ان کی زندگیاں تشدد، امتیازی سلوک، بے بسی اور مفلسی سے زیادہ کچھ نہیں ہیں۔ جانیے روہنگیا اقلیت کے بارے میں حقائق۔
تصویر: Reuters/M.P.Hossain
کوئی ملک نہیں
روہنگیا خواتین، بچوں اور مردوں کا کوئی ملک نہیں ہے یعنی ان کے پاس کسی بھی ملک کی شہریت نہیں۔ رہتے یہ ميانمار میں ہیں لیکن انہیں صرف غیر قانونی بنگلہ دیشی مہاجر مانا جاتا ہے۔
تصویر: DW/C. Kapoor
سب سے زیادہ نسلی تشدد کا سامنا
میانمار کے اکثریتی بدھ مت افراد اور اس ملک کی سکیورٹی فورسز پر روہنگیا مسلمانوں کو نسلی تشدد کا نشانہ بنانے کا الزام عائد کیا جاتا ہے۔ روہنگیا لوگوں کو کوئی بھی حقوق یا اختیار حاصل نہیں ہیں۔ اقوام متحدہ کے مطابق یہ دنیا کی وہ اقلیت ہے، جسے اس وقت سب سے زیادہ نسلی تشدد کا سامنا ہے۔
تصویر: Reuters/M.P.Hossain
سفری پابندیاں
یہ لوگ نہ تو اپنی مرضی سے ایک جگہ سے دوسری جگہ پر جا سکتے ہیں اور نہ ہی اپنی مرضی سے کام کر سکتے ہیں۔ جن گھروں اور جھونپڑیوں میں یہ رہتے ہیں، انہیں کبھی بھی اور کسی بھی وقت خالی کرنے کو کہہ دیا جاتا ہے۔ میانمار میں ان لوگوں کی کہیں بھی سُنوائی نہیں ہوتی۔
تصویر: Reuters/M.P.Hossain
کیا یہ بنگالی ہیں؟
یہ لوگ کئی دہائیوں سے راكھین صوبے میں رہ رہے ہیں لیکن وہاں کے بدھ مت لوگ انہیں "بنگالی" کہہ کر دھتكارتے ہیں۔ یہ لوگ جو بولی بولتے ہیں، ویسی بنگلہ دیش کے جنوبی علاقے چٹاگانگ میں بولی جاتی ہے۔ روہنگیا لوگ سنی مسلمان ہیں۔
تصویر: Getty Images/Afp/C. Archambault
پرخطر سفر
اقوام متحدہ کا کہنا ہے کہ 2012ء میں مذہبی تشدد کا سلسلہ شروع ہونے کے بعد سے تقریباﹰ ایک لاکھ بیس ہزار روہنگیا مسلمان راكھین چھوڑ چکے ہیں۔ ان میں سے بہت سے لوگ سمندر میں کشتیاں ڈوبنے سے ہلاک بھی ہوئے۔
تصویر: picture-alliance/dpa/Y. Pruksarak
اجتماعی قبریں
ملائیشیا اور تھائی لینڈ کی سرحد کے قریب روہنگیا افرادکی متعدد اجتماعی قبریں ملی ہیں۔ 2015ء میں جب غیرقانونی تارکین کے خلاف کچھ سختی کی گئی تو کشتیوں پر سوار سینکڑوں روہنگیا کئی دنوں تک سمندر میں پھنسے رہے۔
تصویر: picture-alliance/dpa/F. Ismail
انسانی اسمگلنگ
روہنگیا اقلیت کی مجبوری کا فائدہ انسانوں کی اسمگلنگ کرنے والے گروہ اٹھا رہے ہیں۔ یہ مجبور لوگ اپنی جمع پونجی انہیں سونپ کر کسی محفوظ مقام کے لیے اپنی زندگی خطرے میں ڈالنے پر مجبور ہوتے ہیں۔
تصویر: DW/C. Kapoor
بنگلہ دیش کی طرف نقل مکانی
میانمار سے ملحق بنگلہ دیش کے جنوبی حصے میں تقریباﹰ تین لاکھ روہنگیا باشندے رہتے ہیں۔ ان میں سے زیادہ تر ایسے ہیں، جو میانمار سے جان بچا کر وہاں پہنچے ہیں۔
تصویر: Reuters/M.P.Hossain
پناہ حاصل کرنا آسان نہیں
ایسے روہنگیا کم ہی ہیں، جنہیں بنگلہ دیشی حکومت مہاجرین کے طور پر تسلیم کرتی ہے۔ یہ کشتیوں کے ذریعے بنگلہ دیش میں داخل ہونے کی کوشش کرتے ہیں لیکن بنگلہ دیشی سکیورٹی فورسز انہیں زبردستی واپس میانمار کی طرف بھیج دیتی ہیں۔
تصویر: Reuters
جہاں بھی پناہ ملے
بنگلادیش کے علاوہ روہنگیا لوگ بھارت، تھائی لینڈ، ملائیشیا اور چین جیسے ممالک کا بھی رخ کر رہے ہیں۔ یہ سبھی ممالک میانمار سے قریب ہیں۔
تصویر: DW/C. Kapoor
’امن کے لیے خطرہ‘
میانمار کی سکیورٹی فورسز کے مطابق چیک پوسٹوں پر ہونے والے حالیہ چند حملوں میں روہنگیا نسل کے باغی ملوث تھے۔ اس کے جواب میں روہنگیا باشندوں کے کئی دیہات کو جلا دیا گیا تھا۔ سکیورٹی فورسز کے مطابق یہ ’امن کے لیے خطرہ‘ ہیں۔
تصویر: Reuters/Soe Zeya Tun
انسانی حقوق کی تنظیموں کی اپیل
انسانی حقوق کے متعدد گروپ میانمار حکومت سے اپیل کر چکے ہیں کہ روہنگیا کو بنیادی انسانی حقوق فراہم کرنے کے ساتھ ساتھ انہیں ملکی شہریت دی جائے۔
تصویر: picture-alliance/AP Photo/S. Yulinnas
قانونی رکاوٹ
میانمار میں روہنگیا افراد کو ایک نسلی گروپ کے طور پر تسلیم ہی نہیں کیا جاتا۔ اس کی ایک وجہ 1982ء کا وہ قانون بھی ہے، جس کے مطابق شہریت حاصل کرنے کے لیے کسی بھی نسلی گروپ کو یہ ثابت کرنا ہے کہ وہ 1823ء سے قبل بھی میانمار میں ہی تھا۔
تصویر: picture-alliance/dpa/N. Win
آنگ سان سوچی پر تنقید
نوبل امن انعام یافتہ اور حکمران پارٹی کی لیڈر آنگ سان سوچی نے روہنگیا مسلمانوں کی حالت زار پر تقریبا خاموشی اختیار کر رکھی ہے، جس پر انہیں تنقید کا نشانہ بھی بنایا جا رہا ہے۔ خیال کیا جاتا ہے کہ وہ اس معاملے پر ملک کی طاقتور فوج سے اختلاف کرنا نہیں چاہتی۔